0
Tuesday 20 Sep 2022 09:51

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(5)

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(5)
تحریر: محمد اشفاق شاکر

شاہراہ نجف پر لگے پول نمبر 925 کے قریب ایک موکب میں گہری نیند سو رہا کہ رات کسی پہر میرے دوست نے جگا دیا کہ جلدی جلدی اُٹھ کر تیار ہو جاؤ, چونکہ آج 19 صفر کی شام تک ہر صورت کربلا پہنچنا ہے اور بہت طویل سفر باقی ہے، اس لیے ہمیں جلدی نکلنا ہوگا، تاکہ شام تک کربلا پہنچ جائیں۔ بھائی کے متوجہ کرنے پر جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا، چونکہ موکب میں زیادہ تر زائرین ابھی سو رہے تھے کہ انہوں نے نمازِ فجر کے بعد سفر شروع کرنا تھا، اس لیے موکب کے ساتھ بنائے گئے غُسل خانوں میں غسل کرنے کے لیے ایک لمحے کا بھی انتظار نہیں کرنا پڑا، ہلکی ہلکی ٹھنڈ میں نیم گرم پانی سے غسل کیا اور اس کے بعد اپنی منزل کی طرف چل پڑے اور آج ہماری منزل تھی کربلا۔ جی کربلا میں حرمین کے جتنا قریب سے قریب پہنچ سکیں، یہی سالارِ قافلہ کا حکم تھا۔

فجر کی نماز کے اول وقت تک ہم 150 عمود کا فاصلہ طے کرچکے تھے، ایک موکب کے سامنے رک کر نماز فجر ادا کی، ناشتہ کیا، پھر چل پڑے اور بغیر وقفے کے پول نمبر 1150 تک چلتے چلے گئے۔ یہاں پر مجبوراً رکنا پڑا کہ پاؤں کے تلووں پر کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں چھالے نہ بن گئے ہوں۔ ایک فیلڈ ہسپتال میں پہنچے، ڈاکٹرز اور پورا سٹاف دیدہ و دل فرشِ راہ کیے ہوئے تھا۔ بیڈ پر لٹا کر ہمارے بار بار انکار بلکہ جبری انکار کے باوجود بھی پہلے پاؤں کو بہت اچھے طریقے سے دھویا بلکہ ایسے دھویا کہ شاید بیٹے بھی ہوتے تو ایسے نہ دُھلواتے، پھر انجیکشن لگا کر پاؤں کے چھالوں سے پانی نکال دیا آور زیادہ زخمی جگہوں پر دوا لگا کر پٹی باندھ دی، ہسپتال سے نکل کر ملحقہ موکب میں گئے اور 1 گھنٹے کا الارم لگا کر سو گئے۔

ایک گھنٹہ بعد نیند سے بیدار ہوئے، پھر رختِ سفر باندھ کر چلنا شروع تو کر دیا، لیکن پاؤن کی بڑھتی ہوئی سوجن اور زخموں کے درد کی وجہ سے پاؤں اٹھانا محال سے محال تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ پول نمبر 1200 تک پہنچ کر میری سکت بالکل ختم ہوگئی، جبکہ میرے ہمسفر بھائی ابھی تک پوری طرح حوصلے میں تھے۔ یہاں کچھ دیر آرام کے بعد پھر نکلے اور 50 مزید پول عبور کیے، لیکن اب۔۔۔۔۔ اب حالت مزید خراب ہوچکی تھی، تمام تر توانائیوں کو جمع کیا 2 یا 3 پول کا سفر کرکے میں ساتھ والے روڈ کے کنارے بیٹھ گیا جبکہ برادر مالک اشتر نے پیدل سفر جاری رکھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک گاڑی والے کو اشارہ کیا، اس نے فوراً ساتھ بٹھایا اور ہم کچھ ہی دیر میں کربلا پہنچ گئے۔

19 صفر کا سورج غروب ہونے ہی والا تھا، کجھ سکیورٹی چیک پوائنٹس بنانے گئے تھے، وہاں سے فارغ ہو کر کچھ آگے بڑھا تو میرے سامنے میرے مولا کے حرم کا سنہری گنبد تھا، جیسے ہی نظر پڑی تو پتہ نہیں کس کیفیت میں زبان سے سلام کے جملے نکلے، السلام علیک یا ابا عبداللہ، السلام علیک یابن رسول اللہ اور آنکھ سے آنسو ٹپکے۔ کچھ دوستوں سے غسل خانوں کا پتہ کیا، بےپناہ رش کے باوجود زیرزمین بنانے گئے انتہائی صاف ستھرے لاتعداد غسل خانے تھے اور ان غسل خانوں کے باہر اسی چھت کے نیچے ایک وسیع جگہ پر جہاں واش بیسن لگائے گئے تھے، وہیں پر ہینگرز لگے ہوئے تھے، تاکہ لوگ اپنا سامان لٹکا سکیں اور ساتھ ہی بجلی کے لاتعداد ساکٹ کہ زائرین اپنے موبائل چارج کرسکیں۔

دلچسپ بات یہ کہ ہر بندہ اپنا سامان ہینگر کے ساتھ لٹکا کر موبائل چارجنگ پر لگاتا اور خود بغیر کسی خدشے کے غُسل خانے میں چلا جاتا، مجال ہے جو کسی کو چوری کی شکایت ہوتی ہو، یہ تو پھر کربلا تھی، نجف سے کربلا کے رستے میں کسی بھی مقام پر سوتے وقت جوتے اتار کر جہاں رکھے تھے، صبح وہیں سے اٹھائے۔ اب غسل سے فارغ ہوا تو ایک مقام پر کچھ بزرگان نماز کی ادائیگی میں مصروف تھے، چونکہ جماعت ہوچکی تھی، اس لیے ان بزرگانِ کی بچھائی گئی چٹائیوں پر نماز ادا کی اور پھر حرم کی طرف بڑھنے لگا۔ وہاں موجود گائیڈز کے اشاروں کی پیروی کرتے ہوئے میں بین الحرمين کی طرف جا رہا تھا کہ بین الحرمين سے تھوڑا پہلے ہی سامنے سے ایک جلوس آیا کہ جس نے پوری قوت سے میرا رخ واپس امام حسین علیہ السلام کے حرم کی طرف کر دیا۔ اب میں مولا حُسین علیہ السلام کے حرم کے ایک داخلی دروازے باب الرجاء پر پہنچ گیا۔

ارادہ کیا کہ اذن دخول پڑھوں، کوئی ایک آدھ جملہ ہی زبان سے نکلا تھا کہ پیچھے سے آنے والے ایک اور جلوس نے اپنی لپیٹ میں لیا اور میں بالکل تیرنے کے سے انداز میں حرم کے اندر امام کی ضریح سے گویا لپٹ سا گیا اور اسی جلوس کے ساتھ اسی طرح چلتے چلتے ضریح سے لپٹ گیا، جس کے نیچے شھداء کی اجتماعی تدفین کی گئی تھی اور پھر اسی طرح بغیر کسی ذاتی کوشش کے، میں حرم کے ایک دروازے سے باہر آگیا، باہر آ کر پتہ چلا کہ حرم مطہر کے اس دروازے کو بابِ قاضی الحاجات کہا جاتا ہے اور یہ بین الحرمين میں کُھلتا ہے۔ باب قاضی الحاجات پر ہی موجود تھا اور سامنے بین الحرمين میں لوگوں سے کھچا کھچا بھرا ہوا تھا، اسی سوچ میں گُم کھڑا کہ کیا کروں کہ برادر مالک اشتر سے رابطہ ہوا، ملاقات ہوئی۔ میرے کہنے پر انہی غسل خانوں کی طرف چلے کہ جن کا ذکر اوپر آیا ہے کہ بھائی غسل کر لیں کہ ایک دم سے ایک بہت بڑے جلوس میں پھنس گئے۔ مالک اشتر بھائی کدھر گئے، مجھے پتہ نہیں لیکن جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک فیلڈ ہسپتال میں تھا اور آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا، فجر کی نماز وہیں ہسپتال میں ادا کی۔

نماز فجر کے بعد حرم سے دور سنہری گنبد پر نظریں جمائے شاہراہ شھداء پر بیٹھے رہے کہ 20 صفرالمظفر یومِ اربعین کا سورج طلوع ہوا اور جب سورج بلندی پر پہنچ گیا تو جو جو بھی کربلا میں جس جس جگہ موجود تھا، زیارت اربعین میں شریک ہوگیا۔ کیا ہی منظر تھا کہ جب آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں کی برسات میں کروڑوں لوگوں روضہ شبیر (ع) "کی طرف رُخ کیے زیارتِ اربعین میں شریک تھے اور کربلائے معلیٰ کی نورانی مگر سوگوار فضا انتہائی پرسوز آواز میں پڑھے جانے والے زیارت اربعین کے جملوں سے گونج رہی تھی۔ زَیارت ختم ہوتے ہی سالار قافلہ کے حکم کے مطابق ایک پبلک ٹرانسپورٹ گاڑی پر واپس نجف اشرف کے لیے روانہ ہوا، جہاں حرم امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بابِ طوسی کے بالکل ساتھ ہمارے سالارِ کارواں نے "جنتُ علی" نامی ہوٹل ریزرو کروا رکھا تھا، نجف پہنچ کر شولڈر بیگ ہوٹل میں رکھا اور حرم میں نماز ِ ظہرین کی ادائیگی کے ساتھ شرفِ زیارت حاصل کیا اور پھر واپس اپنے ہوٹل آکر گہری نیند سو گیا۔

جس وقت آنکھ کھلی تو 20 صفر کا سورج غروب ہونے کے قریب تھا، جلدی جلدی عسل کیا، نماز کی تیاری کی اور پھر حرم امیرالمومنین علی علیہ السلام میں نماز مغربین کی باجماعت ادائیگی اور زیارت کے بعد واپس اپنے ہوٹل آگیا۔ کارواں کے باقی دوست کچھ بزرگان کی تلاش میں رہنے کی وجہ سے رات کو بہت دیر سے نجف پہنچے۔ اب کل صبح 21 صفر سے سفرِ عشق کا ان شاء اللہ دوسرا مرحلہ شروع ہوگا، جس میں نجف و کوفہ اور گردونواح نواح کی زیارت، کوفہ سے کربلا کے راستے کی زیارات، پھر کربلائے معلیٰ کی تفصیلی زیارات، جس کے بعد ان شاء اللہ ایران روانگی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1015886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش