1
0
Thursday 11 Aug 2022 18:45

محرم علی تمہارا شکریہ

محرم علی تمہارا شکریہ
تحریر: ابو رِداء

یقیناً شہید کی موت ملت کے غیور افراد کے خونِ خالص میں توانائی بھر دیتی ہے، لیکن یہ صرف ملت کے غیور افراد کے لئے ہوتا ہے۔ ملت میں دو اقسام کے افراد ہوتے ہیں، ایک قسم غیور افراد کی ہے اور دوسری قسم پہلی قسم کا اُلٹ ہوتی ہے۔ یہ جو دوسری قسم ہے یہ مصداق ہے اس مصرعے کی کہ: "مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر" ہماری آج کی تحریر اس دوسری قسم کے لئے نہیں ہے۔ شہید محرم علی ایک لوئر مڈل فیملی سے تعلق رکھتا تھا اور زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا، لیکن چونکہ ایمان اور حرارتِ محبتِ اہلبیت کا تعلق کسی غریبی امیری سے نہیں اور نہ ہی دنیاوی تعلیمی ڈگریوں سے ہے، یہ تو ایک عطا ہے، یہ نور ہے۔ جب کسی کا تعلق کسی منبعِ نور یا اُس کے کسی نمائندہ سے ہو جائے تو نور خود بخود جگہ بنا لیتا ہے۔ محرم علی کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ شہید کا تعلق چونکہ نمائندہِ حق شہید ڈاکٹر محمد علی کے ساتھ قائم ہوچکا تھا تو نورِ حق کا محرم علی میں داخل ہو جانا لازمی تھا۔

شہید کے ساتھ میری ملاقاتیں اگرچہ زیادہ نہیں، لیکن جب بھی ملا، ایک انقلابیت اور حرارت لے کر آیا۔ شہید کی باتوں میں محبتِ حسین ابن علی اور محبتِ بی بی زینب جھلکتی تھی۔ شہید کا آئیڈیل حسین ابن علی کے شہزادہ علی اکبر تھے۔ شہداءِ دفاعِ مقدس سے والہانہ عقیدت تھی، اکثر فارسی رزمیہ ترانے سنتے تھے اور جب یہ ترانے سن رہے ہوتے تھے تو اُن کی کیفیت عجیب ہو جاتی تھی۔ امام خمینی (رہ) سے انتہائی عقیدت رکھتے تھے۔ محرم علی اپنے نظریات و افکار کی مضبوطی کی طرح جسمانی طور پر بھی بے حد مضبوط تھے، اونچی دیوار پر چھلانگ لگا کر چڑھنا اور اونچی چھت سے نیچے کودنا، بھاری سامان کو دونوں ہاتھوں سے با آسانی اٹھا لینا، ان کے لئے کچھ مشکل نہیں تھا۔ شہید اپنے جسم کو مضبوط رکھنے کا راز یہی بتاتے تھے کہ: "یہ جسم ایک دن امام کے کام آئے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔"

جب موت اور زندگی کے درمیان چند گھنٹے ہوں تو انسان کی کیا حالت ہوسکتی ہے، آخری رات شہید جاگ کر شہادت کا شدت سے انتظار کرتے رہے۔ پھانسی گھاٹ کی طرف لے جانے کے سفر سے پہلے بلند آواز میں اذان کہی، جس کو جیل میں موجود قیدیوں نے سنا۔ سفرِ شہادت شروع کرتے وقت جیل حکام میں سے کسی نے کہا کہ "محرم علی تمہیں پتہ ہے نہ کہ مرنے جا رہے ہو، اپنے قدموں پر چل پاؤ گے یا اسٹریچر منگوا لوں۔"شہید نے کہا مرنے نہیں جا رہا ہوں، جلدی کرو، دیر ہو رہی ہے، میرا انتظار ہو رہا ہے۔" کال کوٹھڑی سے پھانسی گھاٹ کا سفر اُسی طرح طے کیا، جیسے اپنوں سے بچھڑا اپنوں سے خوشی خوشی ملنے جا رہا ہوں، یا کوئی ایسا شخص کسی جگہ جانے کی زندگی بھر آرزو کرتا رہا ہو، دُعائیں کرتا رہا ہو اور اب وہ آرزو پوری ہونے، وہ دعائیں مستجاب ہونے کا وقت آگیا ہو۔

پھانسی گھاٹ پر بغیر ڈر و خوف کے قدم رکھا نعرہِ یاعلی مدد بلند کیا اور پھانسی پر چڑھ کر استعمار کے گماشتوں کے مُنہ پر تھپڑ رسید کرکے اُن کو پیغام دے دیا کہ یہ دیکھ لو: "موت قبول ہے، ذلت قبول نہیں۔" اور منافقین کو پیغام دے دیا کہ دیکھ لو: "موت قبول ہے، سازش قبول نہیں۔" اور اہل حق کو پیغام دے دیا کہ یہ دیکھو: "جب باطل ایسا کرے تو تم ایسا کرنا۔" شہید محرم علی کی شہادت ایک روشنی ہے، ایک راستہ ہے، ایک قبلہ نُما ہے۔ شہید کی شہادت درسِ حریت ہے، شہید کی شہادت درسِ محبت و عقیدتِ امام العصر ہے، شہید کی شہادت ملت کی حیات ہے، شہید کی شہادت درسِ انقلاب ہے، شہید محرم علی تیرا شکریہ کہ تو نے آنے والی نسلوں کو عزت کی زندگی اور عزت کی موت کا راستہ سمجھا دیا۔ تحریر کے شروع میں ہم نے جو دوسری قسم کے لوگوں کی بات کی ہے، یہ وہی لوگ ہیں، جو محرم علی کو پھانسی سے بچا سکتے تھے، لیکن ذاتی بغض اور انا کے لئے ایسا نہ کرسکے۔
خبر کا کوڈ : 1008667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سیدہ فاطمہ نقوی
Pakistan
سلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
یہ ویب سائٹ بہت بہترین و مفید ہے، ماشاءاللہ۔
مجھے یہ سوال کرنا تھا کہ ہم اپنی تحریریں یہاں کیسے بھیج سکتے ہیں؟ دراصل مجھے اپنی تحریریں یہاں بھیجنی ہیں۔
شکریہ
ہماری پیشکش