0
Monday 19 Sep 2022 20:36

نکاح ٹوٹنے سے خودکش دھماکوں تک۔۔۔! (حصہ سوم)

نکاح ٹوٹنے سے خودکش دھماکوں تک۔۔۔! (حصہ سوم)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ہم تو اس دن سے صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے جس دن جھنگ سے اٹھنے والے ایک تکفیری ملاں نے پہلی بار تکفیر کی تھی اور جس دن نفرتوں کو کاشت کرنے والوں نے نکاح ٹوٹنے کے فتوے دیئے تھے، ہم نے ان لوگوں کی تمام تر سازشوں اور ان کے ملک کیلئے ممکنہ نقصانات بارے آگاہ کیا تھا، مگر نقار خانے میں طوطی کی طرح ہمارے صدا ۔۔ صدا بہ صحرا ثابت ہوئی، کسی کے کانوں پہ جوں تک نا رینگی اور ملک اندھیرے کے پجاریوں کے رحم و کرم پہ چلا گیا۔ جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں اور سیکیورٹی اداروں و ذمہ داروں کی روش اور پالیسیوں کو دیکھ کے لگتا ہے کہ مستقبل کی نسل بھی اس زہر کا شکار رہے گی۔ مسجدیں نمازیوں کے لہو سے رنگین ہوتی رہیں گی، بے گناہ اپنے گھروں، دکانوں کاروباری مراکز اور راہ چلتے خو ن میں نہلائے جاتے رہیں گے۔ حکومت جس قومی ایکشن پلان پر عمل کرنے کی پابند ہے اس کے مطابق پاکستان میں کالعدم قرار دی گئی تنظیموں اور ان کے سربراہان کو نام بدل کر کام کرنے کی اجازت نہیں ہے مگر کونسی تنظیم ہے جس کو کام کرنے سے روکا گیا ہے؟

کون سا رہنما ہے جسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا ہے؟ کیا آج ملک کے چاروں صوبوں میں کالعدم سپاہ صحابہ و لشکر جھنگوی اہل سنت وا لجماعت کے نام سے کھلے عام کام نہیں کر رہے، ان کی نشرواشاعت ہوتی ہے، ان کے سوشل میڈیا پر تعصبات بھرے اکاؤنٹ چل رہے ہیں، ان کے قائدین ٹی وی شوز میں جا رہے ہیں، ان کو دارالحکومت میں نیشنل ایکشن پلان کی دھجیاں اڑانے کی اجازت ہے، ان کے پروگراموں میں اعلی حکومتی عہدیدار شرکت کرتے ہیں، کیا ہمارے سیکیورٹی ادارے اتنے برس بھگتنے کے بعد بھی اس بات سے آگاہ نہیں کہ کوئی بھی دہشت گرد گروہ چاہے وہ القائدہ ہو یا طالبان، داعش ہو یا النصرہ فرنٹ ہر ایک کو پنیری فراہم کرنے والا یہی گروہ ہے، افرادی قوت کیلئے سب سے بڑا یہی پلیٹ فارم ہے جسے سب ہی استعمال کرتے ہیں، تحریک طالبان کیلئے پاکستان بھر میں معاونت اور افرادی قوت اسی گروہ سے ہوتی ہے، مگر حیرت ہے اس کالعدم گروہ کے سربراہ کو سیکیورٹی اداروں کے ہیلی کاپٹر میں گھمایا جاتا ہے۔

ملک میں افراتفری،سیاسی خلفشار عروج پہ ہے، سیلاب کی تباہ کاریوں نے تین صوبوں میں بدترین صورتحال سے دوچار کیا ہے،جبکہ اس گروہ سے مزاکرات کے نام پہ انہیں مضبوط ہونے کا موقع دیا گیا ہے، اب یہ نئی قوت اور طاقت کیساتھ حملہ آور ہیں اور اپنی پرانی روش پہ عمل پیرا ہیں، سوات میں ایک بار پھر اپنی کئی کاروائیوں سے اپنے وجود کا بھرپور اظہار کیا گیا ہے، مقامی قبائل اور کاروباری لوگ سخت پریشان ہیں، امن کیلئے قربانیاں پیش کرنے والے قبائلی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہیں ایک بار پھر ہجرت تو نہیں کرنا پڑے گی؟ کیا یہ ملک دہشت گردوں کیلئے وجود میں لایا گیا تھا، کیا یہ ملک انسانوں کی لاشوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے والوں کیلئے بنایا گیا تھا؟ کیا یہ ملک اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں مائیں اپنے بچوں کی لاشوں سے لپٹ کر روتی نظر آئیں اور قاتل دندناتے پھریں انہیں پوچھنے والا ہی کوئی نا ہو؟

ان کو ان کے کئے کی سزا دینے میں کسی کو دلچسپی ہی نہ ہو، ،کیا یہ ملک اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں ایک ووٹ کیلئے قاتلوں، دہشت گردوں کو اذن رہائی دیاجا ئے،کیا اسی کو انصاف کہتے ہیں کہ ہمارے قاتلوں کو جیلوں میں مزے کی زندگی گذارنے کیلئے کھلا چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ جیلوں میں بیٹھ کر اپنے نیٹ ورک چلاتے رہیں۔ جس معاشرہ اور ریاست میں سزا و جزا کا تصور ہی ختم ہو جائے اس معاشرہ اور سوسائٹی یا ریاست کو جنگل کہنا چاہیئے، جنگل میں کسی کو تحفظ نہیں ہوتا نا ہی کسی کی عزت و توقیر ہوتی ہے، نہ کوئی قانون ہوتا ہے یہاں کا اپنا قانون ہوتا ہے یہاں کوئی بڑا اور کوئی چھوٹا نہیں ہوتا۔ بس طاقت اور قوت ہی قانون ہوتا ہے جو جتنا طاقت ور ہوتا ہے اس کا قانون چلتا ہے ،اس کا حکم چلتا ہے ۔ جنگل میں درندے ہوتے ہیں جوکبھی بکھرے ہوئے بڑے بڑے اور کبھی ننھے اور کمزور جانوروں کو چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔

ہماری ملت تو نکاح ٹوٹنے سے لیکر خودکش حملوں تک بھگت چکی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ سب انہیں عزاداری امام حسینؑ اور امیر المومنین علی ابن علی طالب ؑ کی سیرت پہ چلنے سے روک نہیں سکتے، ہمارے نکاح بہت مضبوط ہوتے ہیں اس لئے نہیں ٹوٹتے، جن کے نکاح ٹوٹتے تھے نہ جانے ٹی وی چینلز آنے کے بعد انہیں کیا کچھ دیکھنا پڑتا ہوگا اور دن میں کتنی بار انکے نکاح ٹوٹتے ہونگے، ہمارا ماضی اس کا گواہ ہے، ہماری قربانیاں اس کی شاہد ہیں، ہماری مسجدوں کی صفیں اس کی گواہی دے رہیں ہیں، ہمارے جلوسوں کے روٹ اس کا بین ثبوت ہیں، ہمیں راستہ سے نہیں ہٹایا جا سکتا، ہمیں جھکایا نہیں جا سکتا، سازشیں جس بھی طرف سے ہوں ان کا قلع قمع ہوگا اور ناکامی ان کا مقدر بنے گی کہ ہم نے قربایاں دینا کربلا سے سیکھا ہے، اس ملک کی فکر کریں جس پہ آفات کا نزول ہوتا ہے۔ ہم تو نکاح ٹوٹنے کے فتووں سے لیکر خودکش حملوں تک ایک ہی موقف رکھتے ہیں کہ اپنا عقیدہ چھوڑوں نہیں دوسروں کا عقیدہ چھیڑو نہیں۔
خبر کا کوڈ : 1014663
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش