QR CodeQR Code

کوئٹہ میں زیادہ بارش اور زیادہ پانی

5 Jul 2022 00:28

اسلام ٹائمز: بعض ماہرین نے پانی کی قلت کے حوالے سے شدید حد تک خطرناک پیش گوئیاں کی ہیں۔ پینے کا پانی جس تیزی سے زمین کی سطح سے نیچے جا رہا ہے، یہ انسانی زندگی کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ پانی کے بغیر زندگی کا وجود بھی ممکن نہیں ہے۔ جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک مریخ اور دیگر سیاروں پر پانی اور زندگی کی تلاش میں ہیں، بلوچستان کے لوگ اپنی ہی زمین پر پانی سے محروم ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ انکے پاس پانی محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ جس طرح آج بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں زیادہ بارش ہوئی۔ اگر حکومت کے انتظامات درست ہوتے تو صوبے کیلئے زیادہ پانی محفوظ کیا جا سکتا تھا، مگر انتظامات نہ ہونے کیوجہ سے زیادہ بارش کا زیادہ پانی ضائع ہوکر نالوں کی نظر ہوگیا۔


تحریر: اعجاز علی
 
بلوچستان کے دارالحکومت اور چند مرکزی سڑکوں پر مشتمل چھوٹے شہر کوئٹہ میں آج بھی چھوٹے اور معمولی مسائل کسی بڑی آفت سے کم نہیں ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کسی بھی نظام سے منسلک چیز اپنے اوسط حد سے ذرا آگے پیچھے ہو جائے تو وہ انتظامیہ اور حکومت کیلئے ایک چیلج بن جاتا ہے اور اسے حل کرنے کیلئے انتظامیہ کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ بجلی، پانی، گیس، جرائم، ٹریفک اور بے شمار دیگر مسائل ایسے ہیں جنہیں کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر میں ایک پلاننگ کے تحت کام کرکے بآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ مگر مسلسل وقت گزرنے کے باوجود یہ سارے مسائل حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انتظامیہ کو ان کے حل کیلئے وقت نہیں ملتا اور حکمران اپنے دور اقتدار میں اپنا سر اس قدر اونچا کرکے گزرتے ہیں کہ زمین پر بسنے والے لوگ اور ان کے مسائل حکمرانوں کو نظر ہی نہیں آتے ہیں۔

رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں تمام تر وسائل اور معدنیات موجود ہیں، مگر یہ بدقسمت صوبہ سہولیات سے محروم ہے۔ اس کے مسائل کی فہرست بنائی جائے تو مسائل کی ایک طویل فہرست سامنے آجائے گی۔ ان تمام مسائل سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں حل کرنے والے راہنماء، دانشور، بیوروکریٹ، حکمران اور سیاستدان بلوچستان میں موجود ہی نہیں ہیں۔ صوبائی حکومت اور انتظامیہ بار بار وفاق سے گلے شکوے تو کرتی رہتی ہے اور بلوچستان کے مسائل حل نہ ہونے کا ذمہ دار وفاق کو تو ٹھہراتی ہیں، مگر جو ذمہ داریاں خود ان کے اوپر ہوتی ہیں، انہیں پورا کرنے کی توفیق حکومت اور انتظامیہ کو نہیں ملتی ہے۔ بصد معذرت صوبے کے حکمرانوں میں یا تو وہ صلاحیت ہی موجود نہیں ہے کہ صوبے کو بہتری کی طرف لے جا سکیں، یا پھر انہیں فرصت نہیں ہے کہ عوام کے لئے بھی کچھ کرسکیں۔

اب پانی کے مسئلہ کی ہی بات کر لیتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان سے شہر کے متعدد علاقوں میں پانی کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ لوگوں نے پہلے صوبائی اسمبلی کے نمائندوں کے دروازے کھٹکھٹائے، مسئلہ حل نہیں ہوا۔ حکمرانوں کو داد رسی کیلئے پکارا، کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ احتجاج کا راستہ اپنایا، کوئی صلہ نہ ملا۔ بلآخر تجارتی سڑکوں کو بند کرنے کی نوبت آپہنچی، تب جا کر حکومت کو احساس ہوا کہ شہر کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ اس وقت تو سب یہی کہہ رہے تھے کہ شہر میں بارش نہیں ہوتی، پانی کے ذخائر نہیں ہیں۔ مگر آج مون سون بارشوں کے آغاز نے ہی کوئٹہ کو درہم برہم کر دیا۔ شہر میں نکاسی آب کا کوئی درست نظام موجود نہیں ہے اور ایک دن کی بارش سے چاروں سمت سیلاب نظر آنے لگا ہے۔ بارش کے چند قطرے گرنے پر واپڈا کے ملازمین بھی فوراً اپنا فریضہ نبھاتے ہوئے بجلی بند کر دیتے ہیں اور جب تک بارش کا سلسلہ نہیں رکتا، متعدد علاقوں میں لوگ بجلی سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔

آج بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جتنی بارش ہوئی، اس کے نتیجے میں صرف اور صرف مسائل ہی پیدا ہوئے۔ ہم اس بارش کے پانی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ صرف اتنا اچھا ہوا کہ گرمی کی شدت ٹوٹ گئی۔ وہ بھی اگر قدرت کی بجائے ہماری حکومت کے اختیار میں ہوتا تو ہم اس سے بھی محروم ہو جاتے۔ حالانکہ حکومت کیلئے یہ ایک ایسا موقع ہونا چاہیئے تھا، جس سے صوبے میں پانی سے وابستہ مسائل حل ہو جاتے۔ پانی کی قلت کی غزلیں گانے والے حکمرانوں کو بلوچستان بالخصوص کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں عوام کیلئے ڈیمز بنانے چاہیئے تھے۔ صوبائی وزیر خزانہ کے مطابق اس سال کے بجٹ میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے فنڈز مختص کئے گئے ہیں، بس ہماری دعا یہی ہے کہ ان فنڈز سے ڈیمز ہی کی تعمیر ہو، وگرنہ بلوچستان میں ایسی متعدد سڑکیں اور عمارات سامنے آچکی ہیں، جن کا وجود فقط سرکاری دستاویزات اور کاغذات کی حد تک محدود ہے۔

اس کے علاوہ آج کوئٹہ میں تیز بارش اور سیلاب کی وجہ سے بعض عمارتیں بھی منہدم ہوگئیں۔ پہلا مسئلہ تو ان عمارتوں میں زندگی بسر کرنے والے افراد کی زندگی کا پیدا ہوا ہے، جنہیں فوری طور پر حل کیا جا رہا ہے۔ حکومت بلوچستان انہیں امداد فراہم کر رہی ہے، مگر اس مسئلہ کا مستقل حل یہ نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ آئندہ بھی ایسی بارشوں کے نتیجے میں مزید گھر تباہ ہو جائیں۔ ان واقعات کی روک تھام کیلئے پہلے سے ہی اقدامات اٹھانے چاہیئے۔ حکومت کو پورے شہر میں گھروں کا معائنہ کرنا ہوگا اور ان لوگوں کو امداد فراہم کرنی ہوگی، جن کے گھر تیز بارش اور سیلاب کے نتیجے میں گرنے کا خدشہ ہے۔ بے شک حکومت قرضے کا کوئی نظام تشکیل دے، جس سے لوگ اپنے گھروں کی تعمیر کریں اور اقساط میں وہ قرضہ حکومت بلوچستان کو واپس کر دیں۔

بعض ماہرین اور ریسرچرز نے پانی کی قلت کے حوالے سے شدید حد تک خطرناک پیش گوئیاں کی ہیں۔ پینے کا پانی جس تیزی سے زمین کی سطح سے نیچے جا رہا ہے، یہ موجودہ دنیا اور انسانی زندگی کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ پانی کے بغیر زندگی کا وجود بھی ممکن نہیں ہے۔ جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک مریخ اور دیگر سیاروں پر پانی اور زندگی کی تلاش میں ہیں، بلوچستان کے لوگ اپنی ہی زمین پر پانی سے محروم ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان کے پاس پانی محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ جس طرح آج بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں زیادہ بارش ہوئی۔ اگر حکومت کے انتظامات درست ہوتے تو صوبے کیلئے زیادہ پانی محفوظ کیا جا سکتا تھا، مگر انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ بارش کا زیادہ پانی ضائع ہو کر نالوں کی نظر ہوگیا۔


خبر کا کوڈ: 1002734

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1002734/کوئٹہ-میں-زیادہ-بارش-اور-پانی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org