QR CodeQR Code

المیوں کی سرزمین اور خواب بیچنے والے

28 Sep 2022 18:37

اسلام ٹائمز: یہ ملک اب مزید کتنے المیوں سے دوچار ہوگا، کیا اس میں مزید سکت ہے المیے برداشت کرنے کی۔ اس ملک کو اگر بچانا ہے تو اسے بانئی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ، افکار اور ویژن و فرمودات کی روشنی میں ہی بچایا جا سکتا ہے۔ خدا کیلئے کوئی تو آگے بڑھو، اس ملک کو بچانا ہے، اس ملک کو آگے لیکر جانا ہے، اس ملک کو المیوں سے نجات دلانی ہے، اس ملک کو جھوٹے خواب بیچنے والوں کی دستبرد سے نجات دلانا ہے۔۔ یہ ملک اب انقلاب کا متقاضی ہے۔۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر
 

پاکستان کو المیوں کی سر زمین کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، اس لئے کہ اس کے قیام کو پچھتر سال ہو رہے ہیں، مگر اس پاک سرزمین، اس کے باسیوں کو المیوں سے نجات ہی نہیں ملی۔ ایک المیہ سے سنبھل نہیں پاتے کہ ایک اور المیہ سامنے آجاتا ہے۔ ایک مصیبت سے جان نہیں چھوٹتی کہ نئی آن لیتی ہے۔ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کا المیہ جس نے نوازائیدہ مملکت پر کئی مصیبتوں کو جنم دیا، ایسی مصیبتیں اور مسائل کہ جن سے ہم آج تک جان نہیں چھڑوا سکے۔ اس کے بعد لیاقت علی خان کا قتل اور مملکت پر جرنیلوں کا حکومت اور ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا، مرضی کے فیصلے اور آئین مسلط کرنا، قائد اعظم کے ویژن سے ہٹ کے ریاست کو چلانا، اہل و حقدار کی بجائے من پسند افراد کو طاقت کے مراکز میں لانا، سب سے بڑھ کر سینیئر کی بجائے جونیئرز کو افواج پاکستان کی سربراہی سونپنے کا سلسلہ، جو بعد میں انہی کیلئے وبال بنتا آیا ہے۔ ایوب خان سے لے کر آج تک اس روش میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔

مختلف ادوار میں مسند اقتدار کے پجاریوں نے اپنے اپنے مفاد کیلئے مذہبی طاقتوں کو بھی اپنی سیڑھی بنایا، تاکہ جہاں فتویٰ بازی سے کام چلایا جا سکتا ہے، چلایا جائے۔ آج تک یہ عناصر بھی پاکستان کو گھن کی طرح کھا رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے، قائد اعظم کی توہین کرتے تھے، کانگریس کے حامی و طرفدار تھے، مگر آج ان سے بڑھ کر پاکستان کا کوئی مالک و مختار نہیں ملے گا، جبکہ آج بھی ان کو پاکستان سے نہیں اپنے مکتب اور نظریہ سے پیار ہے۔ انہیں کسی بھی صورت قائد اعظم کا پاکستان نہیں چاہیئے، انہیں اقبال کا پاکستان نہیں چاہیئے، ان کا پاکستان ان کے مدارس و مساجد و مراکز کی طرح ہونا چاہیئے، جہاں فقط ان کی فقہ نافذ ہوتی ہے۔ کسی دوسرے کیلئے برداشت تو دور کی بات ہے، اس کا وجود ہی ناقابل برداشت ہوتا ہے۔

یہ لوگ اتنے ظالم ہیں کہ جو کھلے عام پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجاتا پھرے، پاکستان کو عالمی دشمنوں کی سازشوں کے تحت آگ و بارود کے  ڈھیر میں بدل دے، وہ بھی شہید کا درجہ پا سکتا ہے، جبکہ اس وطن پر جانیں قربان کرنے والے باوردی جوان اور آفیسرز کی ان ملک دشمنوں کے ہاتھوں المناک شہادت کو ہلاکت سے تعبیر کرتے ہیں۔ المیہ ہے کہ یہ لوگ آج ملک کے مالک و خود مختار اور طاقت کے مراکز میں رسائی حاصل کرچکے ہیں، ان کی مانی جاتی ہے، ان کے ہاتھوں میں ہی ملک کی نظریاتی باگ ڈور ہے۔ ان کیلئے ہی ڈیل اور ڈھیل ہے، یہ ہزاروں لوگوں کو شہید کرنے کے بعد بھی اپنے موقف ہی قائم رہتے ہوئے مذاکرات کی میز پر بڑے چوڑے ہو کر بیٹھتے ہیں، انہیں سنا جاتا ہے، انہیں معافی دی جاتی ہے، ان کے قاتلوں، دہشت گردوں، را اور اسرائیل کے ایجنٹ قرار دے کر جیلوں ڈالے جانے کے باوجود پروانہء رہائی تھمایا جاتا ہے۔

المیہ یہی ہے کہ طاقت کے مراکز کو اپنے قاتلوں سے پیار ہے۔۔ اس مملکت خداداد میں المیوں کی داستان بہت طویل ہے کہ جن کو سامنے لانے کیلئے چند اوراق ناکافی ہیں، شاید۔۔ مگر اس وقت دیکھا جائے تو اس دھرتی پر جب سیلاب جیسی آفت کی صورت میں ایک بڑا المیہ جنم لے چکا ہے، جس پر سیاست سے ہٹ کے ایک قوم کی صورت میں کام کرنے کی ضرورت تھی۔ موجودہ حکمرانوں نے اپنے چند ماہ کے اقتدار میں، جہاں سیلاب نہیں آیا، ان پر مہنگائی، بجلی بلز اور اشیائے خورد و نوش کی نایابی اور کم یابی کے جکھڑ چلا کر سیلاب سے بھی بڑی آفت نازل کر رکھی ہے۔ ڈالرز کی اونچی اڑان کا بہانہ اور بجلی بلوں میں ہوش ربا اضافہ سے ہر ایک کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ دوسری طرف حکمران اپنی اگلی نسلوں کا مستقبل سنوارنے، اپنے چند سال کے نقصانات کو سود سمیت پورا کرنے میں جت گئے ہیں۔

کرپشن کے مہا کیسز جن کے ایک عرصہ تک چرچے زبان زد عام و خواص تھے، ان سے جان چھڑوا رہے ہیں، بلکہ ایسا نظام احتساب لا رہے ہیں، جو چند روپوں کی کرپشن کرنے والوں کو تو جیل میں ڈال سکے گا، مگر کروڑوں کھانے والے کو کچھ نہیں کہہ سکے گا۔ واہ رے نظام انصاف، واہ رے اقتدار کے اصل مالکو، واہ رے اپنی مرضی سے تلٹ پلٹ کرنے والو، جب جسے چاہا اسے اتار دیا، جسے چاہا بٹھا دیا، کیا یہ مملکت ہے، جس کیلئے لاکھوں لوگ قربان ہوئے تھے۔؟ المیہ یہی ہے کہ مسند اقتدار پر براجمان اقتدار کے اندھے پجاریوں کو ملک دشمنوں سے گہرئ رغبت ہے۔ المیہ یہی ہے کہ اس ملک کو لوٹنے والوں، جنہیں جیلوں میں ڈالا جانا تھا کہ وہ گل سڑ جائیں اور ان کی نسلیں بھی عوام کی دولت، ملک کے وسائل ہڑپ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتے، ان سے ہی مفاہمت کا شور شرابہ ہے۔ المیہ یہی ہے کہ جن کی کرپشن، لوٹ مار اور ملک دشمنی ثابت کرنے کیلئے لاکھوں کروڑوں لگائے گئے، انہیں ریڈ کارپٹ استقبال سے نوازا جا رہا ہے۔

کیا یہ ملک ان شریفوں کیلئے بنایا گیا تھا کہ جنہیں تین بار مسند اقتدار پہنا کر اس کی باگ ڈور تھما دی گئی ہے، بس کر دیں، اب بہت ہوچکا یہ پتلی تماشا۔۔ کیا یہ مملکت خداداد کسی اسحاق ڈار کی ملکیت ہے، جس کی کرپشن اور لوت مار کی داستانیں عدالتی فورمز پہ، احتساب کے ایوانوں میں تھیں تو اسے بھگا دیا گیا اور اب خود جا کر لے آئے ہو۔ جس نے چار سال تک اپنا حلف تک نہیں اٹھایا کہ کرپشن کرکے بھاگا تھا۔۔ کیا اسحاق ڈار۔۔ یہ اسی استحقاق کا مستحق تھا۔؟ کیا یہ مملکت کسی زرداری کی ذاتی جاگیر ہے، جس پر کرپشن کیسز کی ایک ختم نہ ہونے والی سیریز ہے اور اس کو اب تک کسی کیس میں سزا نہیں دے سکے ہو، الٹا اسے اقتدار کا حصہ دار بنا کر مسلط کیا ہوا ہے، جس نے گذشتہ بارہ برس سے ایک صوبہ کو اپنے اقتدار سے تہس نہس کر دیا ہے۔۔

اس سے زیادہ مزید تباہی کیا ہوسکتی ہے، جو اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سڑکوں اور یہاں کے باسیوں کی ہوچکی ہے کہ گھر کے دروازوں پر لٹ جاتے ہیں۔ لوگ چار پانچ ہزار کے موبائل کیلئے ایک جیتے جاگتے انسان کو گولی مار کر چلے جاتے ہیں۔۔ مگر ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں، یہ چین کی نیند سوتے ہیں۔۔۔ خطرہ ہے تو اس ملک کو ہے، اس کے اقتدار اعلیٰ کو ہے، اس کے عوام کو ہے، جن سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔۔ کیا مملکت کسی فوجی طالع آزما کی ذاتی ملکیت ہے، جو جب چاہتا ہے، اقتدار کے ایوانوں میں تلٹ پلٹ کر دیتا ہے، جب جسے چاہتا ہے، میڈیا میں گندا کر دیا جاتا ہے، ثبوتوں کے انبار لگوا دیئے جاتے ہیں، احتساب کے ادارے اچھل کود کرتے ہیں، لوگوں کو امید دلائی جاتی ہے کہ کرپٹ عناصر کا اب کی بار خاتمہ ہو کر ہی رہیگا، اب جو آئے گا وہ ملک کیساتھ مخلص ہوگا، ایماندار ہوگا، اس کا دامن کرپشن کے داغوں سے صاف و شفاف ہوگا۔

لوگوں کی آنکھوں میں کچھ خواب سے دکھتے ہیں، کچھ روشن اور نیا سا پاکستان نظر آنے لگتا ہے کہ اب ان کرپٹ، لوٹ مار کرنے والے پینتیس برس سے مسلط جونکوں سے جان چھوٹ جائیگی، مگر کچھ ہی عرصہ یہ برداشت کیا جاتا ہے، اپنے ہی پسندیدہ، اپنے ہی تیار کردہ، اپنے ہی من پسند کو کسی بھی بہانہ سے اتار کر پھینک دیا جاتا ہے، اقتدار اس سے چھین لیا جاتا ہے، مسند پر وہی لا کر بٹھائے جاتے ہیں، جن کی ملک دشمنی اور لوٹ مار کی کہانیاں آپ سے سنتے سنتے کان پک گئے تھے۔۔ یہ کیا مذاق ہے اس مملکت خداداد کیساتھ۔ یہ المیہ پہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ خواب دکھانے اور انہیں کرچیوں میں بدلنے کے ماسوا کیا ہے جناب عالی۔؟ یہ ملک اب مزید کتنے المیوں سے دوچار ہوگا، کیا اس میں مزید سکت ہے، المیے برداشت کرنے کی۔ اس ملک کو اگر بچانا ہے تو اسے بانئی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ، افکار اور ویژن و فرمودات کی روشنی میں ہی بچایا جا سکتا ہے۔ خدا کیلئے کوئی تو آگے بڑھو، اس ملک کو بچانا ہے، اس ملک کو آگے لے کر جانا ہے، اس ملک کو المیوں سے نجات دلانی ہے، اس ملک کو جھوٹے خواب بیچنے والوں کی دستبرد سے نجات دلانا ہے۔۔ یہ ملک اب انقلاب کا متقاضی ہے۔۔


خبر کا کوڈ: 1016693

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1016693/المیوں-کی-سرزمین-اور-خواب-بیچنے-والے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org