QR CodeQR Code

امام حسین علیہ السلام کے راستے کو اپنائیں اور کبھی سر نہ جھکائیں

9 Aug 2022 18:54

اسلام ٹائمز: انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک الحوثی کی اس گفتگو کو غور سے پرھنے کے بعد بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مقاومت اور استقامت کا بلاک متحد و ایک سوچ کیساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ لبنان سے سید حسن نصراللہ ہوں یا یمن سے سید عبدالملک الحوثی، بحرین کے شیخ قاسم ہوں یا عراق سے حشد الشعبی، ان سب کا علاقائی اور عالمی ویژن ایک ہے، انکی تحریک کے اہداف اور نصب العین کا سرچشمہ ایک ہے۔ ظلم کیخلاف قیام اور مظلوم کی حمایت انکا مشترکہ نعرہ ہے۔ رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای کے بقول مغربی ایشیاء میں مزاحمت کی تشکیل خطے کی سب سے بابرکت پیشرفت ہے اور یہ مزاحمت تھی، جس نے لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو صیہونیوں سے پاک کیا، عراق کو امریکہ کے حلق سے نکالا اور اسے داعش کے شر سے بچایا، شام کے محافظوں کی امریکی منصوبوں کیخلاف مدد کی، بین الاقوامی دہشتگردی کا مقابلہ کیا اور یمن کی مزاحمتی تحریک کو منفرد مقام عطا کیا۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک الحوثی نے محرم کی مناسبت سے ایک اہم گفتکو کی ہے، اسلام ثائمز کے قارئین کے لیے اس گفتکو کے چند اہم نکات حاضر خدمت ہیں۔ عبدالملک الحوثی کے خطاب میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ دشمن مذہبی تصورات میں تحریف پیدا کرکے ان کو مسخ کرنا چاہتا ہے۔ تحریف ایک ایسا خطرہ ہے، جسے انقلاب اسلامی ایران کے رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای پہلے بھی کئی بار اٹھا چکے ہیں۔ تحریف حقائق اور سچائیوں کا پلٹنا یعنی بعض اہم موضوعات کو برعکس کرکے پیش کرنا ہے۔ تحریف کامیابیوں کو نظر انداز کرنا اور کمزوریوں کو اجاگر کرنا ہے۔ تحریف دشمن کی نفسیاتی اور علمی جنگ کا تسلسل ہے۔ یہ دھمکی مختلف شعبوں میں استعمال ہوتی ہے، جن میں سے ایک مذہب ہے۔ اسلام  دشمن بخوبی جانتے ہیں کہ دین اسلام ایک ایسا عنصر ہے، جو اسلامی معاشرے کو شناخت دیتا ہے اور معاشرے کو متحد کرنے کا کام کرسکتا ہے۔ اس بنیاد پر وہ مذہب، اس کی بنیادوں اور افعال میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خاص طور پر سوشل نیٹ ورکس کا استعمال کرتے ہوئے اور اسلامی معاشرے کے خلاف اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انصار اللہ یمن کے سکرٹری جنرل سید عبدالملک الحوثی نے تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کے دشمن مسلمانوں کو گمراہ کرنے، انہیں اپنے راستے سے ہٹانے اور ان پر غلبہ پانے کے لیے ہمارے مذہبی تصورات کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عبدالملک الحوثی کے عاشورہ کے خطاب میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے لیے عاشورا کا ایک اہم ترین سبق ظلم کے خلاف مزاحمت ہے۔ مزاحمت ایک ایسا تصور ہے، جو خاص طور پر ایرانی اسلامی انقلاب کے بعد نمایاں ہوا، لیکن مزاحمت کی جڑیں عاشورہ کے قیام حسینی میں پیوست ہیں۔ اس وقت خطے میں مزاحمت سب سے اہم حکمت عملی ہے، جس نے مزاحمت کے بلاک کی علاقائی پوزیشن کو بہتر بنایا ہے۔ یہ مزاحمت عاشورہ کے قیام سے ماخوذ ہے۔ درحقیقت کربلا میں نواسہ رسول نے ظالموں کی حکومت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور بالآخر شہید ہوگئے۔ عبدالمالک بدر الدین حوثی نے عاشورہ کی اس تعلیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "حقیقت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم ظلم اور ناانصافی کے سامنے امام حسین علیہ السلام کے راستے کو اپنائیں اور کبھی سر نہ جھکائیں۔"

یمن کی تحریک انصار اللہ کے سیکرٹری جنرل کے عاشورہ کے خطاب میں تیسرا نکتہ بعض عرب ممالک اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے ہے۔ بعض ممالک میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں صورتوں میں تعلقات معمول پر لانے کا عمل جاری ہے۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور بحرین نے ستمبر 2020ء میں تعلقات معمول پر لانے شروع کیے، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے بھی غیر سرکاری طور پر تعلقات  معمول پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عبدالملک الحوثی کے بقول اگرچہ سعودی عرب نے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کا کھلے عام اعلان نہیں کیا، لیکن وہ ایسے اقدامات کر رہا ہے، جو تعلقات کو معمول پر لانے کی سمت میں تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یمن کی انصار اللہ تحریک کے سیکرٹری جنرل نے صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سعودی عرب کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "یوم عرفہ میں خطیب کی حیثیت سے اسرائیلیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے چہروں میں سے ایک کا انتخاب کرنا، یہودیوں کو داخلے کی اجازت دینا، فضائی حدود اسرائیلیوں کے لیے کھولنا اور اپنے اتحادیوں کو اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کی تلقین وہ اقدامات ہیں، جو مکہ اور مدینہ کے خلاف جارحیت سے کم نہیں۔

تحریک انصار اللہ کے سیکرٹری جنرل الحوثی کے الفاظ میں چوتھا اور تزویراتی نکتہ یہ ہے کہ دشمنوں کا آخری ہدف ملت اسلامیہ پر تسلط ہے۔ ملت اسلامیہ پر بالادستی اور تسلط ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا مغربی اور صیہونی دشمن کئی دہائیوں سے مختلف طریقوں سے تعاقب کر رہے ہیں۔ دشمن کے لئے اس راستے میں سب سے اہم رکاوٹ وہ ممالک اور گروہ ہیں، جو آزادی پر زور دیتے ہیں اور آزادی کے حصول کے لیے دشمن سے لڑتے ہیں۔ تحریک انصار اللہ کے سیکرٹری جنرل کے مطابق دشمن ان ممالک اور گروہوں پر دباؤ ڈال کر انہیں آزادی حاصل کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں سامراجی طاقتوں کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی حالیہ جنگ کا ایک مقصد فلسطینی مزاحمت کو آزادی کے حصول سے روکنا ہے۔ عبدالمالک بدر الدین حوثی نے زور دیکر کہا ہے کہ دشمن ہماری قوم کو حقیقی آزادی سے دور کرکے نیز انہیں محکوم بنا کر ہماری قوم پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔

انصار اللہ کے سربراہ سید عبدالملک الحوثی کی اس گفتگو کو غور سے پرھنے کے بعد بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مقاومت اور استقامت کا بلاک متحد و ایک سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ لبنان سے سید حسن نصراللہ ہوں یا یمن سے سید عبدالملک الحوثی، بحرین کے شیخ قاسم ہوں یا عراق سے حشد الشعبی، ان سب کا علاقائی اور عالمی ویژن ایک ہے، ان کی تحریک کے اہداف اور نصب العین کا سرچشمہ ایک ہے۔ ظلم کے خلاف قیام اور مظلوم کی حمایت ان کا مشترکہ نعرہ ہے۔ رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای کے بقول مغربی ایشیاء میں مزاحمت کی تشکیل خطے کی سب سے بابرکت پیشرفت ہے اور یہ مزاحمت تھی، جس نے لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو صیہونیوں سے پاک کیا، عراق کو امریکہ کے حلق سے نکالا اور اسے داعش کے شر سے بچایا، شام کے محافظوں کی امریکی منصوبوں کے خلاف مدد کی، بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور یمن کی مزاحمتی تحریک کو منفرد مقام عطا کیا۔


خبر کا کوڈ: 1008350

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1008350/امام-حسین-علیہ-السلام-کے-راستے-کو-اپنائیں-اور-کبھی-سر-نہ-جھکائیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org