0
Saturday 20 Aug 2022 02:09

دہشتگردوں کی رہائی، محب وطن لاپتہ

دہشتگردوں کی رہائی، محب وطن لاپتہ
رپورٹ: سیدہ زینب فاطمہ

پاکستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ انتہائی پیچیدہ، حساس اور حل طلب مسئلہ ہے، لاپتہ کئے جانے والے شہریوں کی اکثریت کے بارے میں یہی گمان کیا جاتا ہے کہ انہیں کسی غیر قانونی، ریاست مخالف یا امن و امان کی صورتحال خراب کرنے سے متعلق سرگرمیوں کی وجہ سے غائب کیا گیا ہے اور اکثر یہ خبریں بھی منظر عام پر آتی ہیں کہ لاپتہ ہونے والے فلاں شخص کی نعش برآمد ہوگئی ہے، اس کے علاوہ بعض کیسز ایسے بھی سامنے آئے ہیں، جن میں پاکستانی شہریت کے حامل افراد کسی بیرون ملک میں سرگرم کسی دہشتگرد تنظیم یا گروہ میں شامل پائے گئے، ان تنظیموں میں داعش سرفہرست ہے، جبکہ اکثر افغان طالبان کی تحریک اور القاعدہ کا نام بھی لیا گیا۔ پاکستان میں ان لاپتہ ہونے والوں میں مذہبی، جہادی و کالعدم فرقہ پرست جماعتوں، دہشتگرد گروہوں اور علیحدگی پسند تنظیموں سے مربوط لوگ شامل ہیں۔

لاپتہ افراد کی اس فہرست میں بدقسمتی سے بعض ایسے افراد بھی شامل ہیں، جنہوں نے کبھی وطن عزیز پاکستان کیخلاف کسی اقدام تو دور، کبھی مادر وطن کے امن و استحکام کیخلاف سوچا تک نہیں، ان کا صرف ایک ہی جرم قرار دیا جاتا ہے کہ وہ اسلامی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والے ملک کے شہری ہوتے ہوئے مقدسات اسلامی کے تحفظ کیلئے شام اور عراق گئے۔ یعنی جب ایک وقت میں داعش جیسی خونخوار دہشتگرد تنظیم کی وجہ سے عراق اور شام میں اہلبیت اطہارؑ، امہات المومنینؑ، صحابہ کرام  کے مزارات کو خطرہ تھا، تو ایسے میں بغیر کسی دنیاوی لالچ کے، اپنا شرعی وظیفہ سمجھتے ہوئے، جس طرح ایران، لبنان اور دیگر اسلامی ممالک سے مجاہدین اسلام ان داعشی درندوں سے اسلامی مقدسات کے دفاع کیلئے گئے، اسی طرح پاکستان سے بھی چند نوجوانوں نے اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالا، تاہم وطن عزیز پاکستان واپسی پر نہ صرف ان نوجوانوں کو غائب کر دیا گیا، بلکہ ان سے کسی نہ کسی طرح مربوط افراد کو بھی لاپتہ کر دیا گیا۔

جب شیعہ قائدین یا تنظیموں نے متعلقہ فورمز پر یہ مسئلہ اٹھایا تو کہا گیا کہ ’’یہ لوگ غیر قانونی طور پر شام و عراق گئے، اب وہ تربیت یافتہ ہوچکے ہیں، لہذا ہمیں خدشہ ہے کہ یہ لوگ پاکستان میں بھی امن و امان کی صورتحال خراب کرسکتے ہیں۔‘‘ یہاں یہ امر واضح ہو کہ وطن عزیز میں آج تک کوئی خودکش حملہ آور شیعہ نہیں پایا گیا، پاکستان میں کوئی ایک بھی شیعہ دہشتگرد تنظیم وجود نہیں رکھتی، آج تک کسی ایک بھی شیعہ شہری نے پاک فوج سمیت کسی ملکی سکیورٹی ادارے یا املاک پر حملہ نہیں کیا۔ ایسے میں محض ’’خدشہ‘‘ کی بنیاد پر لوگوں کو لاپتہ کر دینا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بہرحال شام و عراق روانگی کے معاملہ سے ہٹ کر بھی کئی سالوں سے پاکستان میں بسنے والے شیعہ افراد لاپتہ ہوتے رہے ہیں، تاہم ان میں سب سے بڑی تعداد مذکورہ بالا معاملہ سے مربوط ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان سے کئی دہشتگرد بھی داعش کیلئے لڑنے کی خاطر گئے تھے۔

باوثوق ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق مختلف دہشتگرد گروپوں سے تعلق رکھنے والے کئی لاپتہ دہشتگرد گذشتہ ماہ سے گھروں کو لوٹنا شروع ہوگئے ہیں۔ اب تک باجوڑ، مہمند اور شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 12 سے زائد افراد اپنے گھروں کو واپس پہنچ چکے ہیں، جو پانچ سے 11 سال کے عرصے تک لاپتہ رہے۔ ان رہا ہونے والوں میں شمالی وزیرستان کے ظہورالدین، باجوڑ کے اسلام خان اور قاری مسیح اللہ، مہمند کے طارق خان، قندھاری ڈاگ مہمند کے وحید اللہ، تحصیل صافی ضلع مہمند کے عبدالقیوم، تحصیل حلیم زئی ضلع مہمند کے طیب خان اور چند دیگر شامل ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ لاپتہ دہشتگردودں کی یہ حالیہ رہائیاں حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ قبائلی اضلاع کے حالیہ رہا ہونے والے افراد سے متعلق مقامی صحافیوں کو بھی معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ یہ لوگ کس کی قید میں تھے۔

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں گمشدہ افراد کی تعداد 4000 ہے، ایک جانب اپنے ملک کا امن و امان تہہ و بالا کرنے والے دہشتگردوں کی رہائی اور دوسری طرف پرامن شیعہ شہریوں کا مسلسل غائب رہنا واضح طور پر دوہری ریاستی پالیسی کی جانب اشارہ ہے۔ افغان طالبان کی ثالثی میں ٹی ٹی پی جیسی پاکستان، اسلام اور انسانیت دشمن دہشتگرد تنظیم کیساتھ مذاکرات اور اس کے نتیجے میں دہشتگردوں کی رہائی یقینی طور پر ملک کے امن و استحکام کیلئے شدید خطرہ ہے۔ حکومت کو محب وطن اور غدار وطن میں تمیز کرنا ہوگی۔ بلاشبہ ملکی سالمیت کیخلاف کارروائیوں میں ملوث عناصر کا نہ صرف محاسبہ ہو، بلکہ انہیں کڑی سے کڑی سزاء دی جائے۔ تاہم کسی غیر ملکی ’’ڈکٹیشن یا دوستی‘‘ کی آڑ میں محب وطن نوجوانوں کو اس طرح لاپتہ کر دینا کسی بھی طور پر درست اقدام نہیں۔
خبر کا کوڈ : 1003260
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش