0
Monday 1 Aug 2022 02:59

الجھی سیاسی گتھی کیسے سلجھے گی؟

الجھی سیاسی گتھی کیسے سلجھے گی؟
رپورٹ: سید عدیل زیدی

سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد سے اب تک ملک میں سیاسی بحران کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کی چھٹی ہونے کے بعد شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اقتدار سنبھالا، اس ’’سیاسی تبدیلی‘‘ کے بعد عمران خان اپنا مقدمہ عوام میں لیکر گئے اور وہ مقبولیت جو وہ اپنے اقتدار کے دوران ملک میں ہونے والی تاریخی مہنگائی کی وجہ سے کسی حد تک آہستہ آہستہ کھوتے جا رہے تھے، دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے گئے، جبکہ دوسری جانب شہاز شریف کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت، جو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کا نعرہ لیکر اقتدار میں آئی تھی، عوام سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنے میں نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ مہنگائی مزید بلندی اور ملکی معشیت مزید پستی کی جانب چلی گئی۔ اس صورتحال کے نتیجے میں مخلوط حکومت، خاص طور پر مسلم لیگ نون کو پہلا جھٹکا پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں ناکامی جبکہ دوسرا سپریم کورٹ کی جانب سے حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کیخلاف دیئے جانے والے فیصلہ کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔

اس صورتحال پر لندن میں بیٹھے مسلم لیگ نون کے خود ساختہ جلاوطن قائد میاں نواز شریف سیخ پا ہوگئے، وہاں ملاقاتیں اور اجلاس ہوئے، جس کے بعد سابق وزیراعظم یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’میں ذاتی طور پر اس حق میں نہیں تھا کہ ہم موجودہ حالات میں حکومت سنبھالیں۔‘‘ْ ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اس وقت شہباز شریف کی حکومتی کارکردگی سے سخت نالاں ہیں اور جلد انتخابات کرانے کے حق میں ہیں۔ ذرائع نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا ہے کہ ’’بڑے بھائی‘‘ نے ’’چھوٹے بھائی‘‘ کو یہ واضح پیغام پہنچا دیا ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو، وہ نئے انتخابات کرانے کی تیاری کریں۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کا بھی سربراہی اجلاس کے بعد یہ واضح موقف آگیا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور عام انتخابات 2023ء میں ہی اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔ اس وقت پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں اور وہ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ ملک میں انتخابات قبل از وقت ہوں۔ اگر یوں کہا جائے کہ موجودہ حکومت، خاص طور پر مسلم لیگ نون اپنے غلط سیاسی فیصلوں کی وجہ سے پھنس چکی ہے تو غلط نہ ہوگا، کیونکہ یہ دونوں صورتیں عمران خان اور پی ٹی آئی کے لئے آئیڈیل ہیں۔

اگر پی ڈی ایم نئے انتخابات کرانے پر راضی ہوتی ہے تو اس صورتحال میں حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج، اس سے قبل عمران خان کے جلسوں اور عوامی ردعمل اور لاہور اور پشاور کے اقتدار کے تناظر میں پی ٹی آئی کا سیاسی پلڑا بھاری نظر آتا ہے، اور اگر شہباز شریف اینڈ کمپنی الیکشن میں تاخیر کرتی ہے تو مسائل میں گھری وفاقی حکومت کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول نہ کرکے مزید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پی پی ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری بھی الیکشن قبل از وقت کرانے کے حق میں ہیں۔ اس وقت اطلاعات یہ بھی ہیں کہ شریف برادران کے مابین اختلافات گزرتے وقت کیساتھ ساتھ شدت اختیار کر رہے ہیں، کیونکہ شہباز شریف اور مولانا اتنی آسانی سے اقتدار سے الگ نہیں ہونا چاہتے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی نے پنجاب فتح کرنے کے بعد اپنی سیاسی رفتار کو مزید بڑھا دیا ہے، عمران خان نے تنظیم کو منظم کرنے اور اسی طرح پنجاب کے بعد وفاق کی سیاست میں بھی کودنے کا عملی فیصلہ کر لیا ہے۔ تحریک انصاف نے بی این پی، بی اے پی اور جماعت اسلامی سے رابطوں کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سلسلے میں چیئرمین تحریک انصاف نے بی این پی، بی اے پی اور دیگر جماعتوں سے رابطوں کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔ پرویز خٹک کی سربراہی میں قائم یہ کمیٹی حکومتی اتحادیوں سے رابطے کرے گی، کمیٹی میں اسد قیصر، فواد چوہدری اور اسد عمر بھی شامل ہیں۔ کمیٹی ان جماعتوں کو حکومت چھوڑنے پر قائل کرے گی۔ اسی طرح جماعت اسلامی کو بھی قریب کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ بی اے پی اور عوامی نیشنل پارٹی حکومت کی جانب سے کئے گئے وعدے پورے نہ ہونے پر وفاقی حکومت سے علیحدگی پر غور کر رہی ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں سب سے اہم معاملہ الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کے حوالے سے محفوظ کیس کا فیصلہ ہے، جو ملکی سیاسی منظر نامہ میں سب سے اہم رول ادا کرسکتا ہے، تاہم تحریک انصاف الیکشن کمیشن پر سیاسی دباو ڈالنے کی بھرپور کوشش میں ہے۔ ملکی سیاست کی الجھی یہ گتھی اسی صورت سلجھ سکتی ہے کہ ملک میں سیاسی اتفاق رائے سے جلد نئے انتخابات ہوں، عوامی مینڈیٹ سے نئی حکومت آئے، جسے اپوزیشن میں آنے والے جماعتیں بھی قبول کریں، تاکہ سیاسی اور معاشی بحران میں گھرے ملک کو استحکام ملے۔
خبر کا کوڈ : 1005352
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش