0
Friday 5 Aug 2022 18:22

آل انڈیا سجادہ نشین کونسل کی کثیر المذاہب کانفرنس

آل انڈیا سجادہ نشین کونسل کی کثیر المذاہب کانفرنس
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

نئی دہلی میں آل انڈیا سجادہ نشین کونسل کے زیر اہتمام کانسٹی ٹیوشنل کلب میں کثیر المذاہب کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کا بیان بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ انہوں نے خالص اردو زبان میں تقریر کا آغاز کیا اور کہا کہ میں سبھی مذہبی رہنماؤں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے لئے سب نے قربانیاں دی ہیں، آج اگر ملک کا ماحول خراب ہے تو یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کو درست کرنے میں اپنا اپنا کردار بخوبی نبھائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب نے اس ملک کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں اور ملک کے اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کام کیا ہے، آج پھر ہم سب کے لئے ایک بڑی ذمہ داری نبھانے کا وقت آن پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا، تب ہی ملک ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ یہ لڑائی ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اجیت ڈوبھال نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج دنیا کے اندر تصادم کا ماحول ہے، اگر ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے ملک کے مفادات کو مدنظر رکھ کر کام کرنا ہوگا، کیونکہ اگر ملک ترقی کرے گا تو سبھی کی ترقی ممکن ہوگی۔

بھارتی قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال نے کثیر المذاہب کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک کشتی کے سوار ہیں، اگر کشتی ڈبے گی تو ہم سب کے سب ڈوبیں گے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اس ملک کے لئے سب نے قربانیاں دی ہیں، آج اگر ملک کا ماحول خراب ہے تو یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کو درست کرنے میں اپنا اپنا کردار بخوبی نبھائیں۔ کثیر المذاہب کانفرنس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ صوفی ابراہیم وحید پاشا نے قرآن مقدس کی تلاوت کی، جبکہ نظامت کے فرائض فرید نظامی نے انجام دیئے۔ اس موقع پر فرید نظامی نے کہا کہ بھارت صوفی سنتوں کی سرزمین ہے۔ آل انڈیا سجادہ نشین کونسل تمام خانقاہوں اور درگاہوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا مقصد صوفی سنتوں کو ایک پلٹ فارم پر جمع کرنا ہے اور لوگوں کو امن و شانتی کا پیغام دینا ہے۔

آل انڈیا سجادہ کونسل کے چیئرمین مولانا سید نصیر چشتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم اجیت ڈوبھال کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاپولر فرنٹ آف انڈیا یا اس جیسی کسی تنظیم کے خلاف انتشار پھیلانے کے ثبوت ملتے ہیں تو ان پر پابندی لگائی جانی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہماری ثقافتی تہذیب کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس لئے ہم سماج دشمن عناصر کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ بھارت کے معروف عالم دین و دانشور مولانا سلمان حسین ندوی نے اس موقع پر کہا کہ تمام مذاہب ملانے اور جوڑنے کے لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے بتایا کہ سب انسان برابر ہیں، شری رام اور گوتم بدھ نے بھی امن کا سبق اور پیغام دیا ہے۔ مولانا سلمان حسین ندوی نے کہا کہ پہلے انسان بنیں، پھر مذہب کی بات آئے گی۔ انسان مذہب کے لئے نہیں ہے بلکہ مذہب انسان کے لئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی کا ہر ہندوستانی پر احسان ہے، انہوں نے امن و محبت کا پیغام دیا ہے۔ مولانا سلمان ندوی نے کہا کہ میں سب کے سامنے یہاں پر خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں دیگر مذاہب والوں کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں۔

اس دوران جمیعت اہل حدیث کے صدر مولانا اصغر علی مہدی سلفی نے کہا کہ ہمارے مذہبی رہنماء اپنی ذمہ داری بھول گئے ہیں، انہیں اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیئے۔ مذہبی رہنماؤں کو امن و شانتی کو قائم کرنے کے لئے اپنا فرض نبھانا چاہیئے۔ مجلس علماء ہند کے سربراہ اور بھارت کے معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نے کہا کہ بہت سے مسلمانوں کو جہاد کا مطلب معلوم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی اچھے کام کے لئے اپنی پوری طاقت کو استعمال کرنے کا نام جہاد ہے، علم کی روشنی پھیلانا بھی جہاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں جہاد عبادت کا نام ہے، گردن کاٹنے کا نام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاد زندگی دینے کا نام ہے، زندگی لینے کا نام جہاد نہیں ہے۔ اس موقعہ پر جین مذہب کے اچاریہ سوشیل مہاراج نے کہا کہ ہم سب کو ایک دوسرے کے مذہب کی عزت کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے پلیٹ فارمز پر جو بھی بحث و مباحثہ ہو، وہ جوڑنے والے ہو، نہ کہ توڑنے والے ہوں۔ وہیں سوامی چکردیو جی مہاراج نے کہا کہ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیئے۔

عیسائی مذہبی رہنماء ڈاکٹر ایم تھامس نے کہا کہ ہمارا سماج ترقی کر رہا ہے، مگر سماج کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مل کر کام کریں۔ آل انڈیا سجادہ نشین کونسل کی جانب سے منعقد ہونے والے اس پروگرام میں ملک کی نامور ہستیوں اور مذہبی شخصیات نے شرکت کی۔ بڑی تعداد میں علماء کرام بھی شریک تھے۔ ممتاز اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے بین المذاہب کانفرنس میں اجیت ڈوبھال کی تقریر کو ایک خوبصورت سچ قرار دیا اور کہا کہ ایک سچے ہندوستانی کے طور پر اجیت ڈوبھال نے جو کچھ کہا ہے کہ اس پر عوام کے ساتھ حکومت کو بھی توجہ دینی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمیں فرقہ پرستی، شدت پسندی اور ملک دشمنی کے خلاف خاموش نہیں رہنا چاہیئے بلکہ کھل کر بولنا چاہیئے۔ پروفیسر اختر الواسع نے مزید کہا کہ میں اجیت ڈوبھال کی سراہنا کروں گا کہ انہوں نے اس جانب توجہ مرکوز کرائی ہے کہ ہماری ترقی کا دارومدار داخلی اتحاد و اتفاق پر منحصر ہے، ورنہ انتشار کی صورتحال میں ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔

پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ انہوں نے یہ بھی بہت اہم بات کہی ہے کہ اب دنیا سمٹ گئی ہے، کوئی بھی کام ہوتا ہے، اس کا اثر ہر کسی پر پڑتا ہے، اگر ہندوستان میں کچھ ہوگا تو اس کا اثر بیرون ملک پڑے گا۔ پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ اجیت ڈوبھال سچ بولنے کے ماہر ہیں۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو، ان کے اعزاز و اکرام میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کی حق گوئی کو سلام پیش کرتے ہیں۔ دہلی کی فتح پوری مسجد کے امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے اجیت ڈوبھال کی کوشش اور تقریر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی مثبت بات کرے تو اس کی حمایت کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اجیت ڈوبھال اتحاد و اتفاق کی بات کر رہے ہیں، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بات کر رہے ہیں، فرقہ پرستی کے خلاف بول رہے ہیں، یہ اچھی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فرقہ پرستی پھیلانے والوں کے خلاف دست آہن کا استعمال کرنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ ملک آگے بڑھے اور ترقی کرے، مسلمان بھی اس میں ہمیشہ سے ساتھ رہے ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بین المذاہب کانفرنس سے ایک اچھی شروعات کی گئی ہے، بلاشبہ عوام کو اس معاملہ میں آگے آنا ہوگا اور نیک مقصد میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بہرحال اس کے ساتھ حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھانا چاہیئے، تاکہ زمینی سطح پر حالات کو تیزی کے ساتھ بہتر کیا جاسکے۔ ممتاز دانشور اور انٹر فیتھ ہارمونی فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے کہا کہ بین المذاہب کانفرنس ایک مثبت پہل ہے، اس سلسلے کو جاری رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ایک اسٹیج پر ایک ساتھ آئیں اور ایک آواز میں باہمی محبت کے فروغ کا پیغام دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے وطن عزیز کی بنیادی وراثت میں بین المذاہب ہم آہنگی شامل ہے۔

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں جو باہمی کشمکش، فرقہ واریت اور کبھی کبھی آپسی تصادم کی ابھرتی ہوئی فضا ہندوستان کے ضمیر پر نہ صرف چوٹ محسوس ہوتی ہے بلکہ ہندوستانیت میں میرے جیسے یقین رکھنے والے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر دیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بین المذاہب کانفرنس جس میں تمام مذاہب کے اکابرین نے شرکت کی اور خیالات کی ہم آہنگی سے خود اعتمادی سے پُر پیغام دیکر وقت کے تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ ممبئی کے ممتاز صوفی اسکالر اور انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کے روح رواں مفتی منظور ضیائی نے اجیت ڈوبھال کی اس پہل کو سراہتے ہوئے کہا کہ دراصل انہوں نے دارالحکومت میں ایک شمع روشن کی ہے، جسے ہمیں ملک کے کونے کونے میں پہنچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ فرقہ وارانہ آہنگی ہی ملک کا تانا بانا ہے، اس کو ٹوٹنے نہیں دے سکتے ہیں، ایسا ہوا تو انتشار پیدا ہو جائے گا۔

مفتی منظور ضیائی نے کہا کہ جو بھی تنظیم ملک مخالف ہو، اس پر پابندی عائد کر دینی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ منافرت، بھید بھاؤ اور تفریق پیدا کرنے کی کوششوں کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جانا چاہیئے۔ اس دوران جماعت اسلامی ہند کے رکن ڈاکٹر رضی الاسلام نے کہا کہ موجودہ حالات میں پروگرام کی نوعیت سے اتفاق ہے، تمام مذاہب کے دانشوروں اور روحانی پیشواوں کے ساتھ اس قسم کے اجتماع کی بہت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سمت میں بہت کام کرنا ہوگا، کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے، جس سے ہم ایک دوسرے کو جوڑ سکتے ہیں، ایک دوسرے پر اعتماد بحال کرسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1006884
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش