1
Wednesday 28 Sep 2022 21:15

یوں لگتا ہے کہ لیکس کا سیزن چل رہا ہے

یوں لگتا ہے کہ لیکس کا سیزن چل رہا ہے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستانی معاشرے کی ساخت ایسی ہے، جہاں لیکس کا سلسلہ بہرحال چلتا رہتا ہے۔ ہر خاندان میں لیکس اڑانے والی یا والا پایا جاتا ہے۔ لوگ ایسے اصحابِ لیکس سے خاص تعلقات رکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں متوقع خاندانی معاملات کے بارے میں پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں۔ ذرا محلے کی سطح پر دیکھیں تو بھی کوئی مائی یا بابا ضرور ایسا ہوتا ہے، جو لیکس کا تھیلا لیے گھر گھر حاضر ہوتا ہے اور نکلتے ہوئے کوئی نہ کوئی لیک افشاء کر جاتا ہے۔ اکثر لیکس کا نتیجہ فساد اور کسی کی زندگی کو عذاب میں مبتلا کرنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ معاشرے میں خاندانی لڑائی جھگڑوں سے لے کر محلے کے لڑائی جھگڑوں میں ان لیکس کا اچھا خاصا کردار ہوتا ہے۔ ان اصحابِ لیکس کے نام ہمیشہ صحافیوں کے سورس کی طرح صیغہ راز میں رہتے ہیں اور فقط یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے بھی کچھ دوست ہیں، یا ہم بھی اسی محلے میں رہتے ہیں، ہم اتنے بھی بے خبر نہیں ہیں، ایچی بیچی کا علم رکھتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں زلزلہ برپا کر دینے والے پانامہ پیپرز بھی دراصل پانامہ لیکس ہی تھے۔ یہاں سے لیکس کا لفظ پاکسانی سیاست اور نیوز کا لازمی جزو بن گیا۔ اگر کوئی سوشل سائنسز کا ماہر اس پر تحقیق کرنا چاہے تو کرسکتا ہے کہ پاکستانی قوم پر یہ ذہنی تشدد کتنی کروڑ بار کیا گیا، جب پرائم ٹائم پر ان لیکس کا ڈھونڈورا پیٹا گیا۔ یہ لیکس اتنے خطرناک ثابت ہوئے کہ نواز شریف کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئے۔ ڈرتے ڈرتے عرض کیے دیتا ہوں، انہی نے ہمارے عدالتی نظام کو پاکستانی عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ یہ پیپرز ہی تھے، جو بچارے جج ارشد ملک کو کھا گئے، مگر جاتے جاتے وہ کچھ حقائق سے بہرحال پردہ اٹھا گیا۔ یہ انہی لیکس کی دین ہے کہ پاکستان کو عمران خان بطور حکمران نصیب ہوا۔ انہوں نے چار سال ہمارے ساتھ جو سلوک کیا، اس کے اثرات اگلی ایک دہائی تک پاکستانی سماج کی چولیں ہلاتے رہیں گے۔ سنا ہے کہ اب معیشت و معاشرت کو مقام بلند تک پہنچانے کے نئے نسخے آزمانے کے لیے دوبارہ میدان کار ساز سیاست میں ہیں۔

اہل وطن وزیراعظم ہاوس کی کالز کا یوں ریکارڈ کیا جانا اور پھر مارکیٹ میں آڈیو لیکس کا سیکنڈل بن جانا انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس سے ہماری سلامتی کے معاملات جڑے  ہیں۔ بہت عرصہ پہلے پاک فوج کے ایک افسر نے یہ بتایا تھا کہ ہم ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کیے بغیر بیرونی دنیا سے آنے والے آلات پر سکیورٹی کے لیے اعتبار نہیں کرسکتے۔ ہم یہ سوچ کر بیٹھے ہوں کہ ریڈار، توپیں یا یہ جہاز دشمن کے خلاف استعمال کریں گے اور وقت آنے پر ان سب کو ایسا کوڈ لگ جائے کہ یہ چلیں ہی نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں کافی دنوں تک ان کی بات سن کر حیرت میں مبتلا رہا تھا۔ آڈیو لیکس اگر ڈیوائس لگا کر ریکارڈ کی گئی ہیں تو بھی ہمارے اداروں کی بڑے نا اہلی ہے اور اگر فون ریکارڈ کیا گیا ہے تو متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

ہمارے اہل سیاست یا بہت چالاک ہیں یا بہت ہی سادہ ہیں۔ انہیں یہ بات معلوم ہی نہیں پڑ رہی کہ ایک دن ایک پارٹی کے خلاف آڈیو آتی ہے اور دوسری پارٹی سوشل میڈیا اور میڈیا پر چڑھائی کر دیتی ہے۔ صرف چوبیس گھنٹوں بعد دوسری پارٹی کی آڈیو آجاتی ہے، اب پہلی پارٹی والے حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ سیاسی قیادت اتنی بالغ نہیں ہوئی کہ یہ جان سکے کوئی انہیں فٹ بال کی طرح ککس لگا رہا ہے۔ سیاست اور شعور لازم و ملزوم ہے اور شعور کا تقاضا حکمت کا ہے، ہر چیز کو صرف اور صٖرف پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کرنا اور وقتی مفاد نکالنے کے لیے ایک دوسرے کو مسلسل ننگا کرتے رہنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا پورے نظام سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ آپ ووٹ نہ ڈالنے والوں کا سروے کر لیں، لوگ بہت سی وجوہات کی بنیاد پر ووٹ نہیں ڈالتے، مگر ایک بنیادی وجہ ان کا اس پورے نظام سے ہی اعتبار کر اٹھ جانا ہے۔

اگر جان کی امان پاوں تو عرض کروں کہ کارگل جنگ کے دوران جنرل پرویز مشرف چین کے دورے پر تھے اور ان کی کال نہ صرف ٹریس کی گئی بلکہ ریکارڈ کرکے ایک انڈین صحافی کے ذریعے وزیراعظم پاکستان کو اسلام آباد پہنچائی گئی۔ یہ کسی المیے سے کم نہ تھا کہ ہمارا سسٹم کیسے ہائی جیک کر لیا گیا۔؟ اسی طرح حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا بہت سے لوگوں کو اتنظار تھا کہ وہ چھپے اور سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب کو سمجھنے میں مدد ملے اور ہم وہ غلطیاں دوبارہ نہ کریں۔ وہ رپورٹ پاکستان سے پہلے انڈیا سے جاری کی گئی، اس پر ہمیں حساس ہو جانا چاہیئے تھا۔ چند سال پہلے لندن میں پاکستانی سفارتخانہ زیر تعمیر تھا، اس میں ایم آئی 6 نے جاسوسی کے آلات لگا دیئے، جن کا پتہ کافی عرصہ بعد چلا۔ یہ بات جہاں پرانے سامراج برطانیہ کی بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرنے کے جذبے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرتی ہے، وہیں ہمیں بھی بتاتی ہے کہ ہمارے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں۔

کسی نے درست لکھا کہ آج مجھے سمجھ آئی ہے کہ پاکستانی سیاستدان دبئی  میں میٹنگز کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ جب وزیراعظم ہاوس محفوظ نہیں ہے تو باقی کونسی جگہ محفوظ ہوگی۔؟ زرداری صاحب سے سہیل وڑائچ نے اپنے مخصوص انداز میں پوچھا تھا، کیا آپ کھل کر بات کرتے ہیں۔؟ زرداری صاحب نے کہا تھا کہ نہیں کرسکتے۔ اس پر سہیل وڑائچ نے دوبارہ پوچھا، کیا گھٹن نہیں ہوتی تو زرداری صاحب نے جواب دیا تھا مولائی اور گھٹن؟ سچ کہا تھا، مولائیوں کو گھٹن نہیں ہوتی۔ سچ یہ ہے کہ جس سماج میں اصل بات نہ کرسکیں اس میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری کرنسی افغانستان سے بھی نیچے گر گئی ہے۔ یاد رکھیں اگر اہل سیاست کو آگے بڑھنا ہے تو میثاق جمہوریت کی طرح کچھ ضابطے طے کرنا ہوں گے اور حدود کو متعین کرنا ہوگا، ورنہ روز اکھاڑا لگے گا اور سیاستدانوں کی حیثیت ایک اداکار کی سی ہوگی۔ آڈیو لیکس میں ملوث کرداروں کو بے نقاب کرنا ہوگا، انہیں قرار واقعی سزا دینی ہوگی اور اگر ایسا گیم کا حصہ ہے تو ہمیں ایسی گیم سمجھ میں نہیں آتی، جس کا نتیجہ قومی اداروں کا بے توقیر ہونا اور قومی قیادت کا بدنام ہونا ہو۔
خبر کا کوڈ : 1016694
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش