1
0
Tuesday 9 Aug 2022 08:42

عزاداری کا ماضی، حال اور مستقبل

عزاداری کا ماضی، حال اور مستقبل
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

حافظ صفواں صاحب تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، ان کے والد محترم بھی تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے، بلکہ ان کے والد پروفیسر صدیق صاحب تو جماعت کے قائدین میں سے تھے۔ چند سال پہلے تبلیغی جماعت پر ایک تفصیلی مقالہ لکھنے کے لیے ان سے ایک انٹرویو کیا، جو کئی حوالوں سے بڑا دلچسپ تھا۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس  قصبہ نو کے قریب کسی گاوں میں گئے، انہیں بتایا گیا کہ وہ سب مسلمان ہیں۔ جب وہ گاوں میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں کی مسجد ویران ہے اور کوئی شخص نماز پڑھنے والا نہیں ہے۔ انہوں نے وہاں کے بزرگوں کو جمع کیا اور پوچھا کیا آپ لوگ نماز پڑھتے ہیں۔؟ انہوں نے کہا وہ کیا ہوتی ہے۔؟ انہوں نے روزے، حج زکواۃ اور دیگر اسلامی احکام کا پوچھا؟ تو جواب یہی تھا کہ وہ اس سے آگاہ تک نہیں ہیں۔ انہوں نے تنگ آ کر پوچھا کہ کیا تو شریعت کے مطابق ختنہ بھی کرتے ہو؟ تو انہوں نے اس رسم مسلمانی کی معرفت سے بھی انکار کیا۔ اس پر تبلیغی جماعت کے بانی نے ان سے پوچھا کہ کوئی ایسی علامت جو اس بات کی شہادت دے کہ تم لوگ مسلمان ہو؟ اس پر ان کے ایک بزرگ گویا ہوئے کہ ہاں ہم محرم میں تعزیہ نکالتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ تعزیہ نکالنے کو ہرگز ترک مت کرنا، کیونکہ تمہارے مسلمان ہونے کی یہی واحد علامت باقی ہے۔

کچھ دانشور نام کے لوگ اس پر بات کر رہے تھے کہ عزاداری کا مستقبل کیا ہے؟ تو جناب عزاداری اللہ کا سچا وعدہ ہے، وہ فرماتا ہے تو تم میرا ذکر کرو، میں تمہارا ذکر کروں گا۔ یہ خاتم الانبیاءﷺ کی سنت ہے، یہ خاتون قیامت کی دعا ہے۔ یہ قیامت تک جاری رہے گی۔ عزاداری اس اعلیٰ پیغام کی حامل ہے، جو ہر آزاد انسان کی روح کی پکار ہوتا ہے۔ عزاداری تہذیب ہے، جو اپنی الگ شناخت رکھتی ہے، یہ خوبصورتی کے ساتھ انسان کی جمالیاتی حِس سے جڑ گئی ہے۔ جو چیز انسان کی جمالیاتی حس سے جڑ جائے، وہ انسان کی فطری ضرورت بن کر اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ وہ مذہب کے مراکز سے دور ہونے کی وجہ سے خود مذہب کا فقط نام لیوا رہ جاتا ہے، مگر عزاداری اس کی شناخت کو مٹنے نہیں دیتی۔ اس کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی، جہاں عزاداری نے لوگوں کو مذہب سے جوڑ رکھا ہے اور یہ وہ جذباتی اور عشق کا تعلق ہے، جو انسان کے لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے اور انسان اس کے بغیر خود کو ادھورا سمجھتا ہے۔

اسّی کی دہائی میں کچھ پاکستانی آسٹریلیا گئے، پہلے تو جیسے تیسے وقت گزر رہا تھا، مگر جب محرم کا مہینہ قریب آنے لگا تو انہوں نے امام بارگاہ کی تلاش شروع کر دی۔ کافی تلاش کے باوجود کوئی امام بارگاہ نہ مل سکا تو کسی گھر کی تلاش میں لگ گئے کہ جہاں محرم ہوتا ہو۔ وہ بھی نہ مل سکا تو بڑے اداس ہوئے کہ اب کیا کریں۔؟ ان لوگوں نے اپنے شہر اور اردگرد کے شہروں میں سروے کرنا شروع کیا کہ یہاں کتنے عزادار ہیں۔ پھر ایک جگہ متعین کی کہ محرم میں جس کو جتنی چھٹیاں ملیں، وہ سب یہاں آجائیں اور جو ادھر کے ہی ہیں، وہ شام کو یہاں آجائیں۔ خیر جب سب جمع ہوگئے تو اب ان میں سے کوئی ذاکر یا مولوی نہیں تھا، جو خطاب کرتا۔ اس پر فیصلہ ہوا کہ جس کو قصیدہ آتا ہے، وہ قصیدہ پڑھے، جسے نوحہ آتا ہے، وہ نوحہ پڑھے، جسے کوئی آیت یا حدیث یاد ہے، وہ سنائے اور یوں آسٹریلیا میں سلسلہ عزائے حسین ؑ شروع ہوگیا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے صرف ملبرن میں موجود ہزارہ عزاداروں کے امام بارگاہ کو دیکھ رہا تھا، کیا مرتب منظم سلسلہ عزاء جاری تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں مصروف عزا تھے، انہیں دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا کہ وہ پاکستان کے باہر کہیں عزاداروں کا مجمع ہے۔

عزاداری ایک جاری عمل ہے، جس میں مسلسل تربیت کا عمل ہو رہا ہے۔ میں کل مجلس میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ عزاداری تو عظیم شئی ہے، شاہ کے ہندو، سکھ، مسیحی حتی خدا کے منکر بھی عزادار ہیں۔ عزاداری تو ان سب کو لاکر امام بارگاہ میں بٹھا دیتی ہے کہ لو یہ آگئے ہیں، اب یہ تو خطیب کا کمال ہے کہ وہ دلیل کے ذریعے اسلام کی حقانیت کو ان تک پہنچا دے اور ان کی زندگی تبدیل کر دے۔ مسجد میں جائیں تو اکثریت بزرگوں کی ہوتی ہے، خواتین کا داخلہ ہم نے مساجد میں ممنوع کر رکھا ہے، بچے اور جوان بھی کم تعداد میں مساجد کی زینت ہوتے ہیں۔ آئیں ذرا عزاداری میں آئیں، یہاں اسی سال کے بزرگ کے ساتھ ماں کی گود میں چند ماہ کا بچہ بھی عزادار ہے۔ ایک کے بعد دوسری نسل کی تربیت عزا یہیں سے ہو جاتی ہے۔ تھوڑا سا بھی خطرہ ہو تو مائیں بچوں کو گھر سے نکلنے سے روک دیتی ہیں، مگر یہاں تو عزاداری کے لیے مائیں بچوں کو ساتھ لے کر آرہی ہیں۔

بچے بچیاں مجلس کا حصہ ہی نہیں، مجلس برپا کرنے والے ہیں۔ بچے سبیلیں لگا رہے ہیں، جلوسوں کو منظم کر رہے ہیں اور جوان بچے اور بچیاں بھی کوئی نوحہ پڑھ رہا ہے، کوئی ماتم کر رہے اور کسی نے نیاز کی ذمہ داری لی ہوئی ہے۔ یوں ہر شعبہ زندگی کی عکاس عزادری ہے۔ مجھے یہ منظر بہت خوبصورت لگتا ہے کہ معاشرے میں اچھوت بنا دیئے گئے خواجہ سرا اگر کہیں پر بلاخوف چلے آتے ہیں تو وہ مجلس اور مظلوم کربلا کا جلوس ہی ہے، جہاں انہیں عزت دی جاتی ہے، جہاں ان کے ساتھ جنس کی بنیاد پر تعصب نہیں برتا جاتا۔ یہ کسی کا کمال نہیں بقول شاعر:
کوئی صدا نہیں روتا بچھڑنے والوں کو
ثبات رسم عزا معجزہ حسین ؑ کا ہے


جو عزاداری کو محدود کرنے کے خواب دیکھتے ہیں، اربعین کے پرشکوہ جلوسوں نے پورے ملک کو حسینیؑ رنگ دے دیا ہے۔ پہلے والے جلوس اندرون شہر تک محدود ہوچکے تھے، مشی نے عزاداری کو محدود کرنے کی سازشوں کو ختم کر دیا ہے۔ لوگ بیس بیس کلومیٹر پیدل چل کر مرکزی جلوس تک پہنچتے ہیں اور اس نے ساری سازشوں کو روند ڈالا ہے۔ عزاداری ایک صاف و شفاف چشمے کے آب رواں کی طرح انسانیت زندگی کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کرکے اطاعت خدا کا لباس پہنا کر انسانوں کی زندگیاں تبدیل کر رہی تھی، ہے اور کرتی رہے گی۔ فرحت حسین شاہ نے خوب کہا تھا:
تو چھوٹی چھوٹی عزاداریوں سے خائف تھا
اب آ کے دیکھ یہ سارا نگر حسین ؑ کا ہے
خبر کا کوڈ : 1008321
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Syed asif Abbas jafry
Pakistan
Very good
ہماری پیشکش