2
1
Friday 12 Aug 2022 20:07

کربلاء، حکومتِ الٰہیہ کیلئے امام حسین علیہ السلام کا سیاسی قیام

کربلاء، حکومتِ الٰہیہ کیلئے امام حسین علیہ السلام کا سیاسی قیام
تحریر: ابو رداء

واقعہ کربلاء کو تیرہ سو تراسی سال گزر چکے، خدا کی زمین پر حجت خدا، خدا کے نمائندے کے ساتھ ظلم کی یہ روش نہ تو پہلے کسی نے دیکھی تھی اور نہ ہی بعد میں دیکھی گئی۔ حسین ابن علی کی اپنے خانوادے اور اصحاب کے ساتھ عظیم قربانیاں رہتی دنیا تک باقی رہیں گی۔ ہر دور میں امام کے اس انقلابی افکار و اقدام سے نورانیت لیتے ہوئے حسینی پروانے، جاں نثار پروانہ وار تاابد قربان ہوتے رہیں گے۔ سن اکسٹھ ہجری کے عاشورہِ حسینی کو مختلف طبقہ ہائے فکر نے اپنے اپنے اذہان، سوچ اور محسوسیت کے مطابق سوچا، سمجھا اور اپنی سوچ و فکر کے مطابق عزاداری برپا کی۔ کچھ دعویدارِ جنت ہوئے، محض رسوم و رواج کے طور پر اور آنسو بہا کر اور کچھ نے امام کی معرفت کے بغیر درسِ کربلا کو پس پشت رکھ کر فن خطابت کے جوہر دکھا کر صرف مظلومیت کو بیان کرکے شہرت و دنیا حاصل کرنے کی سعی کی اور ہماری بےفکری نے ان کو پذیرائی بھی دی۔

اس عظیم قربانی کی مقصدیت و معنویت کو کتنے لوگوں نے سمجھا؟
امام حسین ابن علی کی اس تحریک، حکمت آموز قربانی اور قیام حسینی کی مقصدیت و معنویت کو کیسے سمجھا جائے اور اگر تحریک سمجھ آجائے تو پھر کیا کیا جائے۔ جن لوگوں کو یہ معنویت و حکمت سمجھ آگئی، ان کی بیداری کی کیفیت کیا ہے اور انہوں نے لبیک یاحسین علیہ السلام کس طرح کہا، یہ عظیم فریضہ ادا کیا بھی تو کس طرح کیا۔

خدا کی کائنات، خدا کی زمین اور احکاماتِ خدا بذریعہ حجتِ خدا
خدا کی کائنات، خدا کی زمین کبھی بدلی نہیں، لیکن حججِ خدا ضرور الہیٰ فریضہ بمطابق امر الہیٰ انجام دے کر تبدیل ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ ختم نبوت کے بعد  آئمۂ اطہار علیہم السلام کی صورت میں اس وقت ہمارے امام اخرالزماں (عج) تک بمطابق حکمِ الہیٍ جاری ہے. حجتِ خدا کو زمین پر حکمرانی کا اختیار دے کر بھیجا جاتا رہاو جو دلیل ہے اس بات کی کہ خدا نے زمین کو حجت خدا اپنے منتخب کردہ خلیفہ (ناکہ انسانی اختیار سے) معلمِ تربیت بنی نوع انسان و صاحبان اختیار کے بغیر نہ چھوڑا اور حتمی دلیل ہے انسان کے لئے بالخصوص کلمہ گو انسان کے لئے کہ زمین پر فقط احکامِ الہیٰ، قوانینِ الہیٰ ہی نافذ ہونگے، وہ بھی اس کے منتخب کردہ ہستیوں کے ذریعے، یعنی یہ فریضہ حجتِ خدا کا ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہِ کار امرِ الہیٰ سے متصادم و راہِ رخنہ ہوگا، کاش غدیر کا پیغام یاد رہتا۔

حجتِ خدا کو یہ اختیارِ کلی حاصل ہے کہ وہ احکامِ الہیٰ نافذ کرنے کے لئے زمین کے طول و عرض میں اپنے نمائندگان مقرر کرسکے، لیکن حجتِ خدا کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا اختیار نہیں، کیونکہ حجتِ خدا کا انتخاب اللہ ہی کا اختیار ہے۔ انبیاء و مرسلین نے اپنے اپنے زمان میں اپنے فرائض سرانجام دینے کے لئے اپنی حکومتیں قائم کیں، یہ بھی بتایا کہ اپنی حکومت یعنی نظام الہیٰ قائم کرنے کے لئے ناجائز، باطل حکومتوں کے خلاف جہاد کرنا حکم الہیٰ ہے۔ رسولِ خدا، خاتم الانبیاء نے ایک طویل جدوجہد کے بعد شہرِ یثرب کو عالمِ اسلام کا دارالخلافہ قرار دے کر باقاعدہ اسلامی حکومت قائم کی اور احکامات و تعزیراتِ اسلامی نافذ فرمائیں، ایک اسلامی نظم و ضبط، دینی احکامات اور مکمل اسلامی سیاست پر مبنی معاشرہ قائم کیا۔ آپ نے اس تیرہ سال میں اسلامی سیاسی حکمتِ عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک بہترین متوازن معاشرہ تشکیل دیا۔

رسول اللہ نے حکمِ خدا کے مطابق اپنے وصال سے تقریباً ستر دن پہلے مقامِ غدیر پر ایک مجمعِ کثیر کے سامنے حکمِ خدا سے اپنی اہم ترین ذمہ داری انجام دی اور عملاً و اعلانیہ اسلامی حکومت کی باگ ڈور جانشین رسول وصی رسول خدا حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حوالے کرتے ہوئے حق نبوت ادا کر دیا، امرِ الہی کی تعمیل کی، لیکن افسوس زبان کے کلمہ گو افراد نے مفادات کی خاطر، اجداد کی محبت اور بغض علی رکھتے ہوئے اُمتیوں نے صرف اِنہیں ستر دنوں میں حکمِ رسول جو دراصل حکمِ خدا تھا، پاؤں تلے روند ڈالا اور حکمِ خدا و رسول کے بر خلاف غیر قانونی خلیفہ بنا لیا، کیا یہ امتی کہلانے کے حقدار ہیں۔؟ یہاں خلافت کے حوالے سے حکمِ الہیٰ کی پہلی خلاف ورزی کی گئی اور اعلانیہ بیعتِ علی کرنے والوں نے، رسول اللہ کی زبان مبارک سے حکم الہیٰ سننے والوں نے، افسوس صد افسوس جانشینِ رسول کو اُس کے حق سے غاصبانہ طریقے محروم کر دیا، جاہ و منصب اور خواہشات نفس و  مفادات ذات کو اسلام پر غالب تسلیم کیا۔

علی ابن ابی طالب اپنے الہیٰ حق سے محروم کر دیئے گئے اور پچیس سال اس غیر قانونی خلافت کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے اور اسی ظلمِ عظیم کے سبب
حکمِ خدا و رسول سے ہٹ کر حکومت قائم کرنے کے نقصانات احکامات الٰہیہ اور سنتِ رسول کو بدلنے کے علاوہ بنی اُمیہ کو دوبارہ سے حکومت میں داخل ہونے کا موقع ملنا تھا۔ امیر المومنین نے اپنے ساڑھے چار سالہ دورِ حکومت میں احکامِ الٰہیہ کو دوبارہ اپنی جگہ لانے کی کوشش کی۔ امیر المومنین علی ابی طالب علیہ السلام نے بسترِ شہادت پر قوانینِ الہیٰ اور حکمِ خدا کے عین مطابق اپنے بیٹے امام حسنِ مجتبیٰ کو خلیفۃ المسلمین بنانے کا اعلان فرمایا اور خود جامِ شہادت نوش فرما گئے، جو مولا کی دِلی آرزو تھی۔

امام حسن علیہ السلام کو زیادہ دیر مسندِ خلافتِ الٰہی پر نہیں بیٹھنے دیا گیا اور آپ معاویہ کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے مسندِ خلافت چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یہاں خلافت اور جانشینیِ رسول کے حوالے سے دوسری بار حکمِ خدا پیروں تلے روندا گیا۔ امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے مابین اس معاہدے کے مطابق معاویہ کی وفات کے بعد خلافت دوبارہ اہلبیت کے پاس آجائے گے اور معاویہ کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا، لیکن معاویہ نے اپنی موت سے پہلے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ یہاں تیسری بار حکمِ خدا کی خلاف ورزی کی گئی اور جانشینِ رسول کا حقِ خلافت چھین لیا گیا۔

قیامِ امامِ حسین ابن علی
معاویہ کی وفات کے بعد یزید تخت نشین ہوا اور سب سے پہلا کام امام حسین سے بیعت کے مطالبے کا کیا، اب حسین ابن علی کیا کرتے، *بیعت کر لیتے* کیا حسین فاسق و فاجر یزید کی بیعت کرسکتے تھے؟ *خود کو روپوش کر لیتے* کیا عزت و شجاعت، حسینی غیرت و حمیّت کا یہ تقاضہ تھا۔ *یزید کے خلاف قیام  کرتے* حسین کو صرف یہی راستہ سجتا تھا، یہی فریضہِ و وظیفہِ امامت تھا۔ سوال یہ ہے کہ یزید امام حسین علیہ سلام سے بعیت لینے پر اتنا بضد اور جلد بازی میں کیوں تھا۔؟ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حسین ابن علی فرزندِ رسول اور ایک برجستہ شخصیت ہیں اور یہ بھی جانتا تھا کہ احکامِ شریعت کو جتنا وہ جانتے ہیں، اتنا اور کوئی نہیں جانتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یزید یہ بھی بخوبی جانتا تھا کہ حقِ خلافت حسین ابنِ علی کا ہے اور اس سے بھی واقف تھا کہ اُس کے باپ نے امام حسین علیہ السلام کے بڑے بھائی سے یہی معاہدہ کیا تھا کہ اُس کے مرنے کے بعد خلافت امام حسین علیہ سلام کو ملے گی۔

امام کی شخصیت اور فرزندِ رسول ہونے کے ناطے اگر امام یزید کی بیعت قبول کر لیتے تو یزید کے قوانین اور شریعت میں رد و بدل کو سارا عالمِ اسلام قبول کر لیتا اور شریعتِ محمدی ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتی۔ اگر امام روپوش ہو جاتے تو بھی یزید اپنی من مانی کرتا اور خود کو زیادہ دلیر سمجھتا، غیر اسلامی معاشرہ و معاویاتی سیاست پروان چڑھتی اور نتیجہ پہلی والی صورت میں ہی نکلتا، یعنی دین و شریعت میں اپنی مرضی داخل کرنا اور شریعتِ محمدی کا دفن ہونا، فِسق و فجور پروان چڑھتا۔ امام کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا اور وہی امام کا وظیفہ بھی تھا کہ*قیام کریں اور اپنا حقِ خلافت یزید سے چھین لیں، کیونکہ یہ حکمِ خدا تھا۔* درج بالا تحریر سے ہم نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ زمین پر خلافت صرف حُجتِ خدا کا حق ہے، اس طرح امام حسین علیہ السلام کے وظیفہِ امامت کا تقاضہ تھا کہ حُکمِ خدا کو بجا لاتے ہوئے چھینی گئی خلافت حاصل کریں۔ اس طرح امام حسین کا قیام سیاسی تھا اور خلافت و حکومت واپس لینے کے لئے تھا اور اگر امام ایسا نہ کرتے تو وظیفہِ امامت ادا نہ کرتے۔

ایک اعترض اور اُسکا جواب
جب یہ بات کی جاتی ہے کہ امام حسین کا قیام سیاسی تھا یا امام حکومت حاصل کرنے گئے تھے تو اعتراضات کئے جاتے ہیں کہ امام کو حکومت کی ضرورت نہیں تھی، امام حکومت کے خواہشمند نہیں تھے، امام کا حکومت سے کیا سروکار۔ جی بالکل امام حکومت کے خواہشمند نہیں تھے، اگر تو امام حکومت اپنی ذاتی خواہش کی تکمیل کے لئے حاصل کرنا چاہتے تھے، اپنے ذاتی جاہ و جلال کے لئے حاصل کرنا چاہتے تھے تو پھر یقیناً غلط تھا، لیکن کیا امام جو فرزندِ رسول، فرزندِ علی اور فرزندِ زاہراء ہیں، ایسی خواہش رکھتے تھے؟ کیا امام سے یہ توقع کی جا سکتی ہے؟ امام حسین علیہ السلام کے جدِ پاک نے جو حکومت کی، کیا وہ دنیاوی طور طریقوں کے مطابق تھی، ذاتی غرض کے لئے تھی یا خالص الہیٰ حکومت تھی۔؟؟ تو کیا سید الشہداء رسول اللہ اور امیر المومنین کی طرز پر حکومت نہ کرتے؟؟ اِلہیٰ قوانین نافذ نہ کرتے۔؟؟

چند دلائل
1۔ امام حسین علیہ السلام نے مکہ میں بیٹھ کر دو گروہوں کے نام خط تحریر فرمائے، ایک بصرہ کے قبیلوں کے سرداروں کو اور دوسرا کوفہ کے قبیلوں کے سرداروں کو خطوط لکھے، جن کی تحریر یہ تھی: *میرا نمائندہ میرا خط لے کر تمہارے پاس آیا ہے اور میں تم لوگوں کو کتابِ خدا اور اس کے رسول کی طرف دعوت دیتا ہوں، بیشک سنتِ رسول کو زندہ درگور کر دیا گیا ہے اور زمانہِ جاہلیت کی بدعتوں کو زندہ کر دیا گیا ہے، اگر تم میری دعوت پر لبیک کہتے ہوئے میری پیروی کرو تو میں تم کو راہِ راست کی ہدایت کروں گا۔* اس کے بعد لکھا کہ: *امام صرف وہی ہے، جو کتابِ الہیٰ کے مطابق حکومت کرے، عدل و انصاف کو قائم کرے، ملک، معاشرے اور قانون کی حق کی طرف راہنمائی کرے اور خود صراطِ مستقیم اور راہِ خدا پر گامزن رہ کر اپنے نفس کی حفاظت کرے۔* امام کے ان خطوط سے لفظ حکومت عیاں ہے، (امام نے اسلامی حکومت کے خدوخال بھی بیان فرما دیئے) اس خط سے ظاہر ہو رہا ہے کہ امام نے حکومتِ الہیٰ کے لئے قیام فرمایا تھا اور لوگوں کو اسی مقصد کے لئے آمادہ کر رہے تھے۔

2۔ اہلِ کوفہ امام کو کیوں دعوت دے رہے تھے؟ کس کام کی دعوت تھی؟ حکومت کرنے کی دعوت تھی، امامت و خلافت کی دعوت تھی یا مسجد میں بیٹھ کر صرف دینی و شرعی مسائل سمجھانے کے لئے دعوت تھی۔؟ امام نے اپنے سفیر جناب مسلم بن عقیل کو کیا ہدایات فرمائیں اور اہلِ کوفہ کو کیا پیغام بھیجا تھا؟ کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ*تمہارے ہاتھ پر بیعت میرے ہاتھ پر بیعت سمجھی جائے گی* تو یہ بیعت کس لئے ہوتی ہے؟ بیعت کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ حضرت علی کی بیعت کیوں کی گئی تھی؟ بیعت کا مقصد خلیفہ تسلیم کرنا ہی ہوتا ہے۔

3۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کا مقصد *امر بالمعروف و نہی عن المنکر*  بتایا تھا۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا معنی نماز روزہ کی تلقین، نیکیوں کی تلقین اور معاشرتی برائیوں سے بچنا ہی سمجھا گیا ہے، اس لئے معاشرہ امام کے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو نہیں سمجھ سکا۔ سید الشہداء کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مفہوم بہت وسیع ہے، میں اور آپ اپنے گھر اور گلی محلے کی برائیاں ختم کرنا چاہتے ہیں تو امام اس برائی کی جڑ کو اور برائی کے مرکز کو ختم کرنا چاہتے تھے اور یہ کام بغیر حکومت کے، بغیر طاقت کے ممکن ہی نہیں ہوتا۔

4۔ امیر مختار نے قیام کیوں کیا، جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ خونِ حسین کا بدلا لینے کے لئے امیر مختار نے قیام کیا اور اقتدار میں آکر یہ فریضہ سرانجام دیا۔ ظاہر ہے بنو امیہ کے سرکردہ افراد کو چن چن کر مارنا بغیر حکومت کے ممکن نہیں ہوسکتا تھا، ثابت ہوا کہ امام کی مظلومیت کا انتقام لینے کے لئے بھی حکومت کی ضرورت ہے.
5۔ رسول جعفریان اپنی کتاب "آئمہِ اہلبیت کی فکری و سیاسی زندگی" میں رقمطراز ہیں کہ *حقیقت یہ ہے کہ کربلا کی تحریک کو آلِ علی کو اُن کی حکومت دلانے کی انتہائی ممکنہ سیاسی کوشش قرار دینا چاہئیے۔* امام جعفر صادق علیہ السلام سے فرمان منقول ہے کہ "ہمارے امر کو زندہ کرو" اس لفظ "امر" کی وضاحت علماء حکومت کرتے ہیں، یعنی ہماری حکومت کے لئے کوشاں رہو، جدوجہد کرو۔

6۔ جب ہم نظامِ ولایتِ فقیہ کی بات کرتے ہیں تو اس ولایتِ فقیہ سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے؟ جب ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ولایتِ فقیہ ولایتِ رسول اللّہ، ولایتِ امیر المومنین کا تسلسل ہے تو اس کے معنی کیا نکلتے ہیں؟ ہمارا اہلسنت سے لفظ "ولایت" سے کیا اختلاف ہے کہ وہ اس کے معنی وِلا یعنی محبت لیتے ہیں اور ہم ولایت کا معنی حکومت لیتے ہیں، یعنی جو حکومت رسول اللّہ نے قائم فرمائی اور پھر حضرت علی نے قائم فرمائی، اسی کا تسلسل نظامِ ولایتِ فقیہ ہے، یعنی امام موجود ہوں یا نہ ہوں، حکومت وحی کی ہی ہوگی۔

7۔ امام خمینی (رہ) کی تقاریر کا مجموعہ "قیامِ عاشورہ اور کلام و پیام امام خمینی" میں درج جملے ملاحظہ فرمائیں: *جب حضرت سید الشہداء مکہ تشریف لائے اور پھر مکہ سے اسی حال میں باہر نکلے، یہ ایک عظیم سیاسی قدم تھا۔ آپ کے تمام اقدامات سیاسی تھے، اسلامی سیاسی اور یہ اسلامی سیاسی قدم ہی تھا، جس نے بنی امیّہ کا خاتمہ کیا اور اگر یہ عمل نہ ہوتا تو اسلام پامال ہو جاتا۔* امام راحل دوسری جگہ فرماتے ہیں: *سیدالشہداء آئے تھے اور حکومت بھی حاصل کرنا چاہتے تھے، بنیادی طور پر آپ اسی لئے آئے تھے اور یہ ایک افتخار ہے۔*، *جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت سید الشہداء حکومت کے لئے نہیں آئے تھے، نہیں ایسا نہیں تھا، آپ حکومت کے لئے آئے تھے، کیونکہ حکومت سید الشہداء جیسی شخصیت کے ہاتھ میں ہونی چاہیئے، ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیئے، جو سید الشہداء کے شیعہ ہوں۔*

8۔ ہم جو امامِ عصر عجل اللہ۔۔۔۔ کے ظہور کی دعائیں کرتے ہیں، اس سے ہمارا کیا مقصد ہوتا ہے۔؟ کیا ہم یہی نہیں چاہتے کہ امام آکر حکومت قائم کریں، کیا امام حکومت نہیں کریں گے، آج انقلابی شیعہ ولی فقیہ حفظہُ اللّہ کی قیادت و راہنمائی میں امامِ عصر کی حکومت کی زمینہ سازی نہیں کر رہے۔؟ کیا امام ظہور فرما کر کسی مسجد یا امامبارگاہ میں بیٹھ کر تعویز لکھیں گے؟؟ آخر ظہورِ حجت کے کیا مقاصد ہونگے۔؟ کیا فراوان روایات و احادیث نہیں ملتیں کہ حضرتِ حجت حکومت قائم کریں گے اور دنیا سے ظلم و جور کا خاتمہ کریں گے اور ایک الہیٰ معاشرہ قائم کریں گے۔ درج بالا دلائل، امام خمینی (رہ) کے فرامین، نظامِ ولایتِ فقیہ اور ظہورِ امام کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھنا انتہائی آسان ہے کہ ہر امام کی کوشش اور بالخصوص امام حسین علیہ سلام کی کوشش و جدوجہد قیامِ حکومتِ الہیٰ ہی تھا۔

اب ہم کیا کریں
ہم آج اسی فکرِ حسینی کو لے کر معاشرے میں حکومتِ اسلامی کا احیاء چاہتے ہیں، کیونکہ یہی حکمِ خدا ہے، اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور آتی جاتی حکومتوں سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہو تو ہم مجرم قرار پائیں گے اور زمانے کے جمود کو نہیں توڑ پائیں گے۔ *جن لوگوں نے قیامِ امام حسین علیہ سلام کا مقصد صرف ماتم، نوحہ خوانی، مرثیہ خوانی، تطبیر، گھروں میں مجالس برپا کر لینا اور نذر و نیاز بانٹ دینا اور کھا لینا ہی سمجھا ہے اور اسی کا نام عزاداری رکھ لیا ہے تو ایسے لوگ منتظرِ امام نہیں ہیں* اور یہ لوگ امامِ زمان سے بھی یہی اُمید رکھیں گے کہ وہ بھی حلقے میں کھڑے ہو کر ماتم کریں اور نذر و نیاز بانٹیں۔

لیکن جو لوگ مقصدِ قیامِ امام حسین علیہ سلام سمحھ گئے، وہ اپنے ہدف کا تعیّن خود کریں گے اور قیامِ امام کو انقلابِ ولی العصر سے جوڑیں گے، کیونکہ ہدف وہی 1383 سال والا ہی ہے۔ زمانہ بدلا، حکمران بدلے، نسلیں بدلیں، لیکن ہدف نہیں بدلا۔ اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے آج تک لاکھوں شہید ہوچکے ہیں۔ بے معنی عزاداری کی بجائے بامعنی عزاداری برپا کرنی ہوگی۔ پاکستان میں بھی حزبُ اللّہ، انصارُ اللّہ، حشد الشعبی تشکیل دینی ہوگی۔ پاکستان کو کوفے جیسے حصار میں آنے سے پہلے طوفان برپا کرنا ہوگا، جاری تحریک سے جڑنا ہوگا، انقلاب برپا کرنا ہوگا،  ذہنی غلامی کی زنجیریں توڑنی ہونگی، باعزت ملت بننے کے لئے شہادتیں پیش کرنا ہونگی۔ ہل مِن ناصر کی صدا بصیرتی کانوں سے سننا ہوگی، مدافع اسلام نابِ محمدی بننا ہوگا، گھر لٹانے ہونگے، خیمے جلوانے ہونگے، جسموں پر گھوڑے دوڑوانے ہونگے، اسیر ہونا ہوگا۔
لبیک یارسول اللہ
لبیک یاعلی
لبیک یا زاہراء
لبیک یاحسین
لبیک یازینب
لبیک یا امامِ زمان
خبر کا کوڈ : 1008858
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Rida Lhan
Pakistan
قیام امام عالی مقام کی بالکل حقیقت پر مبنی بہترین انداز میں تشریح کی گئی ہے، بہت دلیرانہ مضمون ہے، جزاک اللہ
Samrah Munor
Pakistan
Very profound analysis. We should prepare ourselves for the arrival of Imam e Zaman AS. This is the dire need of time
ہماری پیشکش