QR CodeQR Code

چین کے خلاف جنوب مشرقی ایشیا میں نیٹو کا پھیلاو

6 Jul 2022 23:01

اسلام ٹائمز: اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کا یہ منصوبہ چین کیلئے براہ راست خطرہ قرار پاتا ہے اور چین ان چار ممالک یعنی جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے سربراہان کی نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کو اپنی قومی سلامتی کیلئے خطرے کے سوا کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ لہذا چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان جاو لی جیان نے ایشیا پیسیفک خطے کی جانب نیٹو کے پھیلاو پر اپنی تشویش کا اظہار ہے۔ چین اب تک جی ایس آئی جیسے سکیورٹی منصوبوں کے تحت آکس اور کوآڈ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر چکا ہے لیکن نیٹو کے سربراہی اجلاس میں ان چار ایشیائی ممالک کے سربراہان کی شرکت اس کیلئے سنجیدہ خطرہ ہے۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے چین کو بحر اوقیانوس اور ہند میں زیادہ بڑے اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہے۔


تحریر: سید رحیم نعمتی
 
29 اور 30 جون 2022ء اسپین کے دارالحکومت میڈریڈ میں مغربی فوجی اتحاد نیٹو کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، اس اجلاس کا اہم ترین ایجنڈہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ تھی۔ اسی طرح فن لینڈ اور سویڈن کی جانب سے نیٹو کی رکنیت کی درخواست بھی ایجنڈے میں شامل تھی جبکہ اجلاس میں نیٹو کی جانب سے ان دونوں ممالک کو سرکاری طور پر اپنے اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت کا بھی جائزہ لیا گیا۔ البتہ نیٹو کے اس سربراہی اجلاس میں ایک نئی چیز بھی دیکھنے کو ملی جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی اور وہ جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کے سربراہان کی شرکت تھی۔ نیٹو کی تاریخ میں پہلی بار کسی مشرقی ملک یا ممالک کے سربراہ اس کے سربراہی اجلاس میں شریک ہوئے ہیں۔
 
درحقیقت ان ممالک کے سربراہان نے امریکہ کی دعوت پر نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نہ صرف نیٹو فوجی اتحاد کے دائرہ کار سے باہر ممالک کو اس اتحاد میں داخل کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ مشرقی ایشیا میں نیٹو کے پھیلاو کے منصوبے بھی بنا رہا ہے۔ ابھی واضح طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا امریکہ مشرقی ایشیا میں نیٹو کا پھیلاو چاہتا ہے یا نیٹو جیسی ایک اور فوجی تنظیم اس علاقے میں تشکیل دینے کے درپے ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مشرقی ایشیا اور انڈو پیسیفک خطے سے تعلق رکھنے والے ممالک کو نیٹو فوجی اتحاد میں شامل کرنے کے مخالفین نہ صرف نیٹو سے باہر موجود ہیں بلکہ اس کے اندر بھی پائے جاتے ہیں۔
 
مثال کے طور پر برطانیہ کی وزیر خارجہ لز ٹیرس نے اپریل کے آخر میں نیٹو کے "عالمی نقطہ نظر" کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: "نیٹو کو چاہئے کہ وہ بحر اوقیانوس اور بحر ہند میں پیش آنے والے خطرات کا مقابلہ کرے تاکہ تائیوان جیسے ممالک میں جمہوریت کا دفاع کیا جا سکے۔" دوسری طرف جرمنی اور فرانس بحر اوقیانوس اور ہند کی جانب نیٹو کے پھیلاو کے مخالف ہیں۔ جرمنی کی صدراعظم اینگلا مرکل اپنے 16 سالہ دور اقتدار میں ہمیشہ اس پالیسی کی حامی رہی ہیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ چین یورپی یونین کا حریف بھی ہے اور شریک بھی ہے۔ اسی طرح فرانس کے صدر بارہا اس موقف کا اظہار کر چکے ہیں کہ نیٹو کی پہلی ترجیح یورو ایٹلینٹک ہونی چاہئے اور اسے بحر اوقیانوس اور ہند کے امور میں مداخلت سے باز رہنا چاہئے۔
 
امریکہ، روس اور چین کو اپنے دو بڑے حریف سمجھتا ہے اور چین سے مقابلہ کرنے کیلئے نیٹو کو مشرقی ایشیا خطے میں پھیلانے پر مصر دکھائی دیتا ہے۔ اب تک امریکہ بحر اوقیانوس اور ہند میں چین کا مقابلہ کرنے کیلئے مختلف قسم کے اقدامات انجام دے چکا ہے۔ ان میں برطانیہ اور آسٹریلیا سے مل کر تین جانبہ سکیورٹی معاہدہ AUKUS اور امریکہ، انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا کے درمیان چار جانبہ مذاکرات QUAD قابل ذکر ہیں۔ لیکن یہ اقدامات بہت محدود ہیں اور ان میں نیٹو کی حد تک وسعت اور جامعیت نہیں پائی جاتی۔ نیٹو فوجی اتحاد کی بنیاد پانچ نکات پر مبنی ہے جس میں ہر رکن ملک کی حفاظت کیلئے طریقہ کار واضح کیا گیا ہے جبکہ مذکورہ بالا اقدامات ان سے عاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکمران مشرقی ایشیا خطے میں یا تو نیٹو کو پھیلانا چاہتے ہیں یا اسی طرز کا ایک اور فوجی اتحاد تشکیل دینے کے درپے ہیں۔
 
نیٹو کا ڈھانچہ اور چند عشروں پر مشتمل تجربہ ایسی چیز ہے جس کی امریکہ کو بحر اوقیانوس اور ہند خطے میں شدید ضرورت ہے۔ امریکہ یہ ضرورت آکس یا کوآڈ جیسے اقدامات سے پوری نہیں کر سکتا۔ دوسرے الفاظ میں آکس یا کوآڈ صرف اس خطے میں نیٹو طرز کے نئے فوجی اتحاد کی تشکیل کا زمینہ فراہم کر سکتے ہیں جبکہ امریکہ کا اصل مقصد نیٹو طرز کا فوجی اتحاد قائم کرنا ہے۔ اب یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ نے ان چار ممالک کے سربراہان کو نیٹو کے سربراہی اجلاس میں بلا کر اپنی کوششوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ امریکہ ان ممالک کو نیٹو میں مبصر کی حیثیت سے شامل کرنا چاہتا ہے۔ فی الحال امریکہ ان ممالک کو نیٹو تنظیم کے تحت فوجی سرگرمیوں میں شریک کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ کام نیٹو کے مختلف اجلاس اور میٹنگز میں ان ممالک کے حکومتی عہدیداروں کو شریک کر کے انجام دے گا۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کا یہ منصوبہ چین کیلئے براہ راست خطرہ قرار پاتا ہے اور چین ان چار ممالک یعنی جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے سربراہان کی نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کو اپنی قومی سلامتی کیلئے خطرے کے سوا کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ لہذا چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان جاو لی جیان نے ایشیا پیسیفک خطے کی جانب نیٹو کے پھیلاو پر اپنی تشویش کا اظہار ہے۔ چین اب تک جی ایس آئی جیسے سکیورٹی منصوبوں کے تحت آکس اور کوآڈ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر چکا ہے لیکن نیٹو کے سربراہی اجلاس میں ان چار ایشیائی ممالک کے سربراہان کی شرکت اس کیلئے سنجیدہ خطرہ ہے۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے چین کو بحر اوقیانوس اور ہند میں زیادہ بڑے اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہے۔


خبر کا کوڈ: 1003128

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1003128/چین-کے-خلاف-جنوب-مشرقی-ایشیا-میں-نیٹو-کا-پھیلاو

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org