0
Sunday 7 Aug 2022 00:34

گم کردہ گوہر۔۔۔۔۔ سید عارف حسین الحسینی(2)

گم کردہ گوہر۔۔۔۔۔ سید عارف حسین الحسینی(2)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

بلا شبہ قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی(رہ) عطیہ خداوند کریم تھے، وہ ایک نعمت الہیہ تھے، ان کا رخ انور دیکھنے والے اس بات کی گواہی دینگے کہ وہ اتنا پرنور چہرہ تھا کہ جس کو دیکھنے سے دل کو سکون ملتا تھا، وہ جہاں بھی جاتے اپنی محبت اور چاہت کی فصل کاشت کر آتے، یہی کاشت کی ہوئی فصل کا ثمر ہے کہ آج چونتیس برس بعد انہیں یاد کرکے ہم سب تڑپتے ہیں۔ ہم نے تو خیر انہیں دیکھا ہے، ان کی قربت کا لطف اٹھایا ہے، ان کو سنا ہے، جو ان کی شہادت کے بعد پیدا ہوئے ہین، جنہوں نے ان کی مسحور کن صدا فقط کسی ویڈیو کلپ میں سنی ہے، جنہوں نے ان کی زندگی کو تسلیم بھائی کی کتاب سفیر نور سے پڑھا ہے، جنہوں نے ان کی برسی کے کسی اجتماع یا سیمینار میں کسی رفیق شہید سے کچھ قصے اور واقعات سنے ہیں، ان کی یہ حالت کہ ہر دم، ہر وقت ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، ان کی یادوں کے چراغ جلاتے ہیں، جن کی لو کو کم نہیں ہونے دیتے۔

شہید قائد نے تقریباً ساڑھے چار سال( 10 فروری 1984ء سے 5 اگست 1988ء) کا مختصر عرصہ ملت جعفریہ کی قیادت و سیادت میں گزارا ہے، مگر آج 34برس ہوگئے، ہم ان سے اسی شدت و جذبہ سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے ان کی زندگی میں تھے۔ ہم ان کا احساس اسی طرح رکھتے ہیں، جیسے ان کی موجودگی میں کرتے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمیں اسی طرح دیکھتے ہیں، جیسے زندگی میں دیکھتے تھے۔ ان کی نورانی و معنوی شخصیت کا سحر ان کے مرقد پر حاضری دینے والوں کو معلوم ہے۔ شہید کے بارے میں اللہ کی پاک کتاب میں ارشاد ہے کہ وہ زندہ ہے اور اپنے خدا سے رزق پاتا ہے، ہاں تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ علامہ عارف حسین الحسینی بھی مظلومانہ شہید ہوئے، عالمی استعمار نے ان کی زندگی کا مقابلہ نہ کرسکنے کے بعد ہار مانتے ہوئے انہیں گولی سے وار کرکے سینہ چھلنی کرتے ہوئے شہادت سے سرفراز کیا۔

اس فرزند خمینی، علامہ عارف حسین الحسینی نے فرمایا تھا کہ امام خمینی کے ذریعے دنیا پر حق کی حجت تمام ہوچکی ہے۔ میں تیار ہوں کہ اپنی جان، مال، اولاد ان پر قربان کر دوں، مگر ولایت فقیہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹوں۔۔ اور امام خمینی نے شہید کے چہلم کی مناسبت سے جو پیغام دیا، اس میں برملا فرمایا کہ وہ فرزند راستین سید الشہدا ء تھے، یہ کوئی معمولی آدمی کی عامیانہ بات نہیں، جسے نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائیں، یہ اس شخصیت کی بات ہے، جو اپنے وقت میں حجت رکھتے تھے، جو نائب امام العصر تھے، جن کے بارے شہید نے فرمایا کہ اگر امام خمینی دن کو کہیں کہ رات ہے تو ہم رات کہیں گے کہ ہماری آنکھوں کا دھوکہ ہوگا اور اگر رات ہو اور امام کہیں کہ دن ہے، تب ہم کہیں گے کہ ہاں دن ہے۔۔۔۔! وہ ہم سب کا چین تھے، وہ ہم سب کا قائد تھے، وہ ہم سب کا سایہ شجر دار تھے۔ ہمیں ان سے محبت تھی، وہ ہمارا جنون تھے، وہ ہمارے رہبر و رہنماء تھے، وہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک تھے، وہ ہماری مرضوں کی دوا تھے۔

وہ ہمارے دردوں کے آشنا تھے، وہ ہمارے دلوں کے رازداں تھے، وہ عارف حق شناس تھے، وہ سید و سردار تھے، وہ فرزند راستین سیدالشہداء تھے، انہیں بھول جانا ممکن نہیں۔ ان کے چھوڑے ہوئے نقوش حیات ہمارے لئے رہنمائی کا ایسا ذریعہ ہیں، جن پر چلتے ہوئے ہم بھٹکنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ ان کا راستہ خمینی کا راستہ تھا، ان کی روش انقلاب کی روش تھی، ان کی زبان اسلام کی زبان تھی، ان کا عمل ولایت کی پاسبانی تھی، وہ وحدت کا پرچارک تھے، وہ اخوت کے منادی تھے، وہ بھائی چارگی اور اتحاد کے داعی تھے، ان کی زبان و کردار میں دو رنگی نہیں تھی، وہ عمل و کردار کا نمونہ تھے، وہ کروڑوں میں ایک تھے، وہ کربلا کے پیرو تھے، وہ شہادت کے طلب گار تھے، وہ سرخ موت کو تاریک زندگی پر ہمیشہ ترجیح دینے والا تھے۔

وہ فکر و شعور کی روشنی بکھیرنے آئے اور بہت ہی مختصر وقت میں معاشرے میں پھیلی تاریکی اور گھٹا ٹوپ اندھیرے کے پجاریوں سے جنگ کرتے، معاشرے کو روشن و منور کرکے چلا گئے۔ وہ فکر کے چراغ جلانے آئے، بہت ہی مختصر مدت کیلئے انہیں یہ موقعہ ملا، مگر انہوں نے وقت کی رفتار سے بھی بڑھ کر اپنا کام کیا اور رخصت ہوگئے، وہ خلوص کی دولت بانٹنے آئے، انہیں بہت کم وقت نصیب ہوا، مگر انہوں نے اتنا خلوص بانٹا کہ آج چونتیس برس گزر جانے کے بعد دنیا ان کا نام آنے پر آنسو بہاتی ہے۔ وہ درد سمیٹنے آئے، انہوں نے صرف ساڑھے چار سال تک پاکستان بھر کے مظلوموں، محروموں اور کمزور بنا دیئے گئے انسانوں کا درد بانٹا۔ ان کے درد کی پکار لیکر شہر شہر گئے، قریہ قریہ میں درد مندوں کو باہم ملایا اور پھر ایک دن ہم سب کو درد سے مالا مال کرکے رخصت ہو گئے۔

وہ عرفان کی دولت سے مالا مال تھے، انہوں نے معرفت کی لو بڑھائی، ہر ایک ان کی معرفت و عرفان کی بلندی اور ارفع درجات کا قائل ہوا، ہر ایک ان کی زندگی کے ایسے پہلوئوں کا شاہد تھا، انہیں یہ مقام خدمت خلق اور تنہائی میں عبادت و ریاضت سے حاصل ہوا تھا۔ وہ للہیت کا نمونہ تھے۔ انہیں مل کر، دیکھ کر خدا کی یاد آتی تھی، ان کو یہ راز زندگی آشکار ہونا قبول نہ ہوا اور انہوں نے ایک لمبی پرواز کی اور کامیاب ٹھہرے۔ انہوں نے بہت تھوڑے عرصہ میں اتنا کام کیا کہ انہیں ایسے اعزاز کا حقدار ٹھہرایا گیا، جس کی تڑپ انہیں بے چین رکھتی تھی، جس کیلئے وہ تڑپ تڑپ کر دعائیں مانگتے تھے اور شب شہادت بھی ان کی طویل سجدہ میں یہی دعا تھی۔ وہ ہمیشہ جوانوں میں فرماتے "شہادت ہمارا ورثہ ہے، جو ہماری مائوں نے ہمیں دودھ میں پلایا ہے۔" ان کے جد میاں انور علی شاہ نے بھی بیسیوں سال پہلے تبلیغ مکتب اہلبیت ؑ کے جرم میں اپنا سر کٹوایا تھا اور شہادت کو گلے لگایا تھا۔ کربلا کے وارثوں کا خانوادہ ہمارے دور میں بھی اپنے کربلائی ہونے کا عملی ثبوت دے کر رخصت ہوا۔

ان کی شہادت ایک عالمی سازش کے تحت ہوئی، عالمی استعمار، اس کے نمک خواروں نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا اور ہمیں ایک گوہر نایاب سے ہمیشہ کیلئے محروم کر دیا۔ پاکستان میں ہونے والے بڑے قتلوں کی سازشیں عموماً بے نقاب نہیں ہوتیں، اس لئے کہ اس میں شامل کردار طاقت ور ہوتے ہیں، یہ طاقت ور حلقے، یہ مقتدر قوتیں، ہمیشہ سے ایسی وارداتیں ڈالنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، مگر شہید عارف الحسینی جیسی برگذیدہ ہستی کا خون تمام تر سازشوں اور طاقتوں کے باوجود پروردگار نے ایسے آشکار کیا کہ کسی کو توقع ہی نہ تھی۔ ایک ایک قاتل اور شریک جرم کا کردار سامنے آیا، عدالتوں میں شہید کے مقدس خون نے سب کے چہروں سے نقاب الٹا، مگر اس کے باوجود یہاں کے عدالتی نظام نے، اس ریاست نے اس مقدس خون کا قرض اپنے سر چڑھایا، جو آج بھی قرض ہے۔ اگرچہ قدرت خداوندی نے اپنا فیصلہ سنا دیا، فرشتوں نے فضل حق جو مرد آہن کہلاتا تھا، ناصرف بے نقاب ہوا بلکہ قہر خداوندی کا شکار ہوا، وقت کا آمر بھی اپنے انجام کو پہنچا اور اس کے دیگر کردار بھی اپنے انجام سے دوچار ہوئے۔
وہ قتل کرکے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا ہے؟


5 اگست 1988ء کی دم فجر پشاور میں حالت وضو میں سینے پر گولی کھانے والے سید عارف الحسینی کو ان کے آبائی گائوں پیواڑ پاراچنار میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ امام خمینی (رہ) کے بھیجے ہوئے خصوصی وفد کے قائد جناب آیۃ اللہ جنتی نے پشاور کے باغ جناح میں پڑھائی، جس میں اس وقت کے صدر اور گورنر سمیت سینیٹ کے چیئرمین نے بھی شرکت کی، جبکہ پاکستان بھر سے ہزاروں عاشقان شہید دھاڑیں مارتے ہوئے اپنے عظیم قائد کے آخری دیدار کیلئے پہنچے۔ پاکستان کا ہر شہر احتجاج اور غم و غصہ کی تصویر بن گیا۔ پشاور میں ہونے والی نماز جنازہ میں قاتل موجود تھے، جوان بپھرے ہوئے تھے، مگر علماء و بزرگان کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے تھے، جن کا کہنا تھا کہ ہم اپنے پاس آئے مہمانون کا احترام کرنے کے قائل ہیں، جنازے میں موجود قاتل بھی کہہ رہے تھے کہ یہ غیر ملکی سازش ہے، کیا عجب بات تھی، گویا داغ دہلوی کے بقول
قاتل کی جبین شرم سے پیوست زمیں ہے
کس دھج سے مرا قافلہ اترا سرِ مقتل


اس وقت اگر ملی و قومی حالات، اجتماعی جدوجہد کرنے والی جماعتوں، تنظیموں اور شخصیات کو دیکھا جائے تو ان پر شہداء بالخصوص شہید قائد جو قافلہ سالار شہداء ہیں، ان کے احسانات ہیں۔ شہید قائد نے جن مشکل حالات، مشکلات، پریشانیوں، عدم تعاون، علماء و فضلاء کے طعنوں، مالی مسائل، تنظیمی مسائل، مارشل لا حکومت کی سختیوں، سازشوں اور عدم وسائل کے ہوتے ہوئے پاکستان بھر کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، کشمیر تک اجتماعی جدوجہد اور سیاسی و دینی تحریکی کاموں نیز روابط کے ذریعے علماء کے زیر تحت کام کرنے کی روش اور بنیاد فراہم کی، آج کی بڑی بڑی جماعتی عمارات، تحریکیں، تنظیمیں، نیٹ ورکس اور عزت و وقار یا مقام و مرتبہ انہی کا مرہون منت ہے۔ لہذا شہید قائد کو بھلا کر کوئی عزت و وقار نہیں پا سکتا، شہید کی روش، شہید کا نظریہ، شہید کے افکار، شہید کے کردار کو مائنس کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
خبر کا کوڈ : 1007669
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش