0
Saturday 6 Aug 2022 10:54

کربلا حادثہ نہیں احیائے انسانیت اور تحفظ دین ہے

کربلا حادثہ نہیں احیائے انسانیت اور تحفظ دین ہے
تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی
گنڈ حسی بٹ سرینگر

امام عالی مقام حضرت امام حسینؑ کی زندگی انسانی معاشرے کے لئے ہر لحاظ سے نصیحت آموز اور نمونہ عمل ہے۔ آپ کی زندگی کا انفرادی، سماجی، سیاسی، معاشی اور انتظامی پہلوؤں سے مطالعہ کرنا ہمارے معاشرے کے لیے بہت سودمند ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اس عظیم الشان شخصیت کی سیرت کا ہم نے اکثر انفرادی نقطہ نظر سے جائزہ لیا۔ محدود نظریہ اور کج فکری سے آپ کو پہچانا۔ آپ کی حیات اقدس کے اصل پہلوں کو عموماً ہم نے نظر انداز کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی تاریخ میں بھی بہت سارے ایسے کج فکر اور ناداں افراد موجود ہیں، جو اس عظیم المرتبت شخصیت کی فضلیت، شان و عظمت اور مقام و مرتبہ سے نابلد ہیں۔ اس پاک ذات کی فضیلت میں پیامبر گرامی اسلام حضرت محمدﷺ سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:"’’الحسنُ والحسينُ سيدا شباب أهل الجنة"یعنی "حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔" یہ حدیث تمام مسلمانوں کے یہاں متفق علیہ ہے اور شیعہ و سنی کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے۔ نیز ’’حسینؑ چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہے۔‘‘، اور ’’حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں‘‘ جیسی احادیث بھی تمام مسلمانوں کے یہاں متفق علیہ ہیں۔

امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کی فضیلت، شان و عظمت خود پیغمبر اکرم ؐبیان فرما رہے ہیں اور امت کو مودت اہلبیت ؑ کی تلقین کر رہے ہیں، لیکن افسوس صد افسوس مسلمانوں کی صفوں میں ایک ٹولہ ایسا بھی ہے، جو امت محمدی ؐ کا دعویدار ہے، لیکن محمدﷺ کے نواسے امام حسین ؑ کے قاتل یزید ملعون کی کھل کر حمایت کر رہا ہے یا پھر یزید لعین کے بارے میں دو رائے رکھتا ہے۔ خدا را بتائیں، اس ٹولے کو امت محمدی ؐ کہنے کا کونسا حق ہے۔ دین محمدی ؐ کو امام عالی مقام ؑ نے کربلا کے تپتے ریگزار میں آبرو بخشی۔ شہدائے کربلا کی بے نظیر قربانیوں سے دین اسلام کو بقاء نصیب ہوئی۔ کربلا کا عظیم اور تاریخ ساز واقعہ جو محرم الحرام 61 ہجری میں رونما ہوا، تاریخ انسانیت کے ایک اہم ترین مذہبی، سیاسی اور سماجی تحولات میں سے ایک ہے۔ کربلا مشن انبیاءؑ کا ایک منفرد واقعہ ہے، اس خونین واقعہ کا ایک ایک لمحہ انسانیت کے لئے ایک ایک درسگاہ ہے، جس کا صحیح تجزیہ کرنا ضروری ہے، تاکہ کربلا کی تحریک کو ہر ممکن حد تک بہتر طریقے سے پرکھا جاسکے۔ اس نہضت کا اصل چہرہ جس کو تاجران خون حسین ؑ نے چند سکوں کے عوض ہائی جیک کیا ہوا ہے، سامنے آجائے۔

آج کی تاریخ میں کربلا کو خانقاہوں، درگاہوں اور درباروں سے نکال کر میدان عمل میں لانے کی ضرورت ہے اور کربلا کے نام پر جو رسم ہم صدیوں سے نبھا رہے ہیں، یہ رزم بن جائیں، تاکہ دنیا کی کمان مظلوموں، محروموں اور مستضعفوں کے ہاتھوں میں آجائے۔ کربلا کا حقیقی مفہوم ’’ھیھات من الذلہ‘‘ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج سے تقریباً چودہ سو سال قبل یزید نے مدینہ میں تعینات اپنے گورنر کو لکھا کہ حسین ابن علیؑ، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عمر کو بلاؤ اور انہیں میری بیعت کی دعوت دو۔ اگر وہ بیعت سے انکار کر دیں تو ان کا سر قلم کر دو اور ان کے سر میرے لیے کھانے پر بھیج دو۔ اس توہین کے جواب میں نواسہ رسولؐ، فرزند علی ؑ و بتول ؑ، امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑنے جرائت، جوانمردی اور بہادری سے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا؛ "مثلی لا یبایع مثلہ" یعنی "مجھ (حسینؑ) جیسا تجھ (یزید) جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔" اس تاریخی جملے سے تحریک کربلا کا اصل ہدف اور نصب العین واضح ہوگیا۔ امام حسین ؑ کے اس چھوٹے مگر خوبصورت جملے نے یزید ابن معاویہ اور تا روز ابد سر اٹھانے والی یزیدیت کو للکارا اور حق و باطل کے فاصلے کا بے نظیر اور بے مثال فارمولا پیش کیا۔

بدنصیبی یہ ہے کہ ہم نے قیام کربلا کو ایک حادثہ سمجھا ہے۔ ملا نما جاہل افراد اور ذاکر نما جاہلوں نے امام حسین ؑ کو صرف اور صرف ایک مظلوم پیش کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نعوذ باللہ امام عالی مقام علیہ السلام یزید اور یزیدی افواج کے ڈر سے بھاگ رہے تھے اور ان کو اچانک محاصرے میں لے کر شہید کر دیا گیا۔ امام عالی مقام ؑواقعاً مظلوم تھے، یزیدی افواج نے امام عالی مقام اور آپ کے اصحاب و انصار اور اہل بیت پر ایسے مظالم ڈھائے، جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ لیکن تحریک کربلا ایک مصمم ارادے والی تحریک ہے۔ امام عالی مقام نے مصمم ارادے کے ساتھ اس تحریک کی بنیاد ڈالی اور یہ تحریک میدان کربلا میں پروان چڑھی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی تحریک نہیں تھی، بلکہ باطل نظام، فاسق و فاجر نظام کے خلاف علی الاعلان تحریک تھی۔ جس کا ایک ایک مجاہد جوانمردی، بہادری، شجاعت، دلیری، صبر و رضا، مزاحمت اور استقامت کی مثال تھا۔ امام حسین نے شعوری طور پر شہادت کا انتخاب کیا۔ نہ صرف مدینہ سے سفر کے آغاز میں اور روضہ رسولﷺ کی الوداعی رات، یا مکہ سے سرزمین عراق تک کے سفر میں، بلکہ برسوں پہلے انہیں معلوم تھا اور رسول خداﷺ کے زمانے میں ہی شہادت سےخبردار تھے۔

 امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ نے علی الاعلان اپنے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی از منکر ہے۔ میرے قیام کا مقصد جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی اصلاح ہے۔ میرے قیام کا مقصد اپنے جد کے سنتوں اور قوانین الہیٰ کا احیا ہے، جنہیں یزید ملعون نے پائمال کیا تھا۔ نہضت کربلا کا یہ ہدف اس قدر عظیم ہے کہ امام فرماتے ہیں کہ آپ نہیں دیکھتے کہ حق کو روندا جا رہا ہے اور باطل کو روکا نہیں جا رہا۔ مدینہ سے مکہ کی طرف روانگی کے وقت سید الشہداء حضرت امام حسین ؑنے جو وصیت لکھی اور اپنے برادر محمد حنفیہ کے حوالے کی، اس میں آپ نے پہلے توحید کی آفاقی حقیقت کی طرف اشارہ کیا، پھر لکھا کہ میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے، بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس سفر کے دوران امت کے مفاسد کی اصلاح کروں۔ اپنے جد امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قوانین اور ان کی سنتوں کو زندہ کروں اور اپنے پدر بزرگوار کا راستہ اور ان کا طرز عمل اپناؤں۔

چونکہ عاشورا کے کلچر میں یزید بذات خود ایک بہت بڑی برائی ہے۔ اس الہیٰ کلچر میں جب برائی سر نکالتی ہے تو اس برائی کا خاتمہ کرنے کے لئے چھ ماہ کا معصوم بھی اپنے گلے پر تیر کھانے کے لئے نکلتا ہے۔ نوجوانوں کو شہادت قند سے شیرین لگتی ہے۔ عاشورائی کلچر کے یہ سرفروش سینہ تان کر نکلتے ہیں اور دین محمدی کی آبیاری کے لئے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو خلیفۃ المسلمین کہنے والا یزید ملعون دین ناب محمدی ؐ کی اصلی ہیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان حالات میں امام حسین علیہ السلام کے پاس دو ہی راستے تھے، مزاحمت یا بیعت۔ مزاحمت کا نتیجہ شہادت یا حکومت الہیٰ کا قیام تھا اور بیعت کا نتیجہ اسلام کی رسوائی اور تباہی تھا۔ امام ؑنے مزاحمت کا راستہ انتخاب کیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علم بلند کیا۔ امت کو بنی امیہ کے خطرات سے خبردار کیا۔ امام عالی مقام نے سب کو یزید پلید اور اس کے کارندوں کے خلاف مزاحمت کی دعوت دی، لیکن صرف 72 کے لشکر نے ندائے حق پر لبیک کہا۔

ایک غیر مسلم دانشور موسیو ماربین کہتے ہیں کہ "اپنے عزیز ترین لوگوں کی قربانی دے کر، حسین ؑنے دنیا کو قربانی کا سبق سکھایا اور اسلام اور مسلمانوں کا نام تاریخ میں درج اور دنیا میں روشن کیا اور اگر ایسا واقعہ رونما نہ ہوتا تو یقینی طور پر آج اسلام اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں رہتا۔‘‘ عاشورہ کا المناک واقعہ جو حق و باطل، سپاہ ایمان اور سپاہ کفر کے درمیان خونریز معرکہ تھا، اگرچہ بظاہر اصحاب حق کی شہادت ہوئی، لیکن درحقیقت انہوں نے عظمت و بزرگی اور ایمان و یقین کے ایسے مظاہر دکھائے، جو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے درج ہیں۔ حقیقی معنوں میں آپ نے اپنے اہداف و مقاصد حاصل کر لئے۔ کربلا کے ان جانثاروں نے لوگوں کو فخر و آزادی کا راستہ دکھایا۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبتی ہوئی انسانیت کو نجات کی شمع دکھائی۔ بقول محمد علی جوہر ؒ
 قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


پس وقت کا تقاضا ہے کہ امت مسلمہ کربلا کے ایک ایک کردار کو اپنا رول ماڈل بنائے، عزاداری کے ساتھ ساتھ ان کی سیرت کو بھی اپنائے، تاکہ آج جو عالمی طاغوت کے ساتھ جگہ جگہ پر معرکے بپا ہیں، ان کو بآسانی سے سر کر کیا جائے۔ جب تک کربلا کے جانبازوں کے کردار، افکار اور نظریات کو ہم اپنے معاشرے میں نافذ نہیں کریں گے، تب تک کربلا کے اصل ہدف اور مقصد کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
خبر کا کوڈ : 1007930
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش