1
1
Sunday 14 Aug 2022 16:46

میرا پاکستان۔۔۔۔۔ تیرا پاکستان

میرا پاکستان۔۔۔۔۔ تیرا پاکستان
تحریر: ابو رِداء

آج یومِ آزادیِ پاکستان ہے، یومِ آزادی ہم سب کو مبارک۔ پاکستان ہمارا ملک، ہماری زمین، ہماری کوکھ، ہماری گود، ہمارا پیار، ہمارا مقصد، ہماری ماں ہے۔ پاکستان کے بنانے والے راہنماء اور عوام قابلِ عزت اور واجب الاحترام ہیں، کیونکہ انہیں کی کاوشوں اور قربانیوں کی وجہ سے آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ فرامینِ معصومین کے مطابق انسان کا وطن اُس کی ماں ہے، یعنی دھرتی کی عزت اُسی طرح کرو، جس طرح اپنی ماں کی عزت کرتے ہو۔ ماں کی خوشبو کیسی سہانی ہوتی ہے، ماں کے تو جوتے سے بھی پیار ہوتا ہے۔ اسی طرح وطن کی مٹی کی خوشبو کو اپنے اندر بسا لو۔ اگر کسی دیارِ غیر میں کوئی پانچ چھ قسم کی مٹیوں کی ڈھیریاں آپ کے سامنے رکھ دے اور آپ کو کہے کہ اپنے وطن کی مٹی پہچانو تو آپ سونگھ کر بتا دو کہ یہ میری دھرتی ماں کی مٹی ہے۔ دھرتی ماں سے محبت کا یہ تقاضہ ہے، یہ دھرتی ماں کی محبت کا معیار ہونا چاہیئے۔ دھرتی ماں کی محبت سے انحراف صرف اس وقت جائز ہوگا، جب دھرتی ماں قوانینِ خدا سے انحراف کرے، کیونکہ حکمِ شریعت یہی ہے کہ ماں باپ کی اطاعت اُس وقت تک لازم ہے، جب تک حکمِ خدا کی مخالفت نہیں ہوتی۔

پاکستان دو قومی نظریہ کے تحت معرضِ وجود میں آیا۔ پاکستان دینِ اسلام کے پیروکاروں کے لئے بنایا گیا، تاکہ وہ یہاں اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔ پاکستان مسلمانوں کے لئے تو وجود میں آیا، لیکن اسلام کے لئے نہیں بنا، کیونکہ اگر اسلام کے لئے بنتا تو پھر پہلے دن سے ہی آئین شریعتِ محمدی کے مطابق بننا چاہیئے تھا جبکہ یہاں آئین برٹش قوانین کے مطابق تشکیل ہوا، جو پہلے سے ہی آل انڈیا میں نافض تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے جو مذہبی تنظیمیں اور مذہبی راہنماء پاکستان بننے کے مخالف تھے، وہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان میں اسلامی قوانین کا مطالبہ کرنے لگے، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اُنہوں نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کر لیا تھا، "دیر آئے درست آئے" لیکن انہی مذہبی جماعتوں میں سے کچھ میں مسلکی رنگ جھلکنے لگا اور فرقہ واریت نظر آنے لگی، جس کا نتیجہ مذہبی شدت پسندی کی صورت میں نکلا۔ جو ملک مذہبی آزادی اور مذہبی رواداری، امن و سکون اور محبت و بھائی چارہ کے لئے بنا تھا، اُسی پاکیزہ دھرتی ماں کے سینے میں فرقہ واریت کا زہریلا خنجر گھونپ دیا گیا اور دھرتی ماں اس درد سے تڑپ اُٹھی.

ستم بالائے ستم یہ کہ اسلامی نظام کا مطالبہ وہ لوگ کرنے لگے، جن کو خود دینِ اسلام کی ابجد کا ہی پتہ نہیں۔ اگر پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہو جائے تو یہی مطالبہ کرنے والے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس نظام کے دشمن ہو جائیں گے۔ ان تکفیریوں نے شیعہ پر طعنہ زنی کی کہ شیعہ اگر مسلمان ہوتے اور اسلام پسند ہوتے تو ہمارا ساتھ دیتے، ہمارے ساتھ مل کر جہاد کرتے۔ ان کو جواب میں وہی کچھ کہا جا سکتا ہے، جو امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ سلام نے ابو سفیان کو کہا تھا کہ جب مولا کو خلافت سے محروم کیا گیا تو ابو سفیان نے مولا کو پیشکش کی کہ میں آپ کا حق دلوانے میں آپ کے ساتھ ہوں تو مولا علی نے جواب میں کہا کہ: "تو کب سے اسلام کا حامی ہوگیا۔" اس امن کے گہوارے پاکستان میں دشمن نے اپنی بھرپور سازش کرتے ہوئے مذہبی فرقہ وارانہ منافرت ایجاد کر دی، لسانی منافرت اور علاقائی منافرت کا زہریلا بیج بو دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لسانی، علاقائی اور مذہبی شدت پسند تنظیمیں بن گئیں اور فسادات اور لڑائی جھگڑے ہونے لگے۔

حالانکہ دقیق اور حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھیں تو مہاجر اور مقامی لوگ دونوں قابلِ احترام ہیں۔ مہاجرین وہ عظیم لوگ ہیں، جو اس مٹی کو اپنا وطن بنانے کے لئے اپنا سونا چھوڑ آئے۔ اپنی مذہبی آزادی کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ آئے۔ صرف گھر بار ہی نہیں، اپنے پیارے بھی چھوٹ گئے۔ ماں، باپ، بیٹے، بیٹیاں، بہن، بھائی، کمسن، ضعیف مارے گئے۔ قافلے کے قافلے لُٹ گئے، عزتیں پائمال ہوگئیں، لیکن پاکستان زندہ باد کا نعرہ زبانیں کٹنے کے باوجود بھی جسم کے اعضاء و جواریح سے لگتا رہا۔ مقامی آبادی، پنجابی، سندھی، سرائیکی وغیرہ کی عظمت یہ ہے کہ اُنہوں نے مہاجرین کو سنبھالا، غذا و لباس اور رہائش کا انتظام کیا، اپنے گھروں میں رہائشیں دیں۔ جب مہاجر و مقامی میں اتنا پیار و محبت تھا تو چاییئے تو یہ تھا کہ جو رشتہِ اخوت رسول اللہ نے مدینہ میں انصار و مہاجرین کے درمیان قائم کیا تھا، وہی رشتہِ اخوت و محبت سنتِ رسول کی اتباع میں یہاں قائم کیا جاتا اور تمام اقوام شِیر و شکر ہو کر وطنِ عزیز کی تعمیر و ترقی میں مشغول ہو جاتیں اور دھرتی ماں کو خوش کرتیں، اپنی آئندہ کی نسلوں کو خوشحال بناتیں، پاکستان کو دنیا کی عظیم ریاست بناتے اور یہ محبتیں ہمیشہ قائم رہتیں۔

*لیکن ہوا کیا* ہوا یہ کہ دشمن نے اپنا کام دکھایا، ہمارے اندر غدار پیدا ہوگئے اور آپس میں قتل و غارتگری کا بازار گرم ہوگیا اور آج انجام آپ کے سامنے ہے۔ پاکستان کو اس مقام پر پہنچانے والے کون ہیں، بلکہ یہ کہوں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ کون کون نہیں، اگر اس گندی گیم میں شامل نہیں تو سادہ لوح عوام نہیں، لیکن سب سے زیادہ متاثر یہی سادہ لوح عوام ہی ہے۔ میں اگر ملتِ تشیع کے کردار کا ذکر نہ کروں تو حقِ تحریر ادا نہیں ہوگا۔ ملتِ تشیع کو کچھ خاص مقاصد کے لئے وہ مقام نہیں دیا گیا، جو ایک مخلص پاکستانی کو ملنا چاہیئے، وہ بنیادی حقوق بھی نہیں مل پائے، جو ایک پاکستانی کو ملنے چاہئیں۔ قتل و غارت، گھروں کا لٹنا، قافلوں کا قتل، بم دھماکوں میں سینکڑوں شیعوں کا اجتماعی قتل، مساجد و امام بارگاہوں میں خودکش حملے۔ لیکن آفرین ہے کہ اس ملتِ تشیع کے غیور اور محبِ وطن سپوتوں پر کہ اس سب کچھ کے باوجود بھی کہیں بھی پاک فوج، پولیس، رینجرز یا کسی ادارے کے اہلکاروں پر حملے نہیں کئے، کبھی کسی ادارے کو نقصان نہیں پہنچایا، کسی کا قتل نہیں کیا۔

اپنا پُرامن احتجاج ضرور کیا، لیکن کبھی کسی کو مارا نہیں، کسی گھر اور دوکان کو نہیں جلایا، کسی عمارت پر پتھر نہیں پھینکا۔ ہاں اپنا سینہ ضرور پیٹا، اپنے پیاروں کے لاشے لے کر کئی کئی دن ضرور بیٹھے رہے، کیونکہ پاکستان کا باشعور شیعہ جانتا ہے کہ یہی تو دشمن کی سازش ہے، یہی تو دشمن چاہتا ہے کہ اپنے وطن کی فوج پر پولیس پر حملے کئے جائیں، بد امنی پھیلائی جائے، جبکہ دوسری طرف سے پاک فوج، رینجرز، پولیس، ایف سی پر مسلسل حملے کئیے جاتے ہیں، اغواء کیا جاتا ہے، قتل کیا جاتا ہے، گلے کاٹے جاتے رہے، کیونکہ وہ لوگ دشمن کے آلہِ کار ہیں اور یہی لوگ یہی دہشتگرد شیعوں پر بھی حملے کرتے ہیں۔ یعنی اس طرح مظلومیت میں تشیع اور ملکی سلامتی کے ادارے برابر کے شریک ہیں۔ یہ جو پاکستان میں چھیاسی ہزار پاکستانیوں کے قتل کی بات کی جاتی ہے، اس میں اسی فیصد تو شیعہ ہی ہیں، یعنی شیعہ ہی پاکستان کا فرنٹ لائنر ہے، شیعہ ہی پاکستان کا مخلص ہے، وفادار ہے۔ حکومتی اداروں کو ملتِ تشیع کی اس حوالے سے قدردانی کرنی چاہیئے۔
*پاکستان زندہ باد*
خبر کا کوڈ : 1009149
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Abbas
Pakistan
بہترین تحریر
ہماری پیشکش