QR CodeQR Code

بی بی سی کی کارستانیاں

27 Sep 2022 21:38

اسلام ٹائمز: ملکہ انگلینڈ کی غیر مقبولیت کی کہانی نہ صرف اس ملک کی سرحدوں سے باہر بلکہ اسکے اندر بھی بہت عام ہوچکی ہے۔ جہاں برطانوی میڈیا نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ برطانوی عوام کے علاوہ کامن ویلتھ ممالک سمیت دیگر ممالک کے شہریوں نے بھی انکی موت پر سوگ منایا، حالانکہ شمالی اور جنوبی آئرلینڈ کے لوگوں نے یہ خبر سنتے ہی جشن منایا۔ جمہوریہ آئرلینڈ نے اس حوالے سے لکھا: وائرل ہونیوالی ایک ویڈیو کے مطابق آئرلینڈ کے ڈبلن اسٹیڈیم میں فٹ بال کے شائقین نے خوشی سے "ملکہ اب تابوت میں ہے" کے نعرے لگائے۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ملکہ برطانیہ کی موت کے  بعد ہم نے میڈیا اور سائبر اسپیس میں اس واقعہ پر مختلف طرح کا ردعمل دیکھا۔ زیادہ تر صارفین نے ملکہ انگلینڈ کی موت کا بہانہ بنا کر اس ملک میں بادشاہت اور موروثی نظام کو چیلنج کیا۔ کچھ نے ملکہ کی کارکردگی اور ان کے 70 سالہ دور حکومت پر تنقید کی اور ان 7 دہائیوں کے تاریخی واقعات کا جائزہ لیا۔ بی بی سی نیوز، جس کا انتظام حکومتی بجٹ اور برطانوی عوام کے ٹیکسوں سے بھاری اخراجات کے ذریعے کیا جاتا ہے، نے ہمیشہ آزادی کی ظاہری شکل اور دعوے کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے آپ کو مفت معلومات کا منبع ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ بی بی سی کے مالکان کے مفادات اور مختلف اوقات میں اس کی فریب کارانہ پالیسی اور ان کی من مانی کا الٹا نتیجہ نکلا ہے۔ "فارن پالیسی" میگزین اس میڈیا کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے: بی بی سی نیوز اور بادشاہت، برطانیہ کے دو مرکزی ادارے ہیں، جو ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ بی بی سی کو اپنی قانونی حیثیت کے لئے بادشاہت کی ضرورت ہے اور بادشاہت کو ایک میڈیا کی ضرورت ہے۔

بی بی سی اپنی خبروں کی سرگرمیوں اور کوریج میں غیر جانبدارانہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، جبکہ برطانوی میڈیا پر نظر رکھنے والا ادارہ اکثر اوقات بی بی سی پر تنقید کرتا نظر آتا ہے۔ دوسری طرف بی بی سی کا  عملہ بادشاہت سے تعلق کی وجہ سے خصوصی فوائد سے لطف اندوز ہوتا ہے، تاہم اس کا بجٹ ڈھانچہ پیچیدہ ہے۔ اس کے علاوہ اور ایسی صورتحال میں جب برطانیہ میں رائے عامہ کا پانچواں حصہ بادشاہت کے خلاف ہے، بی بی سی بادشاہت کے مخالفین کی خبروں کو کور نہیں کرتا۔ اس قسم کی خبروں کی کوریج کی ایک مثال قابل توجہ ہے۔

ملکہ الزبتھ دوئم کا انتقال 8 ستمبر کو 96 سال کی عمر میں ہوا اور یہ خبر دنیا کے تمام میڈیا میں پھیل گئی۔ ان میڈیا میں سے ایک جس نے اس معاملے کو بہت زیادہ کوریج دی، وہ بی بی سی تھا، جس نے انسٹاگرام پر ملکہ انگلینڈ کی موت کی متعدد خبریں شائع کیں، جسے صارفین کے تبصروں میں شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ انہیں ملکہ الزبتھ دوم کی موت سے متعلق کمنٹس سیکشن بند کرنا پڑا، تاکہ صارفین اس بارے میں کچھ نہ کہہ سکیں۔ اس دوہرے رویہ اور غیر جانبداری کے دعوے اور اس مسئلے پر رائے دینے کے حق کے برعکس، یہ تصور پایا گیا کہ لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے اور حقیقی اور قانونی شخصیت کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، سوائے انگلینڈ کی ملکہ کے!!

لیکن ملکہ انگلینڈ کی موت کے بعد بی بی سی کے غیر پیشہ وارانہ اور چاپلوسی کے رویئے پر سوشل میڈیا صارفین بالخصوص فارسی بولنے والوں کا ردعمل سامنے آیا۔ صارفین کا ایک موضوع ملکہ کی موت سے متعلق پوسٹس میں کمنٹ سیکشن اور سامعین کے پیغامات کو بند کرنا تھا۔ ایک میڈیا کارکن نے اس کارروائی کے جواب میں لکھا: ’’اظہار رائے کی آزادی؟ لوگوں کی رائے؟ بی بی سی کا صفحہ ملکہ کی موت کے بارے میں اپنے سامعین کی رائے بھی نہیں سن سکتا اور اس نے تبصرے  کے سیکشن کوبند کر دیا ہے۔ ایک اور میڈیا کارکن نے بی بی سی کی اس پوسٹ کے بارے میں لکھا جس کا عنوان تھا "عالمی رہنماء ایک مہربان ملکہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں": "تبصرے بند ہیں۔" ایک اور صارف نے مزاحیہ انداز میں بی بی سی کا حوالہ دیا کہ ملکہ اس قدر مہربان تھی کہ ہمیں تبصرے بند کرنے پڑے!!

میڈیا کے اس رویئے اور سائبر اسپیس میں ملکہ کی موت پر ردعمل طوفانی تھا۔ ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا: لندن میڈیا کے تضادات عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ اگر ملکہ انگلستان واقعی ایک ’’رسمی عہدیدار‘‘ تھی تو تمام ماہرین کے تجزیوں کا مقصد کیا ہے کہ وہ تمام ملکی اور بین الاقوامی معاملات میں انکے 70 سالہ اثرات کا اظہار کرے؟ کیا وہ تمام امور میں دخیل تھی یا کسی کام میں بھی نہیں؟ ایک اور مسئلہ برطانوی میڈیا کی عجیب و غریب حرکتیں تھیں۔ مثال کے طور پر انگلینڈ کی 96 سالہ ملکہ کی موت کے ایک دن بعد، اس ملک کے میڈیا نے غیر حقیقی اور توہم پرستانہ موضوعات کا سہارا لے کر ان کی شبیہ کو پاک کرنے کی کوشش کی۔ جمعے کے روز "ڈیلی میل" اخبار نے ایک انگریز خاتون کی کہانی کا حوالہ دیا، جس نے سوشل اسپیس میں ملکہ الزبتھ دوم کی طرح ایک بادل کی تصویر شیئر کی۔ ڈیلی میل کے مطابق یہ تصویر ملکہ برطانیہ کی موت کے صرف ایک گھنٹے بعد اس ملک کے ایک شہر کے آسمان پر نمودار ہوئی۔

ڈیلی میل اس جھوٹے دعوے کے اکاؤنٹ میں لکھتا ہے کہ، ویسٹ انگلینڈ میں رہنے والی لیین بیٹل نے یہ تصویر اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کی۔ ایک تصویر جو ملکہ الزبتھ سے حیرت انگیز مشابہت رکھتی ہے۔ یہ انگریزی میڈیا فیس بک پر اس خاتون کے پیغام کی بنیاد پر لکھتا ہے: لیین بیٹل اپنے گھر کی طرف گاڑی پر جا رہی تھی، جب اس نے آسمان میں مذکورہ بادلوں کو دیکھا۔ آسمان میں جو تصویر نظر آئی ہے، وہ اس ملک کی ملکہ سے بہت ملتی جلتی ہے۔ ڈیلی میل اس معاملے پر فیس بک صارفین کے مثبت اور جذباتی ردعمل کا ذکر کرکے اپنی جعلی داستان کو حقیقی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے آسمان کی طرف سے نشانی قرار دیتا ہے۔

انگریزی میڈیا نے مصنوعی صارفین کے برعکس ملکہ کو برطانوی عوام میں ایک مقبول شخصیت کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ، ایک اور صارف کا دعویٰ ہے کہ ملکہ الزبتھ دوم نے اپنی زندگی ان کے لیے وقف کی تھی۔ ڈیلی میل کی توہم پرستی سے ملی ہوئی داستان ایک اور صارف کی پوسٹ کے تذکرے کے ساتھ ختم ہوتی ہے کہ: "ملکہ الزبتھ ہمیشہ ہماری محافظ ہیں۔" بادشاہت کی پوزیشن اور مابعد الطبیعاتی امور سے تعلق کے حوالے سے بہت سارے توہمات پر مبنی اور مقدس مواد کے باوجود، "گارڈین" اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں عوامی تنقید کے سیلاب اور پروفیسروں اور سیاسی ماہرین کے خیالات کی عکاسی کرتے ہوئے برطانوی سلطنت کے بارے میں کہا ہے کہ  ملکہ الزبتھ دوم کے دور میں اس ملک کی استعماریت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور اس کے ثبوت ایشیا اور افریقہ میں باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔

"امریکی تجزیہ کاروں کے ساتھ ساتھ بہت سے ماہرین تعلیم اور دیگر مختلف شعبوں نے برطانوی بادشاہت کے دیرپا اثرات کا دنیا کے مختلف حصوں میں جائزہ لینے اور اس اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے پر زور دیا ہے۔ ان کا اشارہ افریقی، ایشیائی اور کیریبین ممالک میں برطانوی سلطنت کی نوآبادیاتی اور پرتشدد تاریخ سے ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر مایا جسانوف نے اس حوالے سے نیویارک ٹائمز میں کئی دہائیوں پر مشتمل برطانوی استعمار کی پرتشدد کارروائیوں کی نشاندہی کی ہے۔ الزبتھ دوم کے اپنے والد کی موت کے بعد ملکہ بننے کے بعد، کینیا میں برطانوی نوآبادیاتی حکام نے ماؤ ماؤ بغاوت کو سختی سے کچلا۔ اس برطانوی کارروائی کے نتیجے میں حراستی کیمپوں کا ایک وسیع نظام قائم ہوا اور دسیوں ہزار لوگوں کو اذیتیں، عصمت دری اور قتل کیا گیا اور بعد میں برطانوی حکومت کو جرم ثابت ہونے پر کینیا کے بچ جانے افراد کو 20 ملین پاؤنڈ ادا کرنے پڑے۔

اس کے علاوہ امریکن یونیورسٹی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر اوجو انیا نے ایک ٹویٹ کیا، جسے فوری طور پر حذف کر دیا گیا۔ انھوں نے اس ٹویٹ میں لکھا: "ان کا دور دردناک ہے۔ انہوں نے ملکہ کو "نسل کشی، غارت گری اور عصمت دری کرنے والی سلطنت کا سلطان قرار دیا۔" جبکہ برطانوی میڈیا نے الزبتھ کو "نیک دل ملکہ" کے طور پر متعارف کرایا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی، کیونکہ الزبتھ دوم کے دور میں، انگلینڈ نے افریقی ممالک میں نوآبادیات کو رواج دیا اور گھانا سے زمبابوے تک، جزیرہ نما عرب کے جنوبی کنارے کے ساتھ جزیروں اور کیریبین ممالک میں آزادی کے حامیوں کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا۔

لوگوں کا غصہ اور عدم اطمینان صرف افریقہ اور کیریبین کے علاقے تک محدود نہیں ہے۔ جمیکا میں، برطانوی استعمار اور اس کی غلامی کی تاریخ کے بارے میں  شدید غم و غصہ نظر آتا ہے۔ اس خطے میں لوگ برطانوی بادشاہت سے اپنے ملک میں برطانیہ کے جرائم اور نوآبادیاتی وراثت کے لیے معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جمیکا میں قومی معاوضہ کونسل کے رکن بریٹ سیموئلز کا خیال ہے کہ جس چیز کو دولت مشترکہ کے طور پر کہا جاتا ہے، وہ دراصل انگلینڈ کی دولت ہے۔ یہ دولت ایسی ہے، جس میں جمیکا کے لوگ کبھی شریک نہیں رہے۔ مشرق وسطیٰ میں، ملکہ انگلستان کی موت پر عوامیغم و غصہ کے یہ چند آثار تھے۔ مشرق وسطیٰ میں بہت سے لوگ اب بھی برطانیہ کو ان نوآبادیاتی اقدامات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جنہوں نے خطے کی بہت سی سرحدوں کو تبدیل کیا اور بہت سے جدید تنازعات کا سامان فراہم کیا۔ مثال کے طور پر ملکہ کی موت کے دو دن بعد، حماس اور غزہ کے رہنماؤں نے انگلستان کے موجودہ حکمران کنگ چارلس تین سے کہا کہ وہ فلسطین کی سرحدوں کے بارے میں برطانوی فیصلوں میں ترمیم کریں۔

ملکہ انگلینڈ کی غیر مقبولیت کی کہانی نہ صرف اس ملک کی سرحدوں سے باہر بلکہ اس کے اندر بھی بہت عام ہوچکی ہے۔ جہاں برطانوی میڈیا نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ برطانوی عوام کے علاوہ کامن ویلتھ ممالک سمیت دیگر ممالک کے شہریوں نے بھی ان کی موت پر سوگ منایا، حالانکہ شمالی اور جنوبی آئرلینڈ کے لوگوں نے یہ خبر سنتے ہی جشن منایا۔ جمہوریہ آئرلینڈ نے اس حوالے سے لکھا: وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کے مطابق آئرلینڈ کے ڈبلن اسٹیڈیم میں فٹ بال کے شائقین نے خوشی سے "ملکہ اب تابوت میں ہے" کے نعرے لگائے۔ شمالی آئرلینڈ سے بھی "ڈیری" شہر کی ایک اور ویڈیو سامنے آئی ہے، جس میں لوگوں کو سڑکوں پر خوشیاں مناتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف نے اس ویڈیو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا: ان ویڈیوز میں لوگ سڑکوں پر جمع ہوکر اپنی کاریں سڑک کے بیچوں بیچ چھوڑ کر چھتوں پر جا کر جشن مناتے نظر آرہے ہیں۔

برطانیہ کے سرکاری میڈیا نے ملکہ کی موت کے بارے میں جو کچھ شائع کیا ہے، وہ اس کے خلاف ہے، جو حقائق ہیں۔ لوگوں کے ان گنت مسائل اور مشکل معاشی حالات کے باوجود ملکہ کی تدفین کی تقریب کی بھاری لاگت نے برطانوی شہرویوں کے عدم اطمینان میں اضافہ کیا اور لوگوں نے سوشل نیٹ ورکس اور سائبر اسپیس پر کئی بار اس پر احتجاج کیا۔ ایک بین الاقوامی میڈیا کے رپورٹر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ الزبتھ دوم کی آخری رسومات اور چارلس کو اقتدار کی منتقلی پر انگلینڈ کے کم از کم 6 بلین پاؤنڈ خرچ ہوئے، جبکہ انگلینڈ معاشی بحران کا شکار ہے۔ انہوں نے لکھا: یہ دلچسپ اور عجیب بات ہے کہ انگریزی میڈیا حتیٰ کہ عالمی میڈیا نے اس قرون وسطائیٰ تقریب کے خطیر اخراجات پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی۔


خبر کا کوڈ: 1016454

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1016454/بی-سی-کی-کارستانیاں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org