QR CodeQR Code

توانائی کا بحران، ایران سے رابطے کی ضرورت

5 Jul 2022 08:43

اسلام ٹائمز: ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر میں مدد کیساتھ ہمیں پٹرولیم مصنوعات بھی مہیا کرسکتا ہے۔ مگر نامعلوم ہمارے موجودہ اور سابقہ حکمران امریکہ سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام پر حکومت کرنیوالے حکمران خوف کو ایک طرف رکھ کر اپنے برادر ہمسایہ ملک سے بات چیت کریں، امید ہے کہ ایران ہمیں مایوس نہیں کریگا اور اس حوالے سے کئی ممالک کے مثالیں موجود ہیں کہ اگر ہم "تخلیقی" نہیں تو "تقلیدی" ہی بن کر دوسری قوموں سے سبق سیکھ لیں۔


تحریر: سید منیر حسین گیلانی

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں امریکہ اور جی سیون کے ممالک کُود چکے ہیں، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر حالات کشیدہ ہیں، جبکہ عالمی سیاسی کشیدگی کیساتھ توانائی کے بحران بھی دنیا بھر میں بڑھ چکے ہیں اور جو حالات نظر آ رہے ہیں، دنیا کیلئے ان مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ امریکہ اور جی سیون ممالک کے حالیہ اجلاس میں روس کیخلاف حکمت عملی طے کر لی گئی ہے۔ امریکہ یوکرین کی چھ ارب ڈالر سے زیادہ کی مدد کرچکا ہے۔ جس میں زیادہ تر اسلحہ ہے۔ امریکہ کی طرف سے لانگ رینج میزائل بھی یوکرین کو روس کیخلاف فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ جو روس کے بڑے شہروں پر گرائے جا سکتے ہیں جبکہ اسی طرح باقی یورپی ممالک نے بھی یوکرین کو اسلحہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یوکرینی صدر اس جنگ کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے 2022ء کے آخر تک لے جانا چاہتے ہیں جبکہ یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ اس کا جلد خاتمہ کیا جائے۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہے کہ یورپی ممالک میں آنیوالی سردی میں گیس کی کم یا عدم دستیابی کی وجہ سے حالات خراب ہوں گے۔ جی سیون ممالک کا جو حالیہ اجلاس ہوا ہے، اس میں امریکی صدر جو بائیڈن نے فرانس کے سربراہ مملکت سے کہا ہے کہ سعودی عرب اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک سے درخواست کریں کہ وہ اپنی تیل کی پیداوار بڑھائیں۔ یہ پیغام فرانس کے صدر نے سعودیہ تک پہنچایا، مگر توقع کے برعکس انہیں مایوسی ہوئی، ان ممالک نے تیل کی پیداوار بڑھانے سے مکمل طور پر انکار کر دیا ہے۔ جو بائیڈن کی یہ کال لیک ہوگئی تو صورتحال سامنے آئی ہے کہ معاملات عالمی طاقتوں کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔ اس کے بعد تیل کی قیمت 10 سے 12 ڈالر بڑھ گئی ہے۔ اسی طرح کے پیغام کے جواب میں ایران نے بھی تیل کی پیداوار بڑھانے سے انکار کر دیا ہے۔

آنیوالے وقت میں خدشہ ہے کہ خام تیل کی قیمت 150 ڈالر فی بیرل تک چلی جائے گی۔ جس کے اثرات پاکستان پر بھی بہت زیادہ گہرے ہوں گے۔ سری لنکا میں آج صورتحال یہ ہے کہ وہاں پٹرول نہیں مل رہا اور کوئی ملک بھی انہیں آئل فراہم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی کوئی بڑی کمپنی پاکستانی ٹینڈرز کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس لئے اب یہ آئل کمپنیاں کوشش کر رہی ہیں کہ انہیں کوئی مڈل مین مل جائے، جس کے پاس سرمایہ ہو تو وہ خریدار بنے اور منافع حاصل کرکے پاکستان کو فروخت کر دے۔ پاکستان کو گیس کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ مجھ سمیت کئی رہنماء بار بار مطالبہ کرچکے ہیں کہ ایران کیساتھ جو گیس پائپ لائن معاہدہ ہے، اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ ایران نے گیس پائپ لائن ہمارے بارڈر تک پہنچا دی ہے۔ کاش، ہمارے حکمران ذہین اور مخلص ہوں تو ایران کو کچھ معاملات میں سہولت فراہم کرکے اس سے درخواست کریں کہ پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے میں ان کی مالی مدد کرے۔

اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر جو بھی ممکنہ متبادل انتظامات ہوں، کر لئے جائیں۔ یعنی بی او ٹی یا کسی اور سسٹم سے کام چل سکتا ہے تو آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے، ورنہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ آنیوالے دنوں میں مہنگائی، بیروزگاری، توانائی کے بحران، آبی وسائل کی قلت، اشیائے خورد و نوش اور بنیادی ضروریات زندگی کی قلت پیدا ہونے سے ایک طوفان کھڑا ہوسکتا ہے۔ زرعی اجناس اور دیگر بنیادی اشیائے خورد و نوش کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ اس حوالے سے میں پہلے بھی تجویز دے چکا ہوں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ خاص طور پر پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے کاشتکاروں کو سہولت فراہم کرنے، پانی کی قلت سے بچانے کیلئے سولر سسٹم دینے میں مدد کی جائے تو ہم اپنے قدرتی وسائل سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم زرعی اجناس تو ہماری غذائی ضروریات کو پورا کرسکتی ہیں۔

ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر میں مدد کیساتھ ہمیں پٹرولیم مصنوعات بھی مہیا کرسکتا ہے۔ مگر نامعلوم ہمارے موجودہ اور سابقہ حکمران امریکہ سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام پر حکومت کرنیوالے حکمران خوف کو ایک طرف رکھ کر اپنے برادر ہمسایہ ملک سے بات چیت کریں، امید ہے ایران ہمیں مایوس نہیں کرے گا اور اس حوالے سے کئی ممالک کے مثالیں موجود ہیں کہ اگر ہم "تخلیقی" نہیں تو "تقلیدی" ہی بن کر دوسری قوموں سے سبق سیکھ لیں اور اپنے ملک کے بحرانوں پر قابو پانے کیلئے ابھی سے منصوبہ بندی کر لیں، ورنہ جو حالات آنیوالے ہیں، وہ خطرناک ہی ہوں گے۔ اچھی قوموں کی تقلید کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف، حکومت میں شامل جماعتوں کے سربراہان اپنا سرمایہ وطن واپس لائیں۔ پنجاب سندھ اور خیبر پختونخوا میں سولر سسٹم لگانے کیلئے کاشتکاروں کی مدد کریں، تاکہ قحط سالی کو روکا جا سکے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جبر کے ذریعے سپر ٹیکس لگانے کی بجائے، ملک بھر کے چیمبر آف کامرس سولر سسٹم لگانے میں کاشتکاروں کی مدد کریں۔ تاجر تنظیمیں آگے بڑھیں، مختلف ڈویژنوں کا انتخاب کرلیں اور وہاں کے چھوٹے غریب کاشتکاروں کو ضروری سہولیات فراہم کریں، تاکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالا جا سکے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے ٹیکس مسلط کرنے کی نہیں، خلوص پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس چوری کیلئے لوگ راستے ڈھونڈ لیتے ہیں، لیکن خلوص کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ ہمیں قوم کو انتظامی اور انتقامی معاملات میں الجھانے کے بجائے ان کی فکری تربیت کی طرف توجہ دینی چاہیئے، تاکہ واقعی ہم ”ریاست مدینہ“ کی طرف سفر شروع کرسکیں۔ اس کے علاوہ میں یہ گزارش بھی کرنا چاہتا ہوں کہ میاں نواز شریف، شہباز شریف اور آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر صاحب ثروت لوگ اور ان کے ساتھی انسانیت کی بقاء اور غربت کے خاتمے کیلئے اپنی دولت میں سے ملکی معیشت کو بہتر کرنے کیلئے اپنا حصہ ڈالیں اور مثال قائم کر دیں۔ یہ ان کی نیک نامی بھی ہوگی اور ملک کی خدمت بھی۔


خبر کا کوڈ: 1002789

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1002789/توانائی-کا-بحران-ایران-سے-رابطے-کی-ضرورت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org