QR CodeQR Code

دروازہ کربلا پر (سفرنامہ)

24 Sep 2022 15:01

اسلام ٹائمز: اربعین حسینی کے ایام میں "دروازہ کربلا" کے قریب امام عالی مقام سے نسبت رکھنے والا یہ اجتماع گویا درِ جنت کو اپنے سامنے کھلا دیکھ رہا تھا۔ اس تقریب کے دوران جب ایرانی عزاداروں کا ایک منظم گروہ اپنے مخصوص انداز میں عزاداری کرتے ہوئے اسٹیج کے سامنے سے گزرا تو بے اختیار اشک آنکھوں میں اور ہاتھ سینوں پر آگئے۔


تحریر: سید تنویر حیدر
 
ہیلو، ہیلو، ایزنی فرھنگی جمہوری اسلامی ایران، اسلام آباد سے رمضان موسوی کا فون تھا۔ علیک سلیک کے بعد کہنے لگے کہ آپ کیلئے ایک خوشخبری ہے۔ میں نے کہا کہ بتایئے دیر نہ کیجیے۔ اردو، فارسی اور بلتی لہجے کو باہم ملا کر جو لہجہ تخلیق ہوتا ہے اس میں روانی سے بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ کو مبارک ہو، کہ ایران میں منعقد ہونیوالی "پیر غلامانِ حسینی" کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کیلئے آپ کو دعوت دی گئی ہے۔ اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے دعوت کا سن کر فوری طور پر قم اور مشہد مقدس کی سرزمین کی خاک کی ضو فشانی نے میرے چشم و دل کو اُجال دیا اور اس لمحے مجھ پر جو کیفیت طاری ہوئی، اس کو جب شعری جامہ ملا تو نوک زباں تک یہ شعر آیا۔

مشہد و قم سے اچانک جو بلاوا آیا
میں بھی دل تھام کے بولا کہ میں آیا، آیا
ایران میں ہر سال "پیر غلامان حسینی" کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں دنیا بھر سے ایسے شعراء اور مدح خواں حضرات شرکت کرتے ہیں، جنہوں نے شعر و سخن کے میدان میں امام عالی مقام(ع) کے حوالے سے کوئی اہم کام سر انجام دیا ہوتا ہے۔ مجھے اس حوالے سے یہ سعادت حاصل ہوئی ہے کہ میں نے حال ہی میں سیدالشہداء  کے خطبات اور ان کے اقوال کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ اس سے قبل میں امیرالمومنین(ع) کے نام کے اعداد کی نسبت سے ان کے ایک سو دس کلمات قصاریا اقوال کا منظوم ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کر چکا ہوں۔ "پیر غلامان حسینی" کانفرس ماہ محرم میں ہر سال ایران کے مختلف بڑے شہروں میں انعقاد پذیر ہوتی ہے۔ اس سال یہ اعزاز ایران کےصوبے کرمان شاہ کے شہر "کرمان شاہ" کے حصے میں آیا۔
 
ایران کی جانب سفر کیلئے ابتدائی طور پر  بتایا گیا کہ مجھے اسلام آباد سے براہ راست تہران بذریعہ ہوائی جہاز جانا ہے، لیکن بوجوہ، اس شیڈول میں تبدیلی کی گئی۔ مجھے دو روز قبل ہی لاہور سے تہران جانے کا پروانہ ملا جو میرے لیے ایک نیک شگون تھا۔ اور پھر وہ دن آ ہی گیا جب ہمارا طیارہ ہوا کے دوش پر تہران کی فضاٶں کی پیمائی کر رہا تھا۔ ادھر ہمارا طیارہ تہران کے ایئر پورٹ پر لینڈ کر رہا تھا اور ادھر میرے ذہن کی سطح پر شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کا یہ شعر اُتر رہا تھا کہ
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شائد کرہِ ارض کی تقدیر بدل جائے
اقبالؒ کا یہ الہامی شعر آج سے تقریباً سو سال قبل منصہِ شہود پر آیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر پر تاج برطانیہ کا راج تھا۔ اقبال اس پُرآشوب دور میں عالم اسلام کی نشاةِ ثانیہ کا خواب دیکھتے تھے۔ ایسے میں اقبال کی تمام تر امیدوں کا مرکز نوجوان اور بالخصوص ایرانی نوجوان تھے۔ حالانکہ ایران بھی اس وقت شہنشاہیت کے چنگل میں تھا۔ اقبال کا دیرینہ خواب یہ تھا کہ ایک روز آئیگا جب ایرانی قوم سے ایک ایسا مردِمومن اُٹھے گا جو اس قوم کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ پھینکے گا۔ اقبالؒ جن کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے اور جنہیں ایرانی اقبال لاہوری کہتے ہیں، اپنے اشعار میں ایرانی نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس سارے منظر نامے کی تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں۔
چون چراغ  لالہ  سوزم  در خیابان شما
ای جوانانِ عجم جان من  و  جان  شما
می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند
دیدہ  ام  از  روزن   دیوار   زندان  شما
(ترجمہ: اے جوانان عجم! مجھے اپنی اور تمہاری جان کی قسم ہے کہ میں تمہارے راستے میں  لالے کے چراغ کی طرح جل رہا ہوں۔ وہ مرد آنیوالا ہے جو تمہاری غلامی کی زنجیریں توڑ کر تمہیں آزادی دلائے گا۔ میں نے اس شخص کو تمہارے زندان کی دیوار کے روشن دان سے دیکھ لیا ہے۔) اور آخر کار اقبالؒ کے دیکھے ہوئے اس خواب نے اپنی تعبیر پالی اور اہل ایران نے ایک بت شکن کی قیادت میں اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے بت کو ریزہ ریزہ کر دیا، جس کے نتیجے میں آج اسلامی جمہوری ایران نہ صرف عالم مشرق بلکہ پوری دنیا کی مظلوم اقوام کی امیدوں کا مرکز ہے اور تہران میں ہونیوالے فیصلے اپنے اندر کرہ ارض کی تقدیر بدلنے کا پیغام لیے ہوئے ہیں۔
 
میں اقبال کے خوابوں کی اُسی حسین وادی میں اُتر رہا تھا۔ میرا میزبان میرے نام کا پلے کارڈ اٹھائے ہوئے، جس پر خیر مقدمی کلمات لکھے ہوئے تھے، میرا پہلے سے منتظر تھا۔ یہ میرے لیے یقیناً ایک مسرت کی گھڑی تھی، لیکن اس گھڑی میں تبدیلی آ گئی تھی۔ ایران کا معیاری وقت پاکستانی وقت سے نصف گھنٹہ پیچھے ہے۔ میں ایرانی وقت کے مطابق تقریباً پانچ بجے تہران ائر پورٹ سے باہر نکلا۔ میرا اندازہ تھا کہ مجھے اس وقت تہران کے کسی ہوٹل میں لے جایا جائے گا، لیکن میزبان نے مجھے بتایا کہ آپ کو اس وقت۔ "قم" لے جایا جا رہا ہے۔ "قم" کا نام سن کر دل کا موسم تبدیل ہو گیا، عقیدت کی ہوائیں چلنے لگیں۔ خوش بختی نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ مجھے اس لمحے امام جعفر صادق(ع) کی بیان کی ہوئی یہ حدیث یاد آ گئی کہ "جب بھی تمہیں کوئی مصیبت یا سختی پیش آئے تو تم پر لازم ہے کہ قم کا رخ کرو، کیونکہ قم فاطمیوں کیلئے پناہ گاہ اور مٶمنین کیلئے راحت و آرام کی جگہ ہے" (بحارالانوار، ج: 57، ص: 215)۔
 
میرے لیے یہ غیر متوقع امر تھا کہ میرے اس سفر کے باقاعدہ مرحلے کا آغاز سیدہ معصومہ قم کے حرم کی زیارت سے ہوگا۔ قم پہنچنے پر قم کا معروف ہوٹل "سرائے جامِ جم" میری قیام گاہ ٹھہرا۔ یہ "حرم معصومہ قم" سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہمارے میزبان آقای نجفی، جو اس سفر میں آخر تک ہمارے ساتھ رہے، ہمارے درمیان تھے۔ نجفی انتہائی نفیس، خوش اخلاق اور دل موہ لینے والی شخصیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے اس تمام سفر میں جس طرح اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا اور ہر قدم پر ہمارا خیال رکھا، وہ تا دیر ہمیں یاد رہے گا، بلکہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ جام جم کی نہایت پُرسکون آرام گاہ میں کچھ دیر کیلئے آرام کیا اور پھر تازہ دم ہوکر اور شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کر حرم معصومہ قم کی طرف رخ کیا۔
وہ جس کی نور افشانی مکاں سے لا مکاں تک ہے
حرم  وہ  بقعہ ٕ  انوار ہے  معصومہ ٕ  قم کا
جہاں میں  آج  شہر  قم  ہدایت  کا جو  مرکز  ہے
تو  اس  میں  مرکزی  کردار  ہے معصومہ ٕ  قم  کا
 سیدہ فاطمہ معصومہ قم امام ہشتم امام رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ ہیں، جو اپنے بھائی کی محبت میں سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھائی سے ملاقات کیلئے ارض طوس(ایران) کی جانب عازم سفر ہوئیں، لیکن اپنی منزل تک پہنچنے سے قبل ہی علیل ہو گئیں اور دل میں بھائی کا داغ مفارقت لیے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ حرم معصومہ پہنچ کر اپنے آنسوٶں کو ضریح مقدس کی جالی سے مس کیا اور خداوند مسبب الاسباب کا شکر ادا کیا، کہ اس نے مجھ جیسے ناچیز کو یہ موقع فراہم کیا۔  "قم" محض ایک مقدس مقام ہی نہیں بلکہ آج کے دور میں تمام دنیائے انسانیت کیلئے جائے امن و قرار بھی  ہے۔ معصومین سے کئی روایات مروی ہیں، جن کے مطابق آخری زمانے میں ہدایت کا مرکز قم ہوگا۔
 
میں یہاں امام جعفر صادق (ع) کی قم کے حوالے سے چند مزید روایات بیان کرنا چاہوں گا جو امام سے مختلف مواقع پر نقل کی گئیں اور جن سے قم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ آخری زمانے میں علم شہر قم سے ظاہر ہوگا۔ یہ شہر علم و دانش اور فضل و کمال کا مرکز ہو گا۔ اس شہر کے باشندے دنیا پر حجت ہوں گے۔ قم کو اس لیے "قم" کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کے رہنے والے "قائم آل محمد" کیساتھ قیام کریں گے۔ فرشتے بلاٶں کو قم اور اہل قم سے دور رکھتے ہیں۔ جو کوئی ستم گر قم کی طرف میلی نظر سے دیکھے گا، خدا اسے کسی درد و غم یا دشمن سے دوچار کر دے گا، اس کی کمر توڑ دے گا یا اسے نمک کی طرح پانی میں گُھلا دے گا۔ یہ سب امام مہدی(عج) کے ظہور کے نزدیک ہوگا۔ قم میں، مَیں کانفرنس کے دیگر مہمانوں سے دو روز قبل پہنچ گیا تھا، جس کی وجہ سے مجھے حرم میں ایک سے زیادہ بار جانے کا شرف حاصل ہوا۔
 
قم میں قیام کے دوران مجھے ایران کے ایک سینئر شاعر کے دولت کدے پر جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ استاد سید علی اصغر موسوی "سعا" ایران کے ایک بزرگ شاعر ہیں۔ میری ان سےشناسائی ان کی فیس بک کی وساطت سے ہوئی۔ بعد میں یہ رابطہ فون کے ذریعے مزید گہرا ہوا۔ فارسی شاعری کو سمجھنے میں مجھے ان سے بھی کافی رہنمائی ملی۔ فارسی شاعری اور نثر میں ان کی کئی کتب ہیں۔ حکومت ایران انہیں کئی اعزازات سے نواز چکی ہے۔ انگلش بھی اچھی بول لیتے ہیں۔ اگرچہ ایران میں انگلش کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ وہ اپنی فارسی زبان کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ سید علی اصغر موسوی کو جب میرے ایران آنے کی خبر ملی تو انہوں نے فی الفور مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے اپنے گھر کھانے کی دعوت دے ڈالی۔
 
ان کی بھیجی ہوئی ماشین (کار) کے ذریعے میں ان کے گھر پہنچا جہاں انہوں نے اور ان کی زوجہ محترمہ نے میری خوب پذیرائی کی۔ مہمان نوازی ایرانی روایات کا اہم حصہ ہے۔ گھر سے رخصت ہوتے وقت انہوں نے مجھے تحفے کے طور اپنی اور فارسی کے کئی اہم شعرا ٕ کی کتابیں بھی دیں۔ کچھ روز "جام جم" میں قیام کے بعد ہم نے کرمان شاہ جانے کیلئے اپنا رخت سفر باندھ لیا، جہاں "پیر غلامان حسینی کانفرنس" کا افتتاحی اجلاس ہونا تھا۔ قم سے ہم سیدھے تہران کے مہر آباد ہوائی اڈے پر اور پھر یہاں سے 525 کلو میٹر دور کرمان شاہ کیلئے محو پرواز ہوئے۔ کرمان شاہ ایران کے استان(صوبہ) کرمان شاہ کا دارالحکومت ہے۔ اس کی ایک تاریخی اور ثقافتی اہمیت ہے۔ مشہور صوفی بزرگ شاہ نعمت اللہ ولی، جن کی پیشین گوئیاں عالمی شہرت کی حامل ہیں، اسی صوبے میں ۔"ماہان" کے مقام پر ابدی نیند سو رہے ہیں، عالمی واقعات کے حوالے سے ان کی کی گئی پیشین گوئیاں آج تک موضوع بحث ہیں۔
 
شیریں فرہاد کا قصہ بھی اسی علاقے سے منسوب کیا جاتا ہے۔ کرمان شاہ کے ایئر پورٹ پر ہمارے میزبانوں نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ اس کے بعد مکمل پروٹوکول کیساتھ ہم ایک ہوٹل میں پہنچے، جہاں کچھ دیر استراحت کے بعد کرمان شاہ شہر کے شمال مشرق میں 30 کلومیٹر دور واقع تاریخی شہر "بیستون" کی ایک تاریخی کاروان سرائے شاہ عباسی پہنچے جہاں کانفرنس کا افتتاحی اجلاس ہونا تھا۔ یہ مقام کرمان شاہ کے قابل دید مقامات میں سے اہم مقام ہے۔ اس کے پہاڑ افسانوی رنگ لیے ہوئے ہیں۔ فرہاد کا تراشہ ہوا پہاڑ اس کے مقابل کھڑا عزم و ہمت کی ایک ایسی لازوال داستان سنا رہا ہے جس کا حوالہ اقبالؒ نے بھی اپنے ایک شعر میں یوں دیا ہے کہ
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر  و  تیشہ  و سنگ  گراں  ہے  زندگی
اردو اور فارسی ادب میں کوہ کن کا استعارہ بکثرت استعمال ہوتا ہے جو فرہاد کیلئے خاص ہے۔ وہ فرہاد جس نے کرمان شاہ کے ہی ایک پہاڑ کو کاٹ کر اس میں سے شیریں کیلئے نہر نکالی تھی اور بالآخر اپنے عشق کی ناکامی پر خودکشی کر لی تھی۔ غالب اپنے ایک شعر میں اسی قصے کا ذکر تلمیع کے انداز میں اس طرح کرتے ہیں کہ
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد
سرگشتہ ٕ خمار رسوم و قیود تھا
قصہ کہانیوں سے ہٹ کر اس خطے کی اصل اہمیت یہ ہے کہ قدیم ادوار  سے یہ علاقہ کربلا جانیوالے زائرین اور تاجروں کی گزرگاہ رہا ہے۔ عراق کی سرحد سے قریب اس مقام کو "کربلا کا دروازہ" کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں مسافروں کے قیام کیلئے 67 کارواں سرائیں تعمیر کی گئی تھیں۔ "سرائے وکیل الدولہ" یہاں کی ایک پر شکوہ عمارت ہے، جسے حاجی محمد حسن وکیل الدولہ نے 170 سال قبل تعمیر کروایا تھا۔ وکیل الدولہ تاجر پیشہ تھا۔ اُسے امام حسین علیہ السلام کے زائرین سے خاص عقیدت تھی۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہاں کی کاروان سرائیں سید الشہداء کی عزاداری کے مراکز میں تبدیل ہو گئیں۔ عزادری کا یہ سلسلہ تقریباً دو سو سال سے جاری و ساری ہے۔ کرمان شاہ صوبے کے لوگ اربعین حسینی کے زائرین کی خدمت کو اپنا افتخار سمجھتے ہیں۔
 
یہاں کے بہت سے عمر رسیدہ افراد ایسے ہیں جن کے بال زائرین کی خدمت کرتے کرتے سفید ہو چکے ہیں۔ خسروی سرحد کے دوبارہ کھلنے سے کرمان شاہ کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بقول اس خطے کے عوام اپنی شجاعت، بہادری، وفاداری اور مہمان نوازی کے حوالے سے اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی کے تو ہم بھی شاہد ہیں۔ کرمان شاہ کے تمام تاریخی و ثقافتی قابل دید مقامات کو دیکھنے کیلئے ایک عرصہ چاہیے۔ انہیں اپنی چشم سر سے دیکھنا تو ایک طرف، انہیں نوک قلم تک لانے کیلئے بھی دفتر چاہییں۔ ہم اپنے ساتھ جو وقت لے کر آئے تھے اس کے دامن میں اتنی گنجائش ہی کہاں تھی کہ ہم ان سب کا نظارہ کر سکتے۔
 
پاکستان اور ایران کے حکام بالا کو چاہیئے کہ وہ دونوں ملکوں کے عوام کے مابین مذہبی اور ثقافتی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے کیلئے مزید اقدامات اٹھائیں اور دونوں ممالک کی علمی، ادبی اور ثقافتی شخصیات کو یہ موقع فراہم کریں کہ وہ دونوں ممالک کے زیادہ سے زیادہ دورے کریں اور ایک دوسرے کی تہذیب وثقافت کو اور قریب سے دیکھیں۔ کرمان شاہ کے عوام اس بات پر پھُولے نہیں سماتے تھے کہ انہیں اس سال "پیر غلامان حسینی" کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ایران میں ہر سال "پیر غلامان حسینی" کے عنوان سے منعقد ہونیوالے اس تاریخی اجلاس میں پوری دنیا سے امام عالی مقام کے حوالے سے علم و ادب کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے والے پچاس سال سے زائد عمر کے افراد کو دعوت دی جاتی ہے اور انہیں مختلف اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔
 
اس سال یہ اجلاس 25 سے 27 محرم الحرام تک انعقاد پذیر رہا۔ اس بین الاقوامی کانفرنس کے انیسویں اجلاس میں اس سال دنیا بھر کے 15 غیر ملکی مبلغین اور پیر غلامان حسینی کے علاوہ 200 ملکی مہمان اور 25 غیر ملکی طلبہ بھی مدعو تھے۔ پاکستان سے اس سال مجھے اپنے ملک کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کانفرنس کا شعار "کرمان شاہ دروازہء کربلا" رکھا گیا تھا۔ 23 اگست کو اس پر شکوہ افتتاحی تقریب کے بعد اگلے روز صبح، صبحانہ یا ناشتے کے بعد ہمیں ان ملکوتی روحوں کے اہلخانہ سے ملوانے کیلئے لے جایا گیا، جنہوں نے اپنی ملک کی سرحدوں اور مقدس مزارات کے دفاع کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔
 
ہمیں ان گھروں میں شہداء کے ایسے والدین اور ان کے قریبی عزیز و اقارب سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی جن سے مل کر کربلا کے ان شہیدوں اور کاروان حسینی کے بچے کھچے ان افراد کی یاد آ گئی جنہوں نے دنیائے صبر و استقامت میں ایسی مثالیں قائم کیں جن کو سامنے رکھ کر کرمان شاہ کے شہیدوں کے یہ وارث لوگوں سے اپنے شہداء کی تعزیت سے زیادہ ان کی مبارکباد وصول کرتے ہیں۔ ان شہداء میں اہلسنت برادران کی بھی خاصی تعداد تھی۔ عالمی استکبار نے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے مسلم امہ کو تقسیم در تقسیم کرنے کی سازش کی ہے، لیکن میں نے نئے ایران میں جو کچھ دیکھا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دشمنوں کی یہ سازش بنیادی طور پر کامیاب نہیں ہو سکی۔
 
ہمیں ایوارڈ دینے والی شخصیات میں کرمان شاہ کی مسجد کے امام جمعہ ملا قادر قادری بھی شامل تھے، جو اہلسنت ہیں۔ ایران کی اسلامی حکومت نے شروع دن سے ہی یہ اصول طے کر رکھا ہے، کہ جس مسجد میں نمازیوں کی اکثریت شیعہ ہو گی وہاں کا امام جماعت شیعہ مسلک کا ہوگا اور جس مسجد میں نمازیوں کی اکثریت اہلسنت کی ہو گی ان کی امامت کے فرائض سنی مسلک کا عالم دین انجام دےگا۔ البتہ ایک خدا، ایک دین، ایک قران اور ایک نبی کی طرح مسجد بھی ایک ہی ہوگی۔ شہداء کے خانوادوں سے ملاقات کے بعد ہم اپنی قیام گاہ لوٹ آئے اور کانفرنس کے دوسرے سیشن کیلئے کمر بستہ ہو گئے۔ اس اجلاس کیلئے جس عمارت کا انتخاب کیا گیا اس کا نام "تکیہ معاون الملک" ہے۔ یہ بھی ایک تاریخی نوعیت کی خوبصورت عمارت ہے۔
 
یہ قاچاریہ دور کی ایک انمول نشانی ہے۔ اس عمارت میں کاشی کاری کے نایاب نمونے ہیں، جن میں قیمتی کاشی کا استعمال کیا گیا ہے۔ چوبیس اگست کو ہونیوالے اس اجلاس میں اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی گئی۔ اس اجلاس میں دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے شعرا ٕ ادیبوں اور سرکاری حکام سے باہمی ارتباط کا موقع ملا۔ یقیناً یہ اجلاس مختلف تہذیبوں کا گلدستہ تھا۔ گفتن اور نشستن سے بھرپور دو اجلاسوں کے مکمل ہونے کے بعد ہمارے میزبانوں نے ہمارا ذائقہ بدلنے کیلئے ہمارے لیے ہوا خوردن کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ چنانچہ ہمیں کرمان شاہ کے ایک تاریخی اور پُرفضا مقام "طاق بوستان"  کی سیر کیلئے لے جایا گیا۔ "طاق بوستان" کرمان شہر کے شمال مغرب میں فطرت کے حسن سے مالامال ایک قدیم تاریخی مقام ہے، جو سیاحوں کیلئے انتہائی پُرکشش علاقہ ہے۔
 
"طاق بوستان" پتھروں پر بنے قدیم نقش و نگار، تصویروں اور تحریروں کا ایسا مجموعہ ہے، جس کا تعلق ساسانی دور سے ہے۔ ہنر مندوں نے پتھروں پر مختلف بادشاہوں مثلا خسرو پرویز کی تاج پوشی اور اس طرح کے اہم واقعات کی کمال ہنر مندی سے تصویر کشی کی ہے۔ دامن کوہ میں واقع یہ علاقہ اردگرد پھیلے ہوئے سبزے اور بہتے چشموں کی وجہ سے ایک رومانوی ماحول پیش کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ طاق بوستان کی سیر کے بعد ہم کرمان شاہ کی بلدیہ،جسے فارسی میں "شہرداری" کہا جاتا ہے، کے مہمان تھے۔ ہم جب شہرداری کی وسیع و عریض عمارت اور اس سے متصل سبزہ زار پہنچے تو وہاں کرمان شاہ کے میئر ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ایک بڑے سے خوبصورت ہال میں ہماری خاطر مدارت کیلئے خاطر خواہ بندوبست کیا گیا تھا۔ کئی دنوں تک ایرانی کھانے کھانے کے بعد ہماری ان کھانوں کیساتھ کافی حد تک آشنائی پیدا ہو چکی تھی۔ لہذا ہم بلاتکلف کھانے کی اس دعوت سے لطف اندوز ہوئے۔ اب ہمارے سامنے اس تین روزہ کانفرنس کا آخری اور اختتامی اجلاس تھا۔
 
"پیر غلامان و خادمان حسینی" کانفرنس کا انیسواں اجلاس اپنے طے شدہ برنامے کے مطابق اپنی پوری آب وتاب کیساتھ کرمان شاہ کی ایک تاریخی مسجد "مسجد عمادالدولہ" میں شروع ہوا۔ دنیا بھر کے چنیدہ شعرا ٕ، مرثیہ گو، مدحت سرا اور نوحہ خوان آج ایک ہی مقام پر نواسہ رسول سے اپنی عقیدتوں کا اظہار کرنے کیلئے جمع ہوئے تھے۔ یہ خود سے نہیں آئے تھے بلکہ افتخار عارف کے بقول "کہیں سے اذن ہوا ہے تو حاضری ہوئی ہے"۔  محمد و آل محمد کی مدحت سرائی کا شرف جسے حاصل ہو اسے پھر اور کیا چاہیئے؟ معصومین علیھم السلام سے منسوب ایسی کئی روایات ہیں جن میں محمد و آل محمد کی مدحت بیان کرنیوالوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے (قبولیت شرط ہے)۔ امام صادق علیہ السلام کی ایک ایسی ہی روایت سے استنباط کرتے ہوئے چار مصرعے
نبیؐ  کی  آلؑ  کی  مدحت سرائی  وہ جو  کرتا ہے
خدا  کی  بارگاہ   سے  اس  کا   وہ  انعام   پاتا ہے
کوئی جو  شان اہل بیت  میں "بیت" ایک لکھتا  ہے
خدا  اس کے  لیے  "بیت"  ایک  جنت  میں بناتا  ہے
اربعین حسینی کے ایام میں "دروازہ کربلا" کے قریب امام عالی مقام سے نسبت رکھنے والا یہ اجتماع گویا در جنت کو اپنے سامنے کھلا دیکھ رہا تھا۔ اس تقریب کے دوران جب ایرانی عزاداروں کا ایک منظم گروہ اپنے مخصوص انداز میں عزادری کرتے ہوئے سٹیج کے سامنے سے گزرا تو بے اختیار اشک آنکھوں میں اور ہاتھ سینوں پر آ گئے۔ قلب و روح عشق حسینؑ سے مملو ہونے کے بعد وہ ساعت آ گئی جب سٹیج پر ہمیں "پیر غلام حسینی" کا اعزاز وصول کرنے کیلئے بلایا گیا۔
ذرہ ہوں، بے نشاں ہوں پر اپنے وجود کو
ذکر حسینؑ  سے  ہوں نمایاں  کیے  ہوئے
تنویر  اپنے  نام  کے  پانچوں حروف کو
ہوں  نورِ  پنجتن سے  فروزاں کیے  ہوئے
اس اجلاس کے آخر میں اگلے سال کے "پیر غلامان حسینی" اجلاس کا پرچم صوبہ گیلان کے مسئولین کو دیا گیا۔ گویا ہر سال انعقاد پذیر ہونیوالی یہ کانفرنس اگلے برس ایران کے صوبے گیلان میں ہوگی۔ اس کانفرنس کے اختتامی اجلاس کے بعد اس بین الاقوامی اجلاس کے انعقاد میں اہم کردار ادا کرنیوالے ادارے " صدا و سیما" نے ہمارے ساتھ ایک الوداعی نشست کا اہتمام کیا۔ "صداوسیما" ایران کے تمام میڈیا کو کنٹرول کرنیوالا سرکاری ادارہ ہے۔ اسے ایشیا کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی مانا جاتا ہے۔ اس نشست میں ہمارے میزبانوں نے اس کانفرنس میں شرکت پر ہمارا شکریہ ادا کیا۔ ہم نے بھی انہیں اور ان تمام اداروں، مسئولین اور حکومت اسلامی جمہوری ایران کو اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد دی اور ان کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔ اس محفل میں میزبان شعراء اور مدح خوانوں سے ان کا کلام بھی سنا گیا۔ میں نے بھی فارسی زبان میں سیدالشہداء کے حضور اپنا نذرانہء عقیدت پیش کیا۔ اس کانفرنس کے اختتام اور میزبانوں سے الوداعی ملاقات کے بعد ہم نے کرمان شاہ کی فضا کو بھی الوداع کہا اور 26 اگست کو واپس تہران آ گئے۔
 
اگلے روز رات نو بجے کی فلائٹ پر پاکستان کیلئے روانہ ہونا تھا۔ اس تقریباً ایک دن کی فرصت سے مجھے موقع مل گیا کہ میں شاہ عبدالعظیم(رح) اور امام راحل امام خمینی کے حرم میں حاضری دے سکوں۔ چنانچہ میں اپنے تمام سامان سفر بمع اپنے کاسہءقلب و نظر کیساتھ صبح صبح ہی ان دو آستانوں کی طرف عازم سفر ہوا۔ خیال تھا کہ میں یہیں سے سیدھا ایئرپورٹ چلا جاوں گا۔ لہذا ان دو عظیم ہستیوں سے وداع کے بعد میں بنا بر احتیاط وقت سے کافی پہلے امام خمینی ایئرپورٹ پہنچ گیا۔ میرا ذہن میرے جہاز سے بہت پہلے اپنے وطن کی سرزمین پر اتر چکا تھا۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ ابھی کہاں؟۔۔۔۔ مجھے جو منظور تھا مجھے بلاوا دینے والی سایہ فگن نادیدہ ہستیوں کو منظور نہیں تھا۔ کانفرنس کے میزبانوں کی طرف سے ہمارے ایران کے طے شدہ سفر میں مشہد مقدس جانے کا کوئی پروگرام سرے سے تھا ہی نہیں۔ دل میں ایک خلش تھی کہ ایران جا کر مشہد کے چشمہ فیض سے فیضیاب نہ ہونےکی تشنگی ہمیشہ باقی رہے گی۔
 
معصومہ قم کے حرم میں جاکر بی بی سے اس تشنہ لبی کا اظہار بھی کیا تھا اور عرض کیا تھا کہ آپ ہی اس کا کچھ درماں کیجیے! ایئرپورٹ کی انتظار گاہ میں بیٹھے ہوئے میرا دھیان تو محض اپنے جہاز کی اڑان کے وقت کی طرف تھا لیکن اصل میں یہ میری اس دعا کی قبولیت کا وقت تھا جو میں نے بی بی کے حرم میں کی تھی۔ ہوا یوں کہ میں نے جس پرواز پر جانا تھا وہ بوجہ میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ اس کے بعد میرے میزبانوں نے میرے لیے کسی اور  پرواز کا اہتمام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اربعین کے رش کی وجہ کسی جہاز میں سیٹ کا دوبارہ نکالنا کرمان شاہ کے کسی پہاڑ سے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ آخر ایران میں میرے میزبانوں اور بالخصوص پاکستان میں ایرانی کلچرل قونصلیٹ کے مسئول آقای احسان خزاعی کی بھرپور کوششوں سے میری سیٹ کا انتظام ہو گیا۔ اب کے مجھے جس جہاز کی سیٹ ملی اس نے ایک ہفتے بعد مشہد سے لاہور جانا تھا۔
کھینچ کر لے گئی مشہد کی ہوا اپنی طرف
طوس کی جنتِ ارضی کی فضا  اپنی طرف
وطن واپسی کےسفر میں آنیوالی اس غیر متوقع رکاوٹ نے میری دیرینہ خواہش کی تکمیل کا راستہ کھول دیا۔ میں دوبارہ قم لوٹ آیا۔ شاید معصومہ قم کا شکریہ ادا کرنے کیلئے کہ ان کے وسیلے سے میری دعا بارگاہ خداوندی میں مستجاب ٹھہری۔ اپنی پاکستان پرواز سے دو روز قبل بذریعہ ہوائی جہاز میں مشہد مقدس پہنچا۔ یہاں تک پہنچنے کے تمام اضافی اخراجات حکومت ایران نے برداشت کیے۔ اس کے بعد اگلے دو دن تک میں مشہد میں اپنے اخراجات پر قیام پذیر رہا۔ اربعین کیلئے عراق جانیوالوں کے رش کی وجہ سے تمام ہوٹل مسافروں سے تقریباً بھر چکے تھے۔ پاکستانی بھائیوں کے مسافر خانے ۔"آل عمران" میں مشکل سے جگہ ملی، لیکن یہاں کی حالت زار دیکھ کر افسوس ہوا۔ ان کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ بیرون ملک اپنے ملک کی عزت کی خاطر اس کے معیار کو بہتر بنائیں۔
 
بہرحال میں عمر بھر کی اپنی تمام تھکن کو مٹانے کیلئے شجرہ طیبہ کی اس شاخ تک پہنچا، جس نے ارض طوس کو اپنے سائے میں لے رکھا ہے۔ یہاں گزرے ہوئے دو دن دو پل میں گزر گئے لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ دو پل میری زندگی کے باقی تمام ایام سے قیمتی ہیں۔ اس عرصے میں مجھے حرم کے احاطے میں ادارہ ارتباط بین الاسلامی کے دفتر میں جانے کا موقع ملا۔ دفتر میں خانم عظیمی پہلے ہی سے میری منتظر تھیں۔ ابھی میں پاکستان سے چلا ہی تھا کہ میری طرف ان کا پیغام آیا کہ میں حرم میں آپ کا انتظار کروں گی۔ نہایت با اخلاق اور اپنے شعبے سے قلبی لگاٶ رکھنے والی خاتون ہیں۔ جاتے ہوئے انہوں نے مجھے کئی تحائف دیئے۔ دو دن حرم کے نزدیک قیام کے بعد آخر وہ لمحہ آ گیا جب میں بوجھل دل کیساتھ، نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے امام کو الوداع کہہ رہا تھا اور ان سے جانے اور دوبارہ پھر سے آنے کی اجازت طلب کر رہا تھا۔
مشہد  و  قم  سے پھر  اک بار  بلاوا   آئے
مشہد و قم میں پھر اک بار میں پایا جاٶں
میری  تنویر   ابھی  تشنہ  لبی باقی   ہے
پھر  کنارے  پہ  سمندر  کے  میں لایا جاؤں
اپنی اس سفری روداد کو ختم کرنے سے پہلے میں "پیر غلامان حسینی" کے اس بابرکت اجلاس میں اپنے دعوت کنندگان اور خصوصی طور پر پاکستان میں رایزنی فرھنگی جمہوری اسلامی ایران، اسلام آباد کے ڈائریکٹر جناب احسان خزاعی صاحب کا نہایت شکرگزار ہوں کہ وہ مجھے "دروازہء کربلا" تک پہنچانے کا وسیلہ بنے۔


خبر کا کوڈ: 1015645

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1015645/دروازہ-کربلا-پر-سفرنامہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org