1
Wednesday 28 Sep 2022 12:48

مغربی کنارے میں نئے فلسطینی مزاحمتی گروہ کا قیام

مغربی کنارے میں نئے فلسطینی مزاحمتی گروہ کا قیام
تحریر: فاطمہ محمدی
 
مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت اپنی عروج پر ہے۔ مغربی کنارے کے مختلف شہر گذشتہ چند ماہ سے غاصب صہیونی فورسز کے خلاف محاذ جنگ بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مغربی کنارے میں مسلح جدوجہد شدت اختیار کر جانے سے شدید خوفزدہ ہے۔ تل ابیب کی وحشت اور خوف میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا ہے جب مغربی کنارے میں ایک نئے اسلامی مزاحمتی گروہ نے اپنے وجود کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ مغربی کنارے پر حکمفرما فلسطین اتھارٹی بھی مکمل طور پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے تعاون کر رہی ہے اور اسلامی مزاحمت کو کچلنے میں اسرائیل کی مدد کرنے میں مصروف ہے لیکن اس کے باوجود مغربی کنارے میں اسلامی مزاحمت ہر روز پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر سامنے آ رہی ہے۔ اب تک فلسطین اتھارٹی کی مدد سے صہیونی سکیورٹی فورسز کئی فلسطینی کمانڈرز کو شہید اور گرفتار کر چکے ہیں۔
 
حال ہی میں مغربی کنارے میں "عرین الاسود" نامی نیا اسلامی مزاحمتی گروہ سامنے آیا ہے۔ اس گروہ نے چند دن پہلے اپنی پہلی مسلح کاروائی کے دوران صہیونی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔ اس حملے کے بعد عرین الاسود نے ایک بیانیہ جاری کیا اور اس کی ذمہ داری قبول کی۔ اس نئے مزاحمتی گروہ کی جانب سے یہ مسلح کاروائی اتوار 25 ستمبر 2022ء کے دن انجام پائی ہے۔ صبح کے تقریباً تین بجے تھے جب مغربی کنارے کے شہر نابلس میں واقع دو اہم پہاڑیوں جرزیم اور عیبال میں سے ایک پہاڑی جرزیم پر چند صہیونی فوجیوں اور آبادکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس مسلح کاروائی کو انجام دینے والی ٹیم کے سربراہ سائد الکونی تھے جو شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ ان کی عمر 22 سال تھی اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر خون کے آخری قطرے تک صہیونی فوجیوں سے مقابلہ کیا۔
 
شہید عائد الکونی کی لاش صہیونی فوجیوں نے اپنے قبضے میں لے لی جبکہ ان کے کچھ ساتھیوں کو بھی زخمی حالت میں گرفتار کر لیا ہے۔ عرین الاسود نے اپنے بیانیے میں شہید الکونی کو "اسلامی مزاحمت کا ہیرو" قرار دیا اور غاصب صہیونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ عرین الاسود نے اس مسلح کاروائی کے ذریعے اپنے وجود کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایسا مسلح گروہ ہے جس میں دسیوں مجاہد شامل ہیں اور انہوں نے نابلس کے پرانے شہر کو اپنے ہیڈکوارٹر کے طور پر انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ جہاں بھی صہیونی فوجیوں اور آبادکاروں کو دیکھیں گے انہیں نشانہ بنائیں گے۔ اس سال کے آغاز سے مغربی کنارے میں اسلامی مزاحمتی سرگرمیوں میں شدت آئی ہے۔ آغاز میں جنین شہر اسلامی مزاحمت کا مرکز تھا لیکن جب صہیونی فورسز نے وہاں گھیرا تنگ کیا تو مجاہدین مغربی کنارے کے دوسرے شہروں میں پھیل گئے۔
 
غاصب صہیونی رژیم نے جنین شہر کو "مکھیوں کا چھتہ" نام دے رکھا تھا۔ مغربی کنارے کے شہر نابلس میں بھی کئی مزاحمتی کاروائیاں انجام پائیں۔ یہ مزاحمتی گروہ اس وقت "کتیبہ نابلس" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس نے اپنا نام ایک اور مزاحمتی گروہ "کتیبہ جنین" سے اخذ کیا تھا۔ 8 فروری 2022ء کے دن شہید ہونے والے مجاہدین محمد الدخیل، اشرف مبسلط اور ادھم مبروکہ کا تعلق اسی گروہ سے تھا۔ جنین کیمپ میں مقیم الاقصی انتفاضہ کے سربراہ جمال حویل کہتے ہیں کہ جنین اور جنین کیمپ اور نابلس کے پرانے شہر میں غاصب صہیونی رژیم کے خلاف انجام پانے والی جہادی کاروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں شہروں میں موجود جہادی گروہوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ محمد العزیزی یا ابوصالح اور عبدالرحمان صبح کی شہادت کے چالیس روز بعد 2 ستمبر 2022ء کے دن ان کی سوگواری کی تقریب منعقد ہوئی اور اسی دن عرین الاسود نے اپنے وجود کا اعلان کیا۔
 
اس دن نابلس کے مرکز میں واقع حطین روڈ پر عرین الاسود کے مجاہدین نے ہتھیاروں سے لیس ہو کر پریڈ کی۔ ان کے اس اقدام نے غاصب صہیونی رژیم کو غصے سے پاگل کر دیا۔ پریڈ کے دوران اس گروہ سے وابستہ ایک مجاہد نے منشور کا اعلان کیا۔ اس نے کہا کہ عرین الاسود کے بانی 23 سالہ شہید محمد العزیزی تھے اور ان کے خون کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔ اس نے مزید کہا کہ ہم عبدالرحمان صبح کا خون پامال نہیں ہونے دیں گے۔ عرین الاسود کے بیانیے میں غاصب صہیونی فورسز کو خبردار کیا گیا کہ بہت جلد ان کے خلاف "نیا معرکہ" شروع کر دیا جائے گا جسے سمجھنے سے قاصر ہوں گے۔ عرین الاسود مزاحمتی گروہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے نیٹ ورک کا کسی کو علم نہیں اور اس کے اسٹرکچر کی نوعیت بھی بالکل مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غاصب صہیونی رژیم شدید ہراساں اور خوفزدہ ہو گئی ہے۔
 
عرین الاسود کا نعرہ "لا الہ الا اللہ و محمد رسول اللہ" کے پرچم تلے متحد ہو کر جہاد کرنا ہے۔ یہ گروہ فلسطین کی تاریخ میں شہید ہونے والی تمام اہم جہادی شخصیات پر فخر کا اظہار کرتا ہے اور انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ عرین الاسود نے اعلان کیا ہے کہ مسلح جدوجہد کا راستہ جاری رکھے گا اور اس کا اسلحہ صرف اور صرف غاصب صہیونی دشمن کے خلاف چلے گا۔ اسی طرح اس گروہ نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ وہ مزاحمت کے نام پر تجارت نہیں کریں گے اور اسلامی مزاحمت کی مدد کو بہانہ بنا کر کسی سے مالی امداد نہیں لیں گے۔ اس گروہ میں شامل مجاہدین کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اور وہ سیاہ لباس پہنتے ہیں۔ اب تک انہوں نے نابلس شہر کے اردگرد کئی مزاحمتی کاروائیاں انجام دی ہیں اور صہیونی فوجیوں کو ان کے ٹھکانوں میں جا کر نشانہ بنایا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1016548
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش