0
Thursday 15 Sep 2022 15:53

نکاح ٹوٹنے سے خودکش دھماکوں تک۔۔۔! (حصہ اول)

نکاح ٹوٹنے سے خودکش دھماکوں تک۔۔۔! (حصہ اول)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

بات نکاح ٹوٹنے سے شروع ہوئی تھی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ خودکش دھماکوں تک جا پہنچی، مولوی شروع میں یہی کہتے تھے کہ جلوس میں گئے تو نکاح ٹوٹ جائیں گے، ذوالجناح کو دیکھا تو ایمان کی تجدید کرنا پڑے گی، کلمہ پڑھنا پڑے گا، جب اس سے کام نہیں بنا تو شروع میں جلوسوں کے راستے میں پتھراؤ کیلئے جمع ہوتے تھے، جان بوجھ کے جھگڑا بناتے تھے، دنگا اور فساد کا ماحول بنایا جاتا، توہین صحابہ کا جھوٹا الزام لگایا جاتا، جب کام چلتا نظر آیا تو خود ہی دونوں طرف کی چاکنگ کرتے، خود ہی صحابہ کی توہین کے نعرے لکھتے اور ان کی بنیاد پہ ’’کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کی وال چاکنگ کرتے، وال چاکنگ سے اگلے قدم میں جلسوں اور پروگراموں میں شیعہ کی تکفیر کے نعرے شروع کئے گئے، جھوم جھوم کے یہ نعرے لگائے جاتے، اس زمانے میں مناظرانہ جلسوں میں ایک دوسرے کو جواب دینے کا رواج اور کلچر تھا، ایک فرقہ کا ملاں کچھ مغلظات بک کے جاتا تو دوسرا کسی اپنے مناظر کو بلا کے مخالفوں کی ایسی کم تیسی پھیرتے تھے۔

تکفیری جماعت کے بانی جھنگوی کا قد شرمناک حد تک پست تھا، اس پہ اکثر شہروں میں پابندی ہوتی تھی، مگر کئی دفعہ پست قد ہونے کی وجہ سے چھپ جاتا تھا اور پہنچ جاتا تھا اور اسی طرح تقریر کر کے بھاگ بھی جاتا تھا، ویسے بھی اوپر سے انتظامیہ کو ہتھ ہولا رکھنے کی ہدایات تھیں، اسی دور میں ایک دوسرے کے خلاف پمفلٹس اور اسٹکرز چھاپے جاتے تھے، ایک قسم کا مقابلہ ہوتا تھا، یہ ایک ابتدائی زمانہ اور دور تھا جو گذر گیا، ہم تو بس عزاداری اور ماتمی جلوسوں تک محدود تھے جبکہ انہیں جہادی چھتری میسر تھی، ویسے افغانستان مین کئی ایک گروہ جہادی بھٹی میں ایندھن فراہم کرنے میں مشغول تھے، جو سب کے سب ہی شیعہ مخالف نظریات کے حامل تھے، مگر تکفیریوں کے سب سے زیادہ قریب سمجھی جانے والی حرکت المجاہدین نامی تنظیم تھی، جو تکفیری دیوبندیوں کی ایک اہم جہادی تنظیم کہی جا سکتی تھی۔

حرکت المجاہدین افغانستان میں روسیوں کے خلاف اپنے ہم فکر جہادی گروہ کیساتھ مشغول تھی، ان کو ہمارے اداروں کی مکمل سرپرستی حاصل تھی، اسی سر پرستی کا فائدہ یہ تکفیری گروہ لے رہا تھا۔ ایک طرف حرکت المجاہدین کے پلیٹ فارم سے ہزاروں تکفیری مائنڈ سیٹ کے لوگ مسلح و جہادی ٹریننگ حاصل کر رہے تھے اور اسی ٹریننگ کے نتیجہ میں اپنی فکری تربیت جو تکفیری پلیٹ فارم سے انہیں دے کے جہادی ٹریننگ کیلئے بھیجا جاتا تھا اس کیلئے کردار ادا کرنا شروع کیا گیا تھا۔ جھنگ سے اٹھنے والی اس تکفیری جماعت کو مقامی سیاست مداروں نے اپنے مقاصد کیلئے بھرپور استعمال کیا اور خاص مقاصد کیلئے انہیں میدان میں اتارا گیا، یہ لوگ اپنے تکفیری نظریات کیساتھ سیاست میں وارد ہوئے کہ اہل تشیع جو صحابہ کی توہین کرتے ہیں ان کے خلاف قانون سازی کروانا ضروری ہے، ان کے جلوسوں کو امام بارگاہوں تک محدود کرنا ضروری ہے۔

یہ نعرہ تھا کہ شیعوں کی عبادت کو چار دیواری تک محدود کیا جائے، شیعوں کے ماتمی جلوسوں کو روکا جائے، شیعہ کی اذان پہ پابندی لگائی جائے کہ یہ ہمارے عقیدہ کے خلاف ہے۔ اس جہادی تربیت اور برین واشنگ کا نتیجہ بہت خطرناک نکلا، ایسا نتیجہ جس نے پاکستان کی معاشرت کی رنگ ہی بدل ڈالی، کافر کافر کی صداؤں میں، اسلحہ کی فراوانی اور پاکستان بھر میں مسلح لائسنسی لشکروں کے ذریعے اس ملک کے در و دیوار ہلنے کا خطرہ محسوس کیا گیا، کل تک تقریر کے جواب میں تقریر ہوتی تھی، نعرے بازی کے مقابل نعرہ بازی کی جاتی تھی، وال چاکنگ اور پمفلٹ بازی کے مقابلہ میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا، اب ایک نیا کام شروع کیا گیا، نامور علما ء، خطباء پر قاتلانہ حملوں کا سلسلہ شروع کیا گیا، جھنگ سے فسادات پھوٹنے کے بعد اردگرد کے اضلاع میں بھی یہی سلسلہ شروع کیا گیا۔

میری یادداشت کے مطابق تو سب سے پہلے بہاولپور کی نماز عید میں نمازیوں پر فائرنگ کی گئی، اس کے بعد مساجد کی صفیں اس کے اپنے ہی نمازیوں کے لہو سے رنگین ہونا شروع ہوئیں۔ مجالس میں کلاشنکوفوں سے مسلح دہشت گرد کھلے عام عوام کو نشانہ بنانے لگے، یوں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا جن بوتل سے باہر آیا کہ آج تک واپس نہیں جا سکا، قتل و غارت گری، خون ریزی، فسادات، خوف و دہشت کی فضا نے ایسے رخ اختیار کئے کہ ملکی معیشت ہچکولے کھانے لگتی، انویسٹرز نے بیرون ممالک میں اپنے بزنس شفٹ کرنے شروع کر دیئے اور بیرونی سرمایہ کار ملک میں آنے سے کترانے لگے، دہشت گردانہ حملوں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا، ٹارگٹ کلنگ نے کئی روپ اختیار کئے، لوگ اپنے ناموں کی وجہ سے مارے جانے لگے، ایک دن اور کئی کئی لاشیں، ایک دن اور کئی کئی شہروں میں بہ یک وقت خون ریزی اور دہشت گردی نے ہلا کے رکھ دیا۔

اس دوران افغانستان میں جہاد فساد میں تبدیل ہوا، جو گروہ روس اور اس کے حامی لوگوں کے خلاف جہاد کر رہے تھے وہ اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے، ان کی بندوقوں، بموں اور گولہ و بارود کا نشانہ دوسری جماعتیں اور گروہ بننے لگے، پاکستان نے بہت زیادہ کوششیں کیں کہ یہ لڑاکو اس کے ہاتھ میں رہیں، اس کی مان لیں، ایک دوسرے کے خون سے پیاس نہ بجھائیں مگر ایسا ممکن نا تھا، جن کو خون سے پیاس بجھانا سکھایا گیا تھا وہ بھلا کیونکر اس کے علاوہ کسی اور پہ گذارہ کرنے والے تھے، لہذا ان افغانوں کو حرم پاک کعبۃ اللہ میں لے جا کے صلح و عہد کروایا گیا مگر بے سود رہا، کچھ ہی عرصہ بعد وہی کھیل، وہی روش، وہی انداز، خونی کھیل جو آج بھی جاری ہے، یہ خونی کھیل جسے افغانستان سے پاکستان منتقل کیا گیا تھا اب سرحد کے دونوں طرف جاری ہے۔ وہ جن کے ذریعے مغربی سرحد کو محفوظ کرنا تھا اور جنہیں مغربی سرحد کی نگہبانی سونپی گئی تھی وہی سرحد کے مخالف نکلے، وہی ہماری لگائی باڑ آج بھی اکھاڑتے نظر آتے ہیں، وہی ہمارے خلاف مردہ باد کے نعرے لگاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہ تو ایک کھلی حقیقت ہے کہ افغانستان میں جتنے بھی جہادی گروہ کام کر رہے تھے 1989ء میں جہاد کشمیر کا دروازہ کھلنے کے بعد کشمیر کے محاذ پہ پہنچ گئے، ان میں کچھ نئے لوگ بھی شامل ہوئے، کچھ نئے جہادی کمانڈرز سامنے آگئے، چونکہ اس کام میں کھلا پیسہ تھا، ایسا اندھا روپیہ جس کا حساب نہیں دینا پڑتا، لہذا پاکستان بھر کے دور دراز ایریاز تک جہادی بھرتی کیلئے باقاعدہ دفاتر کام کر رہے تھے، وہ لوگ سب سے آگے تھے جو افغانستان میں متعصب و فرقہ وارانہ سوچ اور فکر کیساتھ مسلح گروہ چلا رہے تھے، ان میں ایسے بھی تھے جن کے ٹریننگ کیمپس میں باقاعدہ شیعیت کے خلاف ویڈیوز دکھائی جاتی تھیں اور ان کی برین واشنگ کی جاتی تھی، اس کا نتیجہ اس ملک کو مستقبل میں بھگتنا تھا، ہم تو متعلقہ اداروں اور حکام تک اس تشویش کو پہنچاتے رہے مگر کسی کے کان پہ جوں تک نا رینگی اور ملک کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 1014485
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش