1
Tuesday 5 Jul 2022 15:58

مظلومیت کی فریاد۔۔۔۔ اسیرانِ گلگت

مظلومیت کی فریاد۔۔۔۔ اسیرانِ گلگت
تحریر: سویرا بتول

آج میرا گزر ایک ایسی بستی سے ہوا، جس کو سرخ سرزمین کہا جاٸے تو غلط نہ ہوگا۔ گلگت بلتستان کی سرزمین کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، جہاں سیکنڑوں جوان مذہبی انتہاء پسندی اور جنونیت کی نظر ہوٸے اور بہت سے ایسے ہیں، جو آج تک زندان میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سانحہ 13 اکتوبر 2005ء اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سالوں سے ایک مکتب کو ظلم و بربریت کی بھینٹ چڑھانے کی تاریخ نئی تو نہیں مگر ایسے سانحات انسانی حقوق کے علمبرداروں سے سوال کناں ہیں کہ آخر کب تک ایک مکتب کے جوانوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاٸے گا؟ کب تک ہمارے جوان شب کی تاریکی میں لاپتہ کیے جاٸیں گے اور کب تک وہ سالوں زندان کی کال کوٹھڑیوں میں زندگی بسر کرتے رہیں گے۔ ‏رسول اللہ (ص) نے فرمایا: "راہِ خدا میں جہاد کرنے والے، جنت والوں کے رہنماء ہوں گے۔" جہاد صرف اسلحہ اٹھانے سے نہیں ہوتا، بلکہ راہِ حق میں حق بات کیلئے حق کی آواز بلند کرنا بھی ایک عظیم جہاد ہے۔ گلگت بلتستان کے بےگناہ اسیروں کیلئے اپنی آواز کو بلند کرکے اس جہاد کا حصہ بنیے۔

درحقيقت گلگت بلتستان کے عوام کو اب یہ سمجھنا چاہیئے کہ 1980ء سے لے کر 2018ء تک جتنے سانحے ہوئے، وہ گلگت بلتستان کی عوام کی ذاتی لڑائیاں نہیں تھیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انہیں لڑوایا گیا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی سانحہ 13 اکتوبر 2005ء ہے کہ جب ریاستِ پاکستان کی رینجرز نے گلگت بلتستان کے طلباء کو صرف اس جرم پر کہ وہ پرامن احتجاج کر رہے تھے، تشدد کا نشانہ بنایا اور اسی دوران سپاہ صحابہ کے انتہاء پسند نے رینجرز پر فائرنگ کر دی اور انہی ناخوشگوار حالات میں سرزمینِ گلگت بلتستان کی بیٹیاں بھی رینجرز کے ہاتھوں قتل ہوئیں اور جوابی کارروائی میں دو رینجر اہلکاروں کی بھی موت ہوئی۔ اس سانحے میں رینجرز کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں ہوئی، لیکن گلگت بلتستان کے 14 بیٹوں کو گرفتار کرلیا گیا، جن میں سے گذشتہ برسوں ایک قیدی کی پولیس کسٹڈی میں بیماری کے باعث موت ہوئی۔

بلاشبہ یہ نہایت افسوس ناک واقعہ تھا، مگر اس کی بنیادی حقیقتوں سے پردہ اٹھ جائے تو اچھے اچھے صاحب اقتدار لوگوں کے منہ کالے ہوں گے۔ اب وقت ہے کہ تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں کو اکٹھے ہو کر اہل تشیع کے ساتھ مل کر اپنے اپنے اسیروں کی رہائی کے لئے جدوجہد کرنی چاہیئے، جو سراسر کسی پالیسی کا شکار ہوئے ہیں اور اپنے بھائیوں اور اپنے ہم وطنوں سے لڑے ہیں۔ سانحہ 13 اکتوبر 2005ء ریاستی دہشتگردی اور ظلم و ستم کی عجیب داستان ہے، جس میں ریاستی اداروں نے یکطرفہ فیصلہ سنایا۔ سانحے میں 2 رینجرز کے جوان 5 سویلین اور 2 خواتین شہید ہوٸیں۔ اس سانحے میں 2 رینجرز کو آڑ بناتے ہوئے حکومت نے تعصب پر مبنی فیصلے کے ذریعے 14 اسیروں کو رینجرز کے کیس میں ملوث قرار دے کر فوجی عدالتوں سے 25 سال قید کی سزا سنائی گئی، اسی دوران 1 اسیر ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے جیل کے اندر ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

اب حکومت و حساس اداروں سے سوال یہ ہے کہ ان 14 اسیروں کو فوجی عدالتوں سے 25 سال عمر قید کی سزا تو سنائی گئی، لیکن 7 شہید 15 زخمی اور خانہ خدا جامع مسجد گلگت کو شہید کرنے والے مجرم کہاں اور کون ہیں۔۔۔؟؟ اس کے علاوہ 2005ء سے  2018ء تک مختلف جگہوں پر شہید ہونے والے فورسز کے 21 جوان جنہیں شیعہ ہونے کے جرم میں شہید کیا گیا ہے، ان کے مجرم کہاں اور کون ہیں۔۔۔۔؟؟ کیا یہ 21 افراد ریاست کی فورس نہ تھے۔۔۔؟ کیا ان کی سرپرست ریاست نہیں؟ کیا ان کا خون سستا یا پھر سفید ہے۔۔۔؟ ان 21 افراد کے قاتلوں کو کس عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔۔۔؟ کیا اس ملک میں شیعہ ہونا جرم ہے۔۔۔۔؟؟ ہمارا جــــــرم کیا ہے۔۔۔۔؟؟

حسین علیہ السلام تم نہیں رہے تمہارا گھر نہیں رہا
مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا

مدینہ و نجف سے کربلا تک ایک سلسلہ
ادھر جو آگیا وہ پھر اِدھر اُدھر نہیں رہا

صدائے استغاثہ حسین (ع) کے جواب میں
جو حرف بھی رقم ہوا وہ بے اثر نہیں رہا

صفیں جمیں تو کربلا میں بات کھل کے آگئی
کوئی بھی حیلہ نفاق کارگر نہیں رہا
خبر کا کوڈ : 1002874
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش