1
Sunday 14 Aug 2022 19:03

شام میں ترکی کا یو ٹرن

شام میں ترکی کا یو ٹرن
تحریر: سید رحیم نعمتی
 
شام حکومت کے ساتھ ترکی کے خفیہ تعلقات کوئی نئی بات نہیں ہے خاص طور پر دونوں ممالک کے حساس اور سکیورٹی اداروں کے درمیان گذشتہ کئی سالوں سے رابطہ قائم ہو چکا ہے اور اس بات کی تصدیق بعض ذرائع ابلاغ نے بھی کی ہے۔ البتہ ترکی اور شام کے اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں کے درمیان ملاقات ایک نئی بات ہے جس کا اظہار گذشتہ ہفتے ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اوگلو نے کیا ہے۔ مولود چاوش اوگلو نے انقرہ میں منعقدہ تیرہویں سفراء کانفرنس کے آخری دن تقریر کرتے ہوئے پہلی بار دنیا والوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ انہوں نے شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد سے ملاقات کی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ملاقات گذشتہ برس اکتوبر کے مہینے میں اس وقت انجام پائی جب وہ بلغراد میں نان الائنمنٹ تحریک کے اجلاس میں شریک تھے۔
 
ترکی کے وزیر خارجہ نے شام حکومت اور مخالفین کے درمیان صلح برقرار ہونے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: "یہ مقصد حاصل کئے بغیر شام میں پائیدار امن برقرار نہیں ہو سکے گا۔" کیا ترکی کے وزیر خارجہ کے اس بیان کو شام سے متعلق ترکی کی خارجہ پالیسی میں یو ٹرن تصور کیا جائے؟ اور کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ انقرہ نے تقریباً ایک عشرہ شام حکومت سے دشمنی اختیار کرنے کے بعد اب اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ ایک طرف یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس عرصے میں ترکی کے پاس جو عظیم اقتصادی، فوجی اور سیاسی سرمایہ موجود تھا اس کے تناظر میں خوش بینی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی جبکہ شام کے شمالی صوبے ادلب میں موجود حکومت مخالف عناصر ترکی کیلئے بڑا انسانی سرمایہ سمجھے جاتے ہیں۔
 
انقرہ اب تک اس انسانی سرمائے کو کم از کم لیبیا اور آذربائیجان میں فوجی مداخلت کیلئے بروئے کار لا چکا ہے۔ اسی طرح ترکی کی جانب سے ان عناصر کو یوکرین بھیجے جانے کی رپورٹس بھی موصول ہوئی ہیں۔ لہذا موجودہ صورتحال کے تناظر میں ترکی کی جانب سے اس انسانی سرمائے سے چشم پوشی کرنا دور از امکان دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب شام کے کرد عناصر کے ساتھ ترکی کے فوجی ٹکراو کا بہت زیادہ امکان پایا جاتا ہے اور اس ٹکراو کی صورت میں ترکی کو اس انسانی سرمائے کی بہت زیادہ ضرورت پیش آئے گی۔ شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد عناصر کو استعمال کر کے ترکی اپنی فوجی کو ہونے والے جانی نقصان سے بہت حد تک بچ سکتا ہے۔
 
دوسری طرف جون کے وسط میں ترکی میں صدارتی الیکشن منعقد ہونے والے ہیں اور موجودہ صدر رجب طیب اردگان کے مخالفین ان کی جنگ طلب پالیسیوں کو انہی کے خلاف استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ جمعرات کے روز ترکی کی 308 اہم شخصیات جن میں یونیورسٹی کے اساتید، صحافی، مصنفین، فنکار اور تجزیہ نگار شامل تھے، نے ایک بیانیہ جاری کیا۔ اس بیانیے میں شام میں ترکی کی فوجی کاروائی فوری طور پر روک دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح ترک حکومت کی ایسی پالیسیوں پر بھی شدید تنقید کی گئی تھی جن کے نتیجے میں ترکی کے دشمنوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ ترک حکومت اس وقت تناو کی شدت میں کمی لانے کی کوشش کر رہی ہے اور چاوش اوگلو کا بیان بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
 
شام کے اخبار الوطن نے دمشق اور انقرہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے بارے میں لکھا: "انقرہ کی جانب سے دمشق کیلئے تعلقات میں بہتری لانے کا پیغام درست نہیں ہے اور یہ آنے والے صدارتی الیکشن کیلئے محض میڈیا مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد ترک حکومت کا خوبصورت چہرہ پیش کرنا ہے۔" لیکن اس کے باوجود اس امکان سے بھی چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی کہ ترکی کی جانب سے خطے کے مختلف ممالک جیسے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر سے تعلقات میں اختیار کئے گئے یو ٹرنز کے تناظر میں عین ممکن ہے شام سے تعلقات میں بھی ترکی یو ٹرن اختیار کر رہا ہو۔ درحقیقت انقرہ نے گذشتہ ایک عشرے سے شام سے متعلق بہت ہی غلط اور دشمنی پر مبنی پالیسی اختیار کر رکھی تھی اور اب وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ شام حکومت مستحکم ہو چکی ہے۔
 
لہذا اب انقرہ شام سے اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنا چاہتا ہے اور ترک وزیر خارجہ چاوش اوگلو کی جانب سے شام کے ہم منصب فیصل مقداد سے ملاقات کو منظرعام پر لانا سفارتی میدان میں پہلا قدم سمجھا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ترکی واقعی شام سے تعلقات میں بہتری اختیار کرنے کے درپے ہے تو وہ شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد عناصر کا کیا کرے گا؟ ترک وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد شام کے شمالی علاقوں میں ان مسلح دہشت گرد عناصر نے ترکی کے خلاف مظاہرے بھی کئے ہیں۔ یہ مظاہرے عفرین، اعزاز، الباب، تل ابیض اور راس العین میں انجام پائے ہیں جن میں ترکی کے پرچم کی بے حرمتی بھی کی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسلح دہشت گرد عناصر ترکی کی قومی سلامتی کیلئے بھی خطرہ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1009155
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش