QR CodeQR Code

مسلح افواج کیخلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کی مہم

11 Aug 2022 16:09

اسلام ٹائمز: چاہیئے تو یہ کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم اپنی سیاسی لڑائی خود لڑیں اور یہ نوبت ہی نہ آئے کہ آرمی چیف کو سیاست میں مداخلت کرنا پڑے یا دنیا میں مختلف ممالک سے معاشی امداد اور تعاون کیلئے بات کرنی پڑے۔ لیکن یہاں سیاسی تعصب اور شکست خوردگی کا یہ عالم ہے کہ جب کچھ نہیں بن پڑتا تو فوج کو نشانے پر لے لیا جاتا ہے۔ سکیورٹی اداروں سے شکایات اپنی جگہ، لیکن فوج میں بغاوت کی فضا بنا کر سوشل میڈیا پر اچھالنا ملک دشمنی کہی جا سکتی ہے، کسی قسم کی خدمت نہیں۔


رپورٹ: مجید حیدر

پاکستان تزویراتی لحاظ سے دنیا کے اہم ترین مقام پر واقع ہے، جغرافیائی طور پر منفرد حیثت رکھتا ہے۔ سیاسی بدانتظامی ایسی چیز ہے، جس کی وجہ سے آج تمام قدرتی وسائل کے باوجود ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ معاشی کمزوری اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود پاکستان کی مسلح افواج دنیا بھر میں کریڈیبیلٹی کی حامل طاقت کے طور پر تسلیم کی جاتی ہیں۔ چین ہو یا امریکہ، عرب ممالک ہوں یا یورپی یونین، ورلڈ بینک ہو یا آئی ایم ایف جیسے عالمی ادارے، جب بھی پاکستان کسی مشکل میں پھنستا ہے تو مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف کی بات سنی جاتی ہے۔ مسلح افواج نہ صرف ملک کے دفاع کی ضامن ہیں بلکہ ملکی استحکام فوج ہی کی بدولت باقی ہے۔ کورونا وبا کیوجہ سے پوری دنیا کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی، پھر یوکرین کیخلاف روس نے جنگ چھیڑ دی، جس وجہ سے عالمی طاقتوں پر انحصار کرنیوالی پاکستان جیسی معیشتیں بالکل بیٹھ گئیں۔ داخلی طور پر تقسیم اور تضادات کا شکار پاکستان اس دباو کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا، لیکن اتحادیوں کی بیساکھیوں پر قائم پی ٹی آئی کی حکومت نے آزاد خارجہ پالیسی کا نعرہ لگاتے ہوئے عین اس وقت روسی بلاک میں شامل ہونے کی کوشش کی، جب یوکرین پر حملہ ہوچکا تھا، دوسری طرف پاکستان کو عالمی معاشی اداروں کے تعاون اور سرپرستی کی سخت ضرورت تھی۔

امریکہ افغانستان سے ہزیمت کا شکار ہو کر نکل چکا تھا اور انتقامی جذبات کیساتھ پاکستان کو اپنی شکست کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا۔ اب پاکستان کو امریکی دشمنی کا بلواسطہ سامنا ہے، معاشی مشکلات اسی کا شاخسانہ ہیں۔ دوسرا پاکستان کو چین کیساتھ تعاون کی سزا بھی دی جا رہی ہے۔ اندرونی سیاسی حالات ابتر ہیں، ایک دفعہ پھر ہر طرح کے چیلنجز کا سامنا فوج ہی کر رہی ہے۔ لیکن سابق سلیکٹڈ حکمران اور ان کے سوشل میڈیا کے ہمنوا یا موجودہ امپورٹڈ حکمران ہوں اور ان کے سوشل میڈیا کے ہمنوا، ہر طرف سے مسلح افواج الزامات اور تنقید کی زد میں ہیں۔ بالخصوص جب سے پی ڈی ایم نے عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی اور سپریم کورٹ کے حکم پر یہ کارروائی پوری کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں حکومت ختم ہوئی ہے۔ کیونکہ ہوا یہ کہ روس سے واپسی کے ساتھ ہی عمران خان خدشات اور تحفظات میں گھر چکے تھے، حکومت لڑکھڑا رہی تھی۔ ہچکولے کھاتی حکومت کو بچانے کیلیے انہوں نے عوام سے رجوع کیا اور عوامی جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ کو بار بار پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد ناکام بنوانے کے لیے کہتے رہے۔

اس سے پہلے عمران خان کی حکومت کیخلاف جب بھی کوئی موو چلی، کہیں نہ کہیں سے ٹیلی فون کالز آئیں اور موو ٹل گئی۔ جس وجہ سے یہ تاثر ابھرتا گیا کہ نادیدہ قوتوں کی پشت پناہی عمران خان کو حاصل ہے، نہ صرف یہ کہ اپوزیشن کو جتنے کیسز میں پھنسایا گیا ہے، وہ بھی خلائی مخلوق کے ایما پر بنائے گئے ہیں۔ عمران خان چلے گئے اور شہباز شریف وزیراعظم بن گئے۔ اس کے بعد پی ٹی آئی نے ملک بھر میں احتجاج کیا اور سوشل میڈیا پر مہمات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس دفعہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا ورکرز کا نشانہ پی ڈی ایم اور اپوزیشن نہیں تھی بلکہ مسلح افواج، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اسٹیبلشمنٹ تھی۔ جنہیں امریکی پٹھو، کرپٹ، نیوٹرل اور جانور تک کہا گیا۔ اس ساری صورتحال میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جو کور کمانڈر پشاور تھے، ان کے متعلق مختلف طرح کی باتیں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئیں۔ بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کے دوران مسلح افواج نے امدادی سرگرمیاں شروع کیں اور کورکمانڈر کوئٹہ جنرل سرفراز علی شہید اس دوران ہیلی کاپٹر حادثے کا نشانہ بن گئے۔ اس کے بعد پاک آرمی میں اعلیٰ سطح پر تبادلے ہوئے، کور کمانڈر جنرل فیض حمید کو پشاور سے بہاولپور تبدیل کر دیا گیا۔

اس تبدیلی پر پی ڈی ایم کے حامیوں نے جنرل فیض حمید کیخلاف الزامات کی بوچھاڑ کر دی، کیونکہ عمران خان کی مخالف سیاسی قوتوں کا خیال ہے کہ عمران خان کو حکومت میں لانے اور حکومت برقرار رکھنے میں جنرل فیض حمید کی حمایت اور سرپرستی شامل تھی۔ جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو جنرل فیض حمید کا تبادلہ بطور کور کمانڈر پشاور ہوا اور پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی کی کامیاب احتجاجی تحریک کو ایک دفعہ پھر جنرل فیض حمید سے جوڑ دیا۔ اس وقت سے اب تک پی ڈی ایم کی جانب سے جنرل فیض حمید کیخلاف سیاست میں مداخلت اور جانبداری کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، جو کہ مسلح افواج کی نیک نامی اور پیشہ وارانہ ڈسپلن اور ساکھ کے لیے نہایت نقصان دہ ہیں۔ حال ہی میں مختلف وی لاگرز کی جانب سے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ پشاور سے جنرل فیض حمید کو بہاولپور اس لیے بھیجا گیا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ فوج پر اپنا کنٹرول مضبوط کر رہے ہیں، جس سے یہ تاثر ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک کور کمانڈر آرمی چیف کے درمیان اس حد تک فاصلہ اور مخالفت بن چکی ہے کہ جس سے فوج خدانخواستہ دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہو، یا اس کی کوشش کی جا رہی ہو۔

اس سلسلے میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بیان کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کو فوج سے بطور ادارہ کوئی شکایت نہیں، البتہ اٹک پار سے ہونے والی سرگرمیوں کے متعلق تحفظات ہیں۔ یہاں اٹک پار سے مراد کور کمانڈر پشاور ہی تھے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء آصف علی زرداری کی طرف سے جنرل فیض حمید کے متعلق صحافیوں کے پوچھے گئے سوال کے جواب کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ تو کھڈے لائن لگا دیئے گئے ہیں۔ یہاں تک تو فوج کی طرف سے سیاست میں مداخلت اور اور پھر سیاسی رجحانات کے حوالے سے اعلیٰ رینکس میں اختلاف کی بات ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن پی ڈی ایم سے تعلق رکھنے والے وی لاگرز ایک نہایت ہی سنگین الزام لگا رہے ہیں کہ حال ہی میں کے پی کے میں بھتوں کی وصولی کے حوالے سے ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروپوں کی جانب سے لوگوں کو اغوا کرنے، قتل کرنے اور بھتہ خوری کے لیے خط لکھنے کا سلسلہ جاری ہے، اس کا بھی باواسطہ یا بلا واسطہ تعلق کور کمانڈر پشاور کی تبدیلی سے ہے۔ بادی النظر میں یہ کہنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کور کمانڈر پشاور کے طور پر جنرل فیض حمید کے دہشت گرد گروپوں سے تعلقات تھے اور ان کے ذریعے لوگوں سے پیسے بٹور رہے تھے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ وزیراعلیٰ کے پی کے کے دفتر سے کور کمانڈر پشاور کے طور پر جنرل فیض حمید کی طرف سے اربوں روپے وصول کرنے کے بے بنیاد الزامات بھی لگائے ہیں۔

معمولی عقل ہو فہم رکھنے والا آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ شہباز گل کی طرف سے جو بھونڈے الفاظ استعمال کیے گئے اور پی ڈی ایم کے حامی وی لاگرز جو پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، یہ کوئی سچا پاکستانی اپنی طرف سے نہ سوچ سکتا ہے، نہ ایسی باتیں گھڑ سکتا ہے، نہ ہی پھیلا سکتا ہے۔ مسلح افواج پاکستان کے وجود کی ضمانت ہیں، کسی بھی ملک کی فوج کی طرح ریاست پاکستان کے لیے مسلح افواج کا وجود بقاء کا مسئلہ ہے۔ عالمی استعمار امریکہ یا اس سے پہلے برطانیہ، سب نے ممالک کو کمزور کرنے کے لیے عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کی اور ریاستوں کو ہتھیانے میں کامیاب ہوگئے۔ مذکورہ الزامات اور پروپیگنڈہ کے بعد پاکستانی عوام کو فوج سے بدظن کرنے اور ملکی افواج اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کیلئے دشمن کو زیادہ کوشش کی ضرورت نہیں ہوگی۔ چاہیئے تو یہ کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم اپنی سیاسی لڑائی خود لڑیں اور یہ نوبت ہی نہ آئے کہ آرمی چیف کو سیاست میں مداخلت کرنا پڑے یا دنیا میں مختلف ممالک سے معاشی امداد اور تعاون کے لیے بات کرنی پڑے۔ لیکن یہاں سیاسی تعصب اور شکست خوردگی کا یہ عالم ہے کہ جب کچھ نہیں بن پڑتا تو فوج کو نشانے پر لے لیا جاتا ہے۔ سکیورٹی اداروں سے شکایات اپنی جگہ، لیکن فوج میں بغاوت کی فضا بنا کر سوشل میڈیا پر اچھالنا ملک دشمنی کہی جا سکتی ہے، کسی قسم کی خدمت نہیں۔


خبر کا کوڈ: 1008648

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1008648/مسلح-افواج-کیخلاف-بے-بنیاد-پروپیگنڈہ-کی-مہم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org