QR CodeQR Code

ایران میں ہونیوالے حالیہ مظاہرے اور اسکے پس پردہ حقائق

23 Sep 2022 16:22

اسلام ٹائمز: ایرانی عوام جان چکی ہے کہ یہ مھسا امینی کے نام پر نظام اسلامی و ملک کو توڑنے کی سازش ہے بلکہ اب ایران میں مختلف شہروں میں عوام کیجانب سے انقلاب اسلامی سے اظہار یکجہتی و ملک دشمن عناصر سے اظہارِ برات کیلئے ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ آج بعد از نماز جمعہ پوری ایرانی عوام سڑکوں پر نکل کر اس وحشی گری کیخلاف بھرپور احتجاج کر رہی ہے۔ اس واقعے میں ہمارے وہ اردو زبان دوست جو مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر شکوک و شبہات کا شکار ہو رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ اول تو اس واقعے میں اب تک کسی قسم کا پولیس تشدد ثابت نہیں ہوا، البتہ واقعہ کی حساسیت کے تحت اعلیٰ سطح پر اسکی تحقیقات جاری ہیں، جسکا حتمی نتیجہ ابھی نہیں آیا، اس لئے تب تک اظہار خیال اور کسی قسم کی قضاوت بے محل ہے۔


تحریر: سید طاہر نقوی (متعلم حوزہ علمیہ قم ایران)
گزارش ہے کہ اس تحریر کو کامل طور پر بغور پڑھیں

کچھ دن پہلے مھسا امینی لڑکی کو بے حجابی کی وجہ سے ایرانی پولیس نے حراست میں لیا، جو ویٹنگ روم میں اچانک دورہ پڑنے سے زمین پر گری اور بعد میں اس کی وفات ہوگئی۔ مغربی میڈیا نے جعلی ویڈیوز کی بناء پر الزام تراشی کی کہ لڑکی کی موت پولیس کے تشدد کی وجہ سے واقع ہوئی جبکہ سی سی ٹی وی کیمرہ سے لی گئی ویڈو میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس ویڈیو میں واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ لڑکی ویٹنگ روم میں اچانک کھڑے کھڑے زمین پر گر جاتی ہے اور اس کو وہاں سے فوری طور پر ایمبولینس پر ہسپتال پہنچایا جاتا ہے، جہاں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق بھی لڑکی کے جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں ہیں۔ ماضی میں مھسا امینی کو برین ٹیومر تھا، جس کی وجہ سے وہ ہسپتال میں داخل رہی ہے۔ البتہ اس واقعے کی عدلیہ میں اعلی سطح پر تحقیقات جاری ہیں، تب تک کچھ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن مغربی میڈیا جو انقلاب اسلامی کو نقصان پہنچانے کیلئے کسی بہانے سے دریغ نہیں کرتا، اس نے فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے بنا کسی ٹھوس ثبوت کے ایرانی عوام کو اکسانا شروع کر دیا۔

اس میں بی بی سی، وائس آف امریکا، "ایران انٹرنیشنل" نامی سعودی چینل اور بیرون ملک بیٹھے ہوئے ایرانی اپوزیشن چینلز پیش پیش تھے۔ اس کے ساتھ ایران کے اندر موجود مغرب پرست بے دین عناصر، کچھ سیاسی لیبلرز گروہ، سلیبریٹیز اور سادہ لوح افراد نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا، چونکہ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ تھا، جس کا دشمن عناصر نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی اذہان کو خوب مشوش کرنا شروع کیا۔ اس وجہ سے ایران کے کچھ شہروں میں مظاہرے ہوئے اور صورتحال تب پیچیدگی اختیار کرگئی، جب مظاہرے عوامی کنٹرول سے باہر نکل گئے اور علیحدگی پسند باغی گروہوں اور اسرائیل، امریکا و یورپ میں روپوش اینٹی ایران عناصر نے کمانڈ سنبھال لی۔ اس طرح یہ مظاہرے مسالمت آمیز رنگ کے بجائے مار دھاڑ و قتل و غارت تک جا پہنچے۔

مظاہروں کی سنگینی کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار کو زندہ آگ لگا دی گئی۔ ایک پولیس اہلکار کا گلہ کاٹ دیا گیا۔ کچھ دیندار و با حجاب خواتین کے سر سے مقنعہ و چادر کھینچ کر ان کو زد و کوب کیا گیا۔ ایرانی رضاکار فورس بسیج کے کچھ اہلکاروں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ اس طرح کے دسیوں وقعات پیش آئے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 19 افراد قتل اور دسیوں افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ البتہ پولیس نے ضد انقلاب عناصر کی جانب سے طے شدہ پلان کے مطابق بے گناہ افراد کو قتل کرکے انتظامیہ پر الزام لگانے کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ سکیورٹی اداروں نے پہلی فرصت میں انٹرنیٹ کو فیلٹر کرتے ہوئے ان عناصر کا بیرون ملک قوتوں سے رابطہ منقطع کیا، جو براہ راست بیرونی قوتوں سے کمانڈ لے کر مظاہروں کو لیڈ کر رہے تھے اور ان اصلی عناصر کی شناخت کرکے اکثریت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اب صورتحال سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں میں ہے اور حالات کافی حد تک بہتر ہوچکے ہیں، نیز ایرانی عوام جان چکی ہے کہ یہ مھسا امینی کے نام پر نظام اسلامی و ملک کو توڑنے کی سازش ہے بلکہ اب ایران میں مختلف شہروں میں عوام کی جانب سے انقلاب اسلامی سے اظہار یکجہتی و ملک دشمن عناصر سے اظہارِ برات کیلئے ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ آج بعد از نماز جمعہ پوری ایرانی عوام سڑکوں پر نکل کر اس وحشی گری کے خلاف بھرپور احتجاج کر رہی ہے۔ اس واقعے میں ہمارے وہ اردو زبان دوست جو مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر شکوک و شبہات کا شکار ہو رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ اول تو اس واقعے میں اب تک کسی قسم کے پولیس تشدد ثابت نہیں ہوا، البتہ واقعہ کی حساسیت کے تحت اعلیٰ سطح پر اس کی تحقیقات جاری ہیں، جس کا حتمی نتیجہ ابھی نہیں آیا۔ اس لئے تب تک اظہار خیال اور کسی قسم کی قضاوت بے محل ہے۔

دوسری بات یہ کہ بالفرض اگر اس میں پولیس تشدد ثابت ہو جاتا ہے تو گو کہ اس میں ملوث افراد قطعاً قصور وار متصور ہوں گے، جن کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے مگر بالفرضِ اثبات، یہ ان افراد کا انفرادی مسئلہ ہوگا، جس کو پورے نظام سے جوڑنا اور ایران اسلامی کو داعش و طالبان سے تشبیہ دینا قطعاً ناانصافی اور یہاں کے زمینی حقائق سے یکسر بے خبر ہونے کی علامت ہے۔ جو احباب ایران کا سفر کرچکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہاں بے حجابی کے لحاظ سے مھسا امینی سے بدتر نمونے موجود ہیں اور حکومتی سطح پر گو کہ ان کو لسانی طور پر امر بالمعروف اور بعض کو سکیورٹی اداروں میں بلا کر حجاب کا تذکر دیا جاتا ہے، حتیٰ بعض کو حدود سے زیادہ تجاوز کی صورت میں کچھ دن حراست میں رکھا جاتا ہے۔ مگر یہ کہنا کہ فقط بے حجابی کی وجہ سے لوگوں کو زد و کوب یا جسمانی تشدد کیا جاتا ہے، یہ سراسر دروغ و بہتان ہے!

آخری نکتہ اور ختم کلام
ایران اسلامی سے ہمدردی رکھنے والے افراد جو اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر پریشان ہو رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ ایران اسلامی ماضی میں اس سے کئی گنا بدتر و سنگین ترین مسائل کو عبور جکا ہے اور موجودہ مظاہرے اس کا عشر و عشیر بھی نہیں، اس لئے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان شاء اللہ اولیاء اللہ کی بشارت اور رویای صادقہ کی رو سے یہ انقلاب امام زمانہ (عج) کے عالمی انقلاب سے متصل ہوگا، البتہ اس میں ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں مغربی میڈیا اور اس سے وابستہ فضلہ خور میڈیا چینلز جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے نوجوان نسل کو انقلاب اسلامی سے بدظن نہ کریں، میڈیا کے اندر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے زمینی حقائق اس سے بہت مختلف ہیں، اس لئے اصل حقائق سے آگاہی سب کا اصلی ترین فریضہ ہے۔


خبر کا کوڈ: 1015780

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1015780/ایران-میں-ہونیوالے-حالیہ-مظاہرے-اور-اسکے-پردہ-حقائق

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org