4
Friday 30 Sep 2022 03:38

اربعین واک۔۔۔ چند ذمہ داریاں اور ایک ہدیہ

اربعین واک۔۔۔ چند ذمہ داریاں اور ایک ہدیہ
تحریر: نذر حافی

حضرت امام حسینؑ ایک منفرد شخصیّت ہیں۔ جہانِ اسلام میں آپ کے اربعین یا چہلم کو ہی لیجئے۔ دنیا کا کوئی بھی پروگرام، ایونٹ یا تہوار کسی بھی پہلو سے آپ کے چہلم کی برابری نہیں کرسکتا۔ ایک تو تاریخی اعتبار سے یہ چہلم واقعہ کربلا جتنی ہی عمر رکھتا ہے اور دوسرے انتظامات کے حوالے سے یہ کسی حکومت، تنظیم یا ادارے کا مرہونِ منّت نہیں۔ تاریخ کے چودہ سو سالہ جبر کا سینہ چیرتے ہوئے یہ چہلم آج ایک پُرشکوہ دینی تہوار میں بدل چکا ہے۔ یکم صفر المظفر سے ہی عراق میں دسترخوان بچھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بیس صفر کی تاریخ نزدیک آنے لگتی ہے تو عراق کا سماں ہی ناقابلِ بیان ہوتا ہے۔ چودہ صفر المظفر سے تو پوری شدّ و مد کے ساتھ عراقی لوگ بطورِ میزبان اپنے گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ یوں عراق کا ہر گھر میزبانی کیلئے تیار ہی نہیں بے قرار بھی ہوتا ہے۔

سڑکوں کے دونوں طرف حضرت امام حسینؑ کا لنگر تقسیم ہو رہا ہوتا ہے۔ پاکستانی چائے سے لے کر دنیا کی لذیذ ترین غذائیں وافر مقدار میں موجود ہوتی ہیں۔ جیسے ہی آپ تھک جائیں تو دائیں یا بائیں دیکھیں، عراقی جوان آپ کے پاوں دبانے کیلئے دست بستہ کھڑے نظر آئیں گے۔ آپ کو سردرد ہے، بدن میں تکلیف ہے، شوگر کا ٹیسٹ کروانا ہے یا پھر کسی بھی وجہ سے طبیعت خراب ہے تو قدم قدم پر بہترین ڈاکٹر آپ کے معالجے کیلئے موجود ہیں۔ آپ کو نیند آرہی ہے تو اپنے آگے یا پیچھے چلتے ہوئے کسی بھی عراقی سے کہیں، اُسے اشارے سے ہی سمجھا دیں، پھر آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں، وہ آپ کو وہیں کسی نزدیکی گھر میں لے جائے گا۔ صرف گھر نہیں، بہترین اور گرم غذا، چائے و  قہوہ، شربت و شیرینی، انٹرنیٹ یہانتک کہ عراقی  ضِد کرکے آپ کے کپڑے بھی خود دھوئیں گے اور استری بھی کرکے دیں گے۔

آپ کی تھکاوٹ اتر جائے تو آپ کو پریشانی کی ضرورت نہیں۔ صاحبِ خانہ چاہے اپنی گاڑی لائے یا کرائے پر منگوائے، وہ آپ کو آپ کے قافلے یا مطلوبہ مقام تک چھوڑ کر آئے گا۔ یہ ایک ایسا سفر ہے کہ جہاں لاکھوں و کروڑوں مہمانوں کی شایانِ شان طریقے سے میزبانی کی جاتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی اتنے بڑے پیمانے پر اتنے خلوص کے ساتھ میزبانی کی ایسی مثال مِلنا ناممکن ہے۔ یہ عظیم الشّان میزبانی زُبانِ حال سے یہ پیغام دے رہی ہوتی ہے کہ ان مہمانوں کا حقیقی میزبان زندہ ہے۔ عراق میں بچھا ہوا یہ وسیع و عریض دسترخوان جہاں ایک معجزہ ہے، وہیں اسلامی تہذیب و تمدّن اور ثقافتی ورثے کا لاجواب شہکار بھی ہے۔

اربعینِ حسینی ؑ کے موقع پر ساری دنیا کربلا کی طرف ہجرت کر رہی ہوتی ہے۔ لوگ اپنے گھربار، نوکریاں، تجارت اور مصروفیات چھوڑ کر کربلا روانہ ہو جاتے ہیں۔ یہ مادی دنیا سے معنویّت اور روحانیّت کی طرف سب سے بڑی اور مسلسل ہجرت ہے۔ کوئی کالے و گورے، ذات پات، برادری و نسل، فرقے اور مسلک کا فرق نہیں۔ نجف سے کربلا تک انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ سب قدم ایک ہی طرف اور سارے دل ایک ہی سمت رواں ہوتے ہیں۔ زبانوں پر ایک ہی ذکر ہوتا ہے "سلام یا حسین ؑ " اور دلوں میں ایک ہی تسبیح ہوتی ہے کہ خدایا تیرا شکر کہ تو نے ہمیں مادیات سے معنویات کی طرف اس ہجرت میں شامل ہونے کی سعادت عطا کی۔

اربعین واک میں شمولیت جہاں ایک بہت بڑی سعادت ہے، وہیں یہ ہماری گردنوں پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہے۔ ان ذمہ داریوں میں سے چند ایک کا ذکر ہم کئے دیتے ہیں:
1۔ اربعین واک کی معنویّت کو اوّل وقت نماز، نوحہ خوانی و عزاداری، زیارت اربعین، زیارت عاشورہ، حُزن و ملال۔۔۔ کے ساتھ محفوظ رکھا جائے۔ واک کے دوران بھکاریوں اور نوسربازوں پر خصوصی نگاہ رکھی جائے اور انہیں متعلقہ اداروں کے حوالے کیا جائے۔
2۔ واک یا مشی کے دوران کوڑے کرکٹ اور کچرے کو خسدان میں پھینکا جائے۔ جہاں پر بھی ٹھہریں یا آرام کریں تو کچھ وقت وہاں کی صفائی و ستھرائی کیلئے بھی وقف کریں۔
3۔ زائرین کو سہولیات فراہم کرنے میں اپنا انفرادی حصّہ بھی ضرور ڈالیں، مثلاً کسی کا بیگ اٹھا لیا یا کسی کو وائی فائی دے دیا، کسی کو نزدیکی امامزادے، مسجد، موکب یا استراحتی مقام کا پتہ بتا دیا۔ اسی طرح ہر آدمی اپنے شعبے یا پروفیشن کے اعتبار سے کسی زائر کی جو مدد یا رہنمائی اپنے طور پر کر سکتا ہے، وہ ذہنی طور پر اُس کیلئے آمادہ ہو۔

4۔ تکراری خدمات سے اجتناب ضروری ہے۔ جو لوگ رضاکارانہ طور پر کیمپ لگاتے ہیں، وہ ایسے کاموں کا انتخاب کریں، جو تکراری نہ ہوں۔ مثلاً بریانی، قہوہ اور دوائیاں وغیرہ تو وہاں دستیاب ہوتی ہیں، لیکن اس مرتبہ اردو زبان کے زائرین کیلئے تلاشِ گمشدگان ایک بڑا مسئلہ تھا۔ ایسے مواقع پر لوگوں کو حوصلہ دینا، اُن کے عزیزوں کو تلاش کرنے میں ان کی مدد کرنا اور تلاشِ گمشدگان کے ادارے میں ان کا اندراج کرانا یہ سب امور انجام دینے کیلئے کسی اچھی ٹیم کی ضرورت تھی۔
5۔ ان لاکھوں و کروڑوں انسانوں میں ہر طرح اور ہر زبان کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ مبلغین کو یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیئے اور اربعین واک کے حوالے سے بہترین تبلیغی منصوبہ بندی بھی کی جانی چاہیئے۔
6۔ یہ دنیا کا عظیم الشّان انسانی اجتماع ہے۔ اس اجتماع کے ذریعے باآسانی رائے عامہ کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔ آئندہ چند سالوں میں اس حوالے سے اس اجتماع کی اہمیّت مزید بڑھ جائے گی۔ چنانچہ ہمیں اس عظیم الشّان انسانی اجتماع کی وساطت سے دنیا کو کیا پیغام دینا ہے، اس حوالے سے بھی غوروخوض کی ضرورت ہے۔

7۔ سب سے اہم بات جو ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہیئے، وہ یہ ہے کہ اس عظیم الشّان دینی اجتماع کو منافع پرست حضرات اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال نہ کریں۔ اس کی ایک واضح مثال یہ دیتا چلوں کہ حکومتِ ایران نے اس مرتبہ ٹرانسپورٹرز کی مانیٹرنگ کا سخت بندوبست کیا تھا۔ بعض مقامات پر راستے میں متعلقہ ادارے کے لوگ گاڑیاں روک کر سواریوں سے پوچھتے تھے کہ کسی زائر سے زیادہ کرایہ تو نہیں لیا گیا۔ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ کچھ پاکستانی حضرات ہی ان ایرانی ٹرانسپورٹرز کیلئے ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ سواریوں سے ڈبل و ٹرپل کرایہ وصول کیا جاتا تھا اور راستے میں ڈرائیور لوگوں کو کہہ دیتا تھا کہ اگر سرکاری اہلکاروں کو یہ بتایا کہ ہم نے کرایہ زیادہ لیا ہے تو پھرادھر ہی آپ کو اتار دیں گے۔ زائرین کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے اُنہیں لوٹنا اور پھر اس لوٹ مار پر خواص کا خاموش رہنا یہ انتہائی افسوسناک امر ہے۔

پاکستان کے جو لوگ ایسے دھندوں میں  ملوث ہیں، انہیں متوجہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے پہلے بھی چند لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات کیلئے عراق میں جا کر غیر قانونی طور پر رہنا اور کام کرنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے سینکڑوں پاکستانی زائرین کو اس مرتبہ زیارت سے محروم ہونا پڑا۔ اسی طرح اب جو پاکستانی ایران میں ٹرانسپورٹرز کو ڈبل ٹرپل کرایہ لینے کا راستہ دکھا رہے ہیں، یہ مستقبل میں زائرین کیلئے مزید مسائل پیدا کریں گے۔ ایسے چند مفاد پرست عناصر کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی بھی بدنامی ہوتی ہے۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران حکومت زائرین کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کرائے مہنگے کروا رہی ہے۔ اربعین کی حُرمت اور ایران میں اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کے تقدّس کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہم سب کی شرعی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔

آخر میں یہ عرض کرتے چلیں کہ ہر مسافر جب واپس اپنے گھر پلٹتا ہے تو اپنے ہمراہ کوئی ہدیہ بھی لے کر آتا ہے۔ اربعین واک سے پلٹنے والے زائرین بھی کوئی نہ کوئی ہدیہ اپنے چاہنے والوں کیلئے ضرور لے کر جائیں گے۔ تاہم ہدیے کے حوالے سے ہمارا بھی ایک مشورہ ہے۔ مشورہ یہ ہے کہ اربعین واک کے موقع پر ہم نے انسانی ہمدردی، ایثار، خلوص، امدادِ باہمی، مہمان نوازی، شفقت، بھائی چارے اور احساسِ ذمہ داری کے جو مظاہر دیکھے ہیں، اُنہیں اپنے ساتھ، اپنے دِل میں اتار کر اپنے وطن میں واپس لائیں۔ کربلا سے واپسی پر اپنے ہم وطنوں کیلئے ہماری طرف سے اربعین واک کا ہدیہ یہی ہونا چاہیئے کہ ہم نے مادیّات سے معنویات کی طرف جو ہجرت کی ہے، اُس کے آثار ہمارے افعال و کردار سے ظاہر ہوں۔
خبر کا کوڈ : 1016886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش