0
Friday 16 Sep 2022 18:38

نکاح ٹوٹنے سے خودکش دھماکوں تک۔۔۔! (حصہ دوم)

نکاح ٹوٹنے سے خودکش دھماکوں تک۔۔۔! (حصہ دوم)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ یہاں جتنی بھی دہشت گرد تنظیمیں داعش سے قبل کام کر رہی تھیں وہ سب کی سب دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی تھیں اور انہیں ہمارے اداروں کی مکمل سر پرستی حاصل تھی، دیوبندی مکتب فکر کی مسلح جماعتوں کے علاوہ ایک جماعت جسے اقوام متحدہ، امریکہ اور پھر پاکستان حکومت نے بھی کالعدم قرار دیا وہ لشکر طیبہ ہے جس کا تعلق سلفی تحریک سے ہے، افغانستان کی روس سے جنگ اور بعد ازاں مقبوضہ کشمیر میں جہادی سرگرمیوں کے آغاز تک تو اس شعبے میں صرف دیوبندی مکتب فکر کا راج تھا، مگر کشمیر کا جہاد شروع کیا گیا تو لشکر طیبہ بھی اس فہرست میں سامنے آگئی اور یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ لشکر طیبہ بہت جلد اپنے نظریات و عقائد کیساتھ اس افق پر دیگر تنظیموں سے نمایاں نظر آنے لگی۔

یہی وہ دور تھا جب پس پردہ قوتوں کی طرف سے جہادی ماحول میں سلفیت کو پروان چڑھانے اور اس پر دست شفقت رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا، اس سے قبل افغانستان کے صرف ایک محدود خطے کنڑ میں ایک سلفی جہادی مولانا جمیل الرحمن کا نام محدود طور پہ لیا جاتا تھا، بتایا جاتا ہے کہ یہی وہ شخص تھا جس نے سب سے پہلے اپنے مخالفین کے سر کاٹنے کا آغاز کیا اور اس کا بانی کہلایا، اسی فکر کو کشمیر میں لشکر طیبہ نے رواج دیا اور پھر ایک دن یہ خبر آئی کہ لشکر طیبہ کا فلاں مجاہد ایک انڈین فوجی کا سر کاٹ کے پاکستان لے آیا، ان کاروائیوں کو برملا تسلیم بھی کیا جاتا تھا، اپنے تنظیمی رسالوں میں یہ سب لکھا جاتا تھا، بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جہادی ماحول میں دیوبندیت اور سلفیت کا راج تھا اور انہیں ہی اپنے ٹریننگ کیمپس چلانے کی آزادی تھی، یہ کیمپس جنرل مشرف کے آنے پر محدود ہوگئے۔

اب خود سوچیں کہ گیارہ برس تک روس کے خلاف برسر پیکار رہنے اور جہادی تربیت گاہوں سے گذر کے آنے اور پھر دس برس (1989 تا1999) تک مسلسل کشمیر کی وادیوں میں تربیت لینے والے ان گنت نوجوانوں اور تنظیموں کی کھیپ کو، جب جنرل مشرف آئے تو انہیں محدود کرنے کا خیال آیا، مگر سب جانتے ہیں کہ مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے سے قبل ہی کارگل کا معرکہ سامنے آیا تھا اور ہمارے اداروں نے انہی تربیت یافتہ جہادیوں کا سہارا لیا، انہی کا نام استعمال ہوا اور دنیا کو یہی بتایا گیا کہ یہ مجاہدین کشمیر ہیں جو کارگل میں داخل ہوئے ہیں، یاد رہے کہ اس دور میں تحریک طالبان کا کوئی نیٹ ورک نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کا کام یہی وہ نام نہاد مجاہدین کرتے تھے۔

ان نام نہاد مجاہدین نے ملک کے گوش و کنار میں فرقہ وارانہ قتل عام اور اقلیتوں کو تہہ تیغ کیا، ان کے شر سے اہل سنت محفوظ رہے نا اہل تشیع، مسیحی بچ سکے اور نا ہی احمدی، مسجدیں نمازیوں کے خون سے رنگین ہوئیں، عبادت گاہیں بارود کے دھماکوں سے لرز اٹھیں، مزارات اولیاء کو ویران کیا گیا، ملک کا قیمتی اثاثہ پروفیسرز، علما، اساتذہ، ڈاکٹرز، دانشور، سیاستدان، بیوروکریٹ الغرض ہر طبقہ فکر کے لوگ ان کے نشانے پر رہے، یہ لوگ کہیں باہر سے نہیں آتے تھے بلکہ ہماری ہی سوسائٹی کا حصہ ہوتے تھے، ہمارے ہی شہروں، دیہاتوں اور محلوں کے رہنے والے ہوتے تھے، ان لوگوں نے تو ہمارے محلوں میں ہی دفاتر اور کیمپس قائم کئے ہوئے تھے جہاں کھلے عام اسلحہ کی تربیت کیلئے بھرتیوں کے اشتہارات لگائے جاتے تھے۔

جس طرح داعش و النصرہ فرنٹ نے القائدہ کی کوکھ سے جنم لیا ہے ایسے ہی پاکستان بھر میں کام کرنے والی دہشت گرد تنظیموں نے بھی اسی کوکھ سے جنم لیا ہے، ہمارا تو ہمیشہ ہی سے یہی موقف رہا ہے کہ القائدہ، طالبان، لشکر جھنگوی، جیش محمد، حرکت الانصار، حرکت المجاھدین، الفرقان، خدام الاسلام، جنداللہ الگ الگ تنظیمیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی ہیں، ایک ہی نظریہ، ایک ہی سوچ، ایک ہی ہدف، ایک ہی طریقہ کار، نام بھلے الگ بھی ہو جائے تو فرق نہیں پڑتا، ہم پہلے دن سے یہی کہتے تھے بہت سے لوگ نہیں مانتے تھے اب مان گئے ہیں، اسی طرح ہم آج یہ کہتے ہیں کہ داعش اور طالبان اور دیگر تمام گروہ ایک ہی ہیں ان میں فرق نہیں، اگر کوئی فرق ہے تو وہ نام کا ہے بس داعش عراق و شام میں ذرا زیادہ سفاک واقع ہوئی تھی اور اب افغانستان میں برسر پیکار ہے۔

افغان طالبان کے خلاف بھی انہی کا نام استعمال کیا جاتا ہے، یہ اہل تشیع کو بھی اپنے کئی حملوں کا نشانہ بنا چکے ہیں اور صوفیوں کو بھی، داعش کی سفاکیت اور اس کا سفاکانہ کردار یہاں طالبان کرتے رہے ہیں، ہم تو کم از کم اس سے ناواقف نہیں، کیا کرم ایجنسی میں گلے نہیں کاٹے گئے؟ کیا لوگوں کو زندہ جلایا نہیں گیا؟ کیا  قبائلی علاقوں میں افواج پاکستان کے سپاہیوں کو مار کے ان کی لاشوں کیساتھ فٹ بال نہیں کھیلی گئی؟ کیا یہ سارے سفاکانہ کام کم عمر بچوں سے نہیں کروائے جاتے رہے؟ داعش کے سارے انداز و طریقہ سفاکیت کو اس خطے میں طالبان کے پلیٹ فارم سے دیکھا جا چکا ہے، ہمارے لئے یہ کچھ بھی نیا نہیں تھا، نا تو یہ لوگ نئے تھے اور نا ہی یہ کردار و عمل پہلی بار سامنے آیا تھا۔

(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 1014662
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش