0
Thursday 11 Aug 2022 02:42

امریکا کا شام میں رجیم چینج آپریشن، دمشق ڈائری(2)

امریکا کا شام میں رجیم چینج آپریشن، دمشق ڈائری(2)
تحریر: نادر بلوچ

شام کے حالات اچھے نہیں، جنگ رک چکی ہے، لیکن امریکہ کی جانب سے مسلط کی گئی معاشی جنگ جاری ہے، امریکا نے شام پر اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں، جس کے باعث شام اپنے ہمسائیوں سے بھی کچھ خرید سکتا ہے، نہ ہی بیچ سکتا ہے، ان پابندیوں کو ’’قیصر‘‘ کا نام دیا گیا ہے، قیصر ایک صحافی ہے، جس نے خانہ جنگی سے پہلے اپنے بیرونی آقاوں کے اشاروں پر کچھ خبریں اور کالم لکھے، جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بشار الاسد ایک جلاد حاکم ہے، جو اپنے لوگوں پر مظالم ڈھا رہا ہے، ان خبروں کی بنیاد پر امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے دنیا بھر سے دہشتگرد جمع کیے اور جبھۃ النصرہ نامی تنظیم کو سپورٹ کیا گیا، اس تنظیم کو یہاں کی اپوزیشن کا نام دیا گیا، جبکہ اس تنظیم کو عوامی سطح پر کبھی پذیرائی نہیں ملی۔

امریکا کا بنیادی مقصد رجیم چینج تھا، جس کیلئے ایک خاص فضا بنائی گئی، ترکی نے رجیم چینج آپریشن میں بڑا حصہ ڈالا، اپنی سرحد ان دہشتگردوں کی آمد و رفت کیلئے کھول دی، حتیٰ امریکی سینیٹر جان مکین استنبول میں جبھۃ النصرہ کے سرکردہ لوگوں سے ملاقات کرتے ہوئے پائے گئے، آج بھی ترکی کا بارڈر اس نام نہاد اپوزیشن کیلئے کھلا ہوا ہے، گو کہ بشار الاسد کی سرکاری فوج یہ جنگ جیت چکی ہے، مگر ادلب کا صوبہ آج بھی ان دہشتگردوں کے کنٹرول میں ہے۔ رقہ کا علاقہ جہاں جنگ صفین ہوئی تھی، وہ مکمل طور پر دہشتگردوں کے کنٹرول میں ہے، رقہ میں حضرت عمار یاسر اور حضرت اویس قرنی کا مزار ہے۔ لیکن ان دہشتگردوں نے دونوں صحابی رسول کی قبریں کھو ڈالیں اور مزار منہدم کر دیئے۔ اب یہ علاقہ عام زائرین کیلئے بند ہے۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی امریکی پابندیوں کی، جس کے اثرات انتہائی گہرے اور بھیانک ہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کیلئے بھی پیسے نہیں، دمشق یونیورسٹی میں پروفیسرز کو سو ڈالر تک تنخواہ مل رہی ہے، ائیرپورٹ پر اتریں تو ایمیگریشن حکام بخشیش کے نام سے پیسے مانگ لیتے ہیں، کیونکہ تنخواہیں اتنی کم ہوگئی ہیں کہ اس میں گھر چلانا تقریباً ناممکن ہے، جس کا نتیجہ رشوت لیکر کام کرنا دکھائی دے رہا ہے۔ بجلی کا بحران اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہر چھ گھنٹے بعد چالیس سے پچاس منٹ کیلئے بجلی آتی ہے۔ انٹرنیٹ کی سپیڈ بھی خاص نہیں، حکومت کی جانب سے عوام کو دی جانے والی سبسڈی بہت حد تک کم کر دی گئی ہے، ایک گھر کے سربراہ کو دو سو لیٹر پیٹرول پر سبسڈی دی جاتی تھی، جو کم کرکے پچاس لیٹر کردی گئی ہے۔ ایل پی جی کو وہ سلنڈر جو 10 ہزار لیرا میں بھرا جاتا تھا، اب وہ ایک لاکھ لیرا تک پہنچ گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکی پابندیوں کی قیمت شامی عوام کو چکانی پڑ رہی ہے، اب یہاں کے لوگوں کو اندازہ ہو چلا ہے کہ خانہ جنگی کرانے کے مقاصد کیا تھے، امریکا ان کے حقوق کے نام پر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہ رہا تھا۔ دمشق سے 360 کلومیٹر دور حلب کا شہر ہے، جو مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے، حلب شام کا معاشی حب کہلاتا تھا، یہ قدیمی شہر ہے اور شام کا صنعتی شہر بھی کہلاتا ہے، جنگ کے بعد یہاں پر صنعتیں مکمل طور پر بند ہوچکی ہیں، مقامی لوگوں کے بقول دہشتگرد یہاں کی مشینری ترکی کے راستے لے جاچکے ہیں، کچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خود ترکی نے یہ مشینیں حلب سے استنبول منتقل کرائی ہیں۔ ترکی اور شام کے تعلقات اچھے نہیں ہیں، ان تعلقات کی نوعیت بہت خراب ہے۔ ترکی شام کو اپنا صوبہ سمجھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1008433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش