0
Thursday 29 Sep 2022 00:42

ایم کیو ایم کیلئے کامران ٹیسوری پہلے نامنظور اور اب قابل قبول کیسے؟

ایم کیو ایم کیلئے کامران ٹیسوری پہلے نامنظور اور اب قابل قبول کیسے؟
رپورٹ: ایس ایم عابدی

کامران ٹیسوری کا نام اب ایم کیو ایم کیلئے نیا نہیں رہا، ایک وقت تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار، کامران ٹیسوری کو سینیٹر بنانا چاہتے تھے مگر ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی نے ان کی شدید مخالفت کی، یہ مخالفت اور اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ رابطہ کمیٹی نے پہلے ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینر شپ سے ہٹایا اور پھر پارٹی سے بھی نکال دیا۔ یاد رہے کہ کامران ٹیسوری کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی، ایک ایم کیو ایم پی آئی بی تھی اور دوسری ایم کیو ایم بہادرآباد۔ اس تقسیم کی وجہ سے ایم کیو ایم کو 2018ء کے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ایم کیو ایم اور ڈاکٹر فاروق ستار کے درمیان اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ ڈاکٹر صاحب کو بحالت مجبوری ہی سہی ڈاکٹر عامر لیاقت کی خالی ہونیوالی سیٹ این اے 245 پر ایم کیو ایم کے مدمقابل آنا ہی پڑا۔ اس شہر نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار جو کبھی ایم کیو ایم کے سربراہ تھے وہ ایم کیو ایم کے ہی امیدوار معید فاروقی کے مدمقابل تھے۔ اس سیٹ سے تحریک انصاف کے امیدار محمود مولوی 29 ہزار 475 ووٹ لے کر کامیابی ہوئے، جو سیاسی طور پر غیر معروف شخصت تھے جبکہ ایم کیو ایم اپنی پوری تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ الیکشن لڑرہی تھی، تو دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار تمام امیداروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مقبول سیاسی شخصیت تھے مگر دونوں کو ہی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ایم کیو ایم جن سیٹوں پر ایک لاکھ اور 80 ہزار ووٹ حاصل کرتی تھی وہاں سے ایم کیو ایم کے معید انور نے 13 ہزار 193 ووٹ لئے، آزاد امیدوار کی حیثیت سے فاروق ستار نے 3479 اور مہاجر قومی موومنٹ کے محمد شاہد کو 1177 ووٹ ملے، ایم کیو ایم کے چاروں دھڑے بمشکل 18 ہزار ووٹ ہی حاصل کرسکے۔ کامران ٹیسوری کو بنیاد بناکر نومبر 2018ء میں ڈاکٹر فاروق ستار کو پارٹی سے نکال دیا تھا اور کارکنوں کو ہدایت کردی گئی کہ وہ فاروق ستار سے کسی قسم کا میل جول نہ رکھیں، اب اُس ہی رابطہ کمیٹی نے کامران ٹیسوری کو سینے سے لگالیا ہے بلکہ انہیں سابقہ عہدے پر بحال کردیا ہے۔

یہاں یہ سوال تو اُٹھتا ہے کہ کامران ٹیسوری پہلے نامنظور کیوں تھے اور اب کیسے قابل قبول ہوگئے؟۔ کامران ٹیسوری کی حمایت کرنے کے جرم میں فاروق ستار کو پارٹی سے بے دخل کیا گیا تھا، کیا اب ڈاکٹر فاروق ستار کو دوبارہ اُس ہی عہدے پر بحال کردیا جائے گا؟۔ اب ایم کیو ایم اور ڈاکٹر فاروق ستار کے اختلاف بہت زیادہ بڑھ گئے تو ڈاکٹر فاروق ستار کو یہ کہنا پڑا تھا کہ موجودہ پارٹی نہ تو ایم کیو ایم ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم پاکستان، بلکہ اب یہ پارٹی چوں چوں کا مربہ ہے، پارٹی کے اندر اختلافات ہیں بلکہ اب ایم کیو ایم نشان عبرت بن گئی ہے۔ اس بات میں اب کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم اپنا تشخص کھو رہی ہے، کمزور تنظیمی ڈھانچے اور مسلسل اختلافات کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اہم 7 نشستوں کے باوجود ایم کیو ایم کو کسی بھی سطح پر سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، طویل عرصے سے پارٹی سے وابستہ کارکنوں کی خدمات کو فراموش کرکے سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور وڈیروں کو پارٹی میں اعلیٰ مقام اور مرتبے دیئے جارہے ہیں۔ اسی لئے کارکنوں اور ہمدردوں کی بڑی اکژیت خود کو ایم کیو ایم سے الگ کرچکی ہے، اگرچہ کچھ پرانے ذمہ دار اب بھی ایم کیو ایم سے وابستہ ہیں تاہم انہیں نہ تو فیصلہ سازی میں شامل کیا جاتا ہے اور نہ ان کی اب پارٹی میں پہلے جیسی اہمیت اور عزت ہے۔

ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے فیصلوں پر ناراضگی کا اظہار دبے الفاظوں میں ہوتا رہتا تھا مگر کامران ٹیسوری کی بحالی اور کچھ پرانے ذمہ داروں کی واپسی پر رکن رابطہ کمیٹی کشور زہرہ نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چند لوگوں کی خواہش کو تمام ارکان کے سروں پر تھوپا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی عہدیداروں نے کامران ٹیسوری کی واپسی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پارٹی کے فیصلے چار لوگوں نے کرنے ہے تو ہم گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کئی سینئر ذمہ دار پارٹی فیصلوں سے مطمئن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک متنازعہ شخص کو واپس لیا گیا اور اہم عہدہ بھی دے دیا گیا۔

ناراض گروپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر پارٹی قیادت نے اپنے فیصلے پر نظرثانی نہ کی تو ہم فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ اراکین رابطہ کمیٹی اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کا کہنا ہے کہ مشکل حالت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے لیکن پارٹی میں فرمائشی پروگرام نہیں چلے گا۔ ایم کیو ایم میں اختلافات کی خبریں تو زباں زد عام تھیں لیکن اس فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ کامران ٹیسوری پہلے بھی پارٹی کی تقسیم اور انتشار کی وجہ بنے تھے اور اب ایک بار پھر ان کی شمولیت کی وجہ سے اندرونی اختلافات مزید بڑھ گئے ہیں۔

اگر فل کورم رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کامران ٹیسوی کے بارے میں ڈپٹی کنوینر کا عہدہ واپس لینے کا فیصلہ ہوتا ہے تو پھر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی واپسی کا سفر شروع ہوجائے گا، جس طرح ڈاکٹر فاروق ستار کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکالا گیا تھا، ممکن ہے کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے خلاف بھی رابطہ کمیٹی کی اکثریت عدم اعتماد کا اظہار کردے۔ ایک وقت تھا جب ایم کیو ایم میں عہدے اور ذمہ داری دینے کا پیمانہ اس کی وفاداری کے ساتھ تنظیم سے وابستگی ہوتی تھی، کارکنوں کے بعد اگر کسی کو عہدہ دیا جاتا تھا تو اس میں سرفہرست شہداء کی فیملی کو اولیت ہوتی تھی۔

کارکن یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ صادق افتخار کو کس کوٹے پر وزیراعظم شہباز شریف کا اسپیشل اسسٹنٹ بنایا ہے جب کہ ان کا عہدہ وزیر مملکت کے برابر ہے، اس تعیناتی پر پوری ایم کیو ایم خاموش ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کو نظر انداز کرکے کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم میں شمولیت کا فیصلہ ہو، یا ایم کیو ایم کے سینئر ساتھیوں کی خدمات کو فراموش کرکے صادق افتخار کو وزیراعظم کا معاون خصوصی بنانے کا فیصلہ، یہ فیصلے کہاں سے ہورہے ہیں اور کیوں ہورہے؟، اس کی ایک تازہ مثال ڈاکٹر فاروق ستار کا میڈیا پر برملا اظہار ہے، جب ان سے پوچھا گیا کہ ایم کیو ایم میں آپ کی واپسی میں رکاوٹ کیوں آئی اور کس نے مخالفت کی، ڈاکٹر صاحب نے کندھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘بزرگوں’’ نے منع کیا ہے۔

اس سے قبل کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی بھی اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ہمارے پاس ‘‘فون’’ آیا کرتے تھے۔ اندرونی سازشوں، اختلافات اور ایک دوسرے کو گرانے اور مٹانے کی کوششوں نے ایم کیو ایم کو اس قدر کمزر اور بے بس کردیا ہے کہ رابطہ کمیٹی فیصلہ سازی کا اختیار ہی کھوچکی ہے۔ کارکنان یہ سوال پوچھنے کا بھی حق رکھتے ہیں کہ رابطہ کمیٹی کے ‘‘کچھ بڑے’’، کامران ٹیسوری پر تو سوال اُٹھا رہے ہیں لیکن اس کا جواب کون دے گا کہ کیا رؤف صدیقی کے مقابلے خواجہ اظہار زیادہ سینئر ہیں؟، کیا ان کی خدمات زیادہ ہیں؟، کس پیمانے پر رؤف صدیقی کے مقابلے خواجہ اظہار کو ڈپٹی کنوینر بنایا گیا؟۔ جو چیزیں کئی سالوں سے کارپٹ کے نیچے دبی ہوئی تھی اب وہ باہر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ کارکنوں نے سوال کرنا شروع کردیئے ہیں اور وہ اپنے غم و غصے کا بھی اظہار کررہے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے، ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کی شکست کے بعد اس کی پوزیشن مزید خراب ہوئی ہے، مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے عوام بھی شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں، ایم کیو ایم کے کارکنوں کے غم و غصے اور شدید ناراضگی کا اندازہ ان دو واقعات سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ایم کیو ایم کی موجودہ صورتحال میں بلدیاتی انتخابات کے دوران اگر ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے امیدواروں کو ایم کیو ایم کے سامنے کھڑا کیا ہوا ہے اس سے ایم کیو ایم کا ووٹ بھی تقسیم ہوگا اور طاقت بھی تقسیم ہوگی۔ لگ یہ رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے عوام ماضی کی وابستگی سے بالاتر ہوکر فیصلے کریں گے اور نتائج توقعات سے بہت مختلف آئیں گے۔
خبر کا کوڈ : 1015019
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش