0
Thursday 29 Sep 2022 11:29

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(11)

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(11)
تحریر: محمد اشفاق شاکر
 
رات کا پتہ نہیں کون سا حصہ تھا، جب آنکھ کُھل گئی، بغیر وقت دیکھے غسل زیارت کی نیت سے مستحب غُسل کیا اور ہوٹل سے نکل کر حرمین کی طرف چل پڑا۔ باہر ہلکی ہلکی پھوار جاری تھی، جس کی وجہ سے فضا میں ہلکی ہلکی خنکی کا احساس بھی ہو رہا تھا اور جیسے جیسے آگے جا رہا تھا تو ٹھنڈ کا احساس کچھ زیادہ ہوتا جا رہا تھا، لیکن جب میں ٹلہ زینبیہ کے سامنے پہنچا تو یکدم ذہن اس جسمانی ٹھنڈک کو بھلا کر 61 ھجری کے اس ماحول میں جا پہنچا کہ جب آگ برساتی گرمی میں کھڑی تین دن سے پیاسی بہن اپنی آنکھوں کے سامنے صرف 70 قدم کے فاصلے سے اپنے تین دن کے پیاسے بھائی کو آخری سجدہ کرتے دیکھ رہی تھی۔ انہی سوچوں میں گُم حرم امام حسین علیہ السلام کے بابِ قبلہ کے سامنے رک کر سلام کا ایک جملہ السلام علیك یا ابا عبداللہ پڑھا اور آگے گزر گیا، کیونکہ میری منزل شہنشاہ وفا حضرت غازی عباس علمدار علیہ السلام کا حرم تھا۔ بین الحرمين سے گزر کر میں شہنشاہ وفا کے حرمِ مبارک کے اس دروازے پر پہنچا کہ جسے بابِ قبلہ کہتے ہیں۔

یاد رہے کہ جناب شہنشاہ وفا کے حرم مطہر کے 9 داخلی دروازے ہیں، جن میں سے ایک بابِ قبلہ ہے، دوسرے دروازے کو جو کہ بابِ قبلہ اور بین الحرمين کے درمیاں واقع ہے، اس کو بابِ امام حسن علیہ السلام کہتے ہیں، تیسرا اور چوتھا دروازہ دونوں بین الحرمين میں کھلتے ہیں، جن کو بالترتيب بابِ امام حُسین علیہ السلام اور بابِ صاحب الزمان (عجل اللہ ) کے نام دیئے گئے ہیں۔ پانچویں دروازے کو بابِ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا نام دیا گیا ہے، چھٹا دروازہ جو کہ باب قبلہ کے بالکل مخالف سمت میں ہے اور شاہراہ بغداد پر کھلتا ہے، اس کو باب امام جواد علیہ السلام کہتے ہیں جبکہ تین دروازے جو کہ بین الحرمين کی بالکل مخالف سمت میں شاہراہ علقمہ کی طرف کھلتے ہیں، ان کو بالترتيب بابِ امام ہادی علیہ السلام، بابِ فرات اور بابِ نجف کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
 
باب قبلہ سے اذنِ دخول کے بعد میں اس مقدس ضریح کی طرف بڑھ رہا تھا کہ جس کے نیچے محوِ آرام ہستی کو "باب الحوائج" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ضریح کے بالکل قریب پہنچ کر 2 رکعت نماز زیارت کے بعد سلام کے جملے ادا کیے اور پھر کسی نہ کسی طرح ضریح کا بوسہ لیا اور رات کا باقی حصہ دعا و مناجات کے ساتھ وہیں حرم میں گزارا۔ یہاں تک کہ فجر کی اذان بلند ہوئی، نماز فجر حرم میں ہی ادا کی، نماز کے بعد حرم کے اندر اس دفتر میں گیا، جہاں زائرین حرم کے لیے عطیات منتظمین کو دیتے ہیں۔ جس کے جواب میں منتظمین کی طرف سے زائرین کو حرم کے تبرکات میں سے کوئی نہ کوئی چیز تحفہ میں دیتے ہیں، جب میں اس دفتر میں گیا تو اتفاق یہ ہوا کہ میں اکیلا تھا، میں نے عطیات جمع کرانے، جواب میں مجھے چادر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا دیا جانے لگا تو میں نے اشاروں کی زبان میں گزارش کی کہ اگر ممکن ہو تو مجھے ان اتاری گئی چادروں میں سے ایک چادر دے دی جائے اور اس خادم نے کمالِ مہربانی سے میری خواہش کے مطابق مجھے وہ ایک چادر عنایت فرما دی۔
 
مولا غازی (ع) کے حرم سے باہر آیا تو دیکھا کہ بین الحرمين میں کچھ پاکستانی زائرین نوحہ خوانی میں مصروف تھے، ان کے ساتھ ماتم داری کے بعد بین الحرمين میں ہی بیٹھ کر کچھ دوستوں کا انتظار کرنے لگا کہ جو ابھی حرم غازی عباس (ع) میں ہی تھے۔ یاد رہے بین الحرمين جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، امام حسین علیہ السلام اور جناب غازی عباس علمدار علیہ السلام کے حرم کی درمیانی جگہ کو کہتے ہیں۔ بین الحرمين کی لمبائی تقریباً 350 سے 400 میٹر ہے، کہا جاتا ہے کہ پہلے اس جگہ پر مکانات اور دوسری تعمیرات تھیں، جنہیں بعد ازاں خرید کر منہدم کرکے اس جگہ کو زائرین کی آمد و رفت اور آرام وغیرہ کے لئے مخصوص کر دیا گیا۔ دوستوں کی آمد کے بعد بین الحرمين میں ہی ناشتہ کیا، جو کہ کچھ زائرین وہاں تقسیم کر رہے تھے۔
 
ناشتے سے فارغ ہو کر اب ہم حرم أمام حسین علیہ السلام کے کی جانب چلے۔ امام حسین علیہ السلام کے حرم مطہر کے دس داخلی دروازے ہیں، ہر دروازے کو ایک مخصوص نام دیا گیا ہے اور ہر دروازے پر امام علیہ السلام کو مختلف جملوں سے سلام پیش کیا گیا ہے۔ پہلا دروازہ جس کو حرم میں داخلے کا مرکزی دروازہ بھی کہہ سکتے ہیں کو بابِ قبلہ کا نام دیا گیا ہے، اس دروازے کے اوپر سلام کا جملہ لکھا ہوا ہے: "السلام علیك یا ابا عبداللہ"۔ اگر آپ بابِ قبلہ سے بین الحرمين کا رخ کریں تو دوسرا دروازہ ہے، جس کو "باب الرجاء" کا نام دیا گیا ہے، یعنی اُمیدِ کا دروازہ، اس دروازے پر امام حسین علیہ السلام کے حضور ان الفاظ میں سلام پیش کیا گیا ہے: "السلام علیك یا شفیع المذنبین"، "آپ پر سلام ہو اے گناہگاروں کو بخشوانے والے۔"
 
مجھے شبِ اربعین یہ سعادت نصیب ہوئی کہ میں اسی دروازے سے داخل ہوکر امام حسین علیہ السلام کی ضریح اقدس تک پہنچا تھا۔ حرم میں داخلے کے تیسرے دروازے کو "بابِ قاضی الحاجات" کہا جاتا ہے، یعنی وہ دروازہ جہاں حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ یہ دروازہ بین الحرمين میں کھلتا ہے، اس دروازے پر سلام کا یہ جملہ لکھا ہوا ہے
السلام علیك یا سید شباب اھل الجنہ "آپ پر سلام ہو اے جوانان جنت کے سردار" اور
چوتھے داخلی دروازے کو "باب الشھداء" کا نام دیا گیا ہے، یعنی شھداء کا دروازہ، یہ بھی بین الحرمين میں کھلتا ہے، اس دروازے پر امام حسین علیہ السلام کو سلام کے لیے یہ جملہ لکھا ہوا ہے "السلام علیک یا ابا شھداء" "سلام ہو آپ پر اے شہیدوں کے باپ۔  حرمِ امام حسین علیہ السلام کے پانچویں دروازے کو "باب الکرامہ" کہا جاتا ہے، یعنی عزت اور بزرگی والا دروازہ، اس دروازے پر ان لفظوں میں سلام پیش کیا گیا ہے
"السلام علیك یا بن زمزم و الصفا" "سلام ہو آپ پر اے زمزم و صفا کے فرزند۔
 
اس دروازے پر سلام کا یہ جملہ پڑھ کر امام سجاد علیہ السلام کا دربارِ یزید والا ایک خطبہ یاد آتا ہے، جس میں آپ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں فرزندِ زمزم و صفا ہوں۔ حرمِ سیدالشہداء علیہ السلام کے چھٹے دروازے کو "بابُ السلام" کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے سلامتی والا دروازہ، اس چھٹے دروازے پر امام حسین علیہ السلام کو ان الفاظ میں سلام پیش کیا گیا ہے، "السلام علیك یا خامسِ أصحاب الکساء"، "سلام ہو آپ پر اے أصحابِ کساء میں سے پانچویں۔" حرمِ مطہرِ امام حسین علیہ السلام کے ساتویں دروازے کو "بابِِ سدرہ" یعنی بیری کے درخت والا دروازہ کہا جاتا ہے. بتایا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں بیری کا ایک درخت ہوتا تھا، جس کے ذریعے سے زائرین اس مقام کی شناخت کرتے تھے، لیکن عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اس درخت کو کٹوا دیا تھا۔ اس ساتویں دروازے پر سلام کا جملہ لکھا ہوا ہے
"السلام علیک یا بن سدرۃ المنتہیٰ"، "سلام ہو آپ پر اے سدرۃ المنتہیٰ تک جانے والے کے فرزند۔" یعنی اس سلام میں آپ کو آپ کے جدِ امجد جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ معراج کی عظمت کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔
 
حرمِ امام علیہ السلام کے آٹھویں دروازے کو "بابُ السلطانیہ" کہتے ہیں، اس نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس دروازے کو ترکی کے کسی سلطان نے تعمیر کروایا تھا، اسی وجہ سے اس کو یہ نام دیا گیا ہے۔ اس دروازے پر امام (ع) کو ان الفاظ میں سلام پیش کیا گیا ہے: "السلام علیك یا امین اللہ و ابن امینہ"، "سلام ہو آپ پر اے اللہ کے امانت دار اور امانت دار کے فرزند۔" حرم کا نواں دروازہ "بابِ الراس الشريف" کہلاتا ہے۔ راس کا مطلب ہے "سر" اور دروازے کو یہ نام دینے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ یہ دروازہ امام حسین علیہ السلام کی قبرِ مبارک کے سرہانے کی طرف ہے، اس لیے اسے باب الراس شریف کا نام دیا گیا ہے۔باب الراس پر یوں سلام پیش کیا گیا ہے: "السلام علیك یا قتیل العبرات"، "سلام ہو آپ پر اے رُلا کر قتل کیے جانے والے۔"
 
حرم کے دسویں اور آخری داخلی دروازے کو "بابِ زینبیہ" کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ یہ دروازہ ٹلہ زینبیہ کے بالکل سامنے ہے اور ٹلہ زینبیہ امام حسین علیہ السلام کی مقتل گاہ سے 70 قدم کے فاصلے پر واقع وہ مقام ہے کہ جہاں پر کھڑے ہو کر جنابِ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے اپنے بھائی کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔ اسی مناسبت سے اس دروازے کو یہ نام دیا گیا ہے، اس دروازے "بابِ زینبیہ" پر سلام کا یہ جملہ لکھا ہوا ہے: "السلام علیك یا بن فاطمہ الزھرا"، "سلام ہو آپ پر اے سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے فرزند۔" ہم حرم کے مرکزی داخلی دروازے بابِ قبلہ سے داخل ہوئے، نماز زیارت ادا کی۔ ایک بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے حرم میں کم از کم چار زیارات پڑھی جاتی ہیں، جن میں سیدالشهداء کی زیارت کے ساتھ شہزادہ علی اکبر علیہ السلام، شہزادہ علی اصغر علیہ السلام، اور شھدائے کربلا کی اجتماعی زیارت اور چونکہ امام علیہ السلام کے گنبد کے نیچے ہی جناب حبیب ابنِ مظاہر رضی اللہ عنہ کی الگ ضریح ہے اور ساتھ ہی ایک امام زادے جناب ابراہیم مجاب کی بھی ضریح ہے، اس لیے ان دو ہستیوں کی زیارت کے لئے بھی الگ سے نمازِ زیارت پڑھ کر گنبدِ سید الشہداء کے نیچے آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1016727
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش