0
Friday 30 Sep 2022 09:41

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(12)

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(12)
تحریر: محمد اشفاق شاکر
 
نماز زیارت ادا کرنے اور زیارت پڑھنے کے بعد جب ہم گنبد کے نیچے پہنچے کہ روایاتِ معصومین علیھم السلام میں جس کنبد کی بیان کردہ بےشمار فضیلتوں میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ ہے کہ اس گنبد کے نیچے جو بھی دعا مانگی جائے، وہ قبول ہوتی ہے تو عجیب منظر تھا کہ اب حسین مولا کو پُرسہ دیں یا کچھ مانگیں، بھلا ماتم والے گھروں سے بھی کبھی کوئی مانگتا ہے اور اگر کچھ مانگنے کا ارادہ بھی کریں تو کیا مانگیں، جو اتنے بڑے آقا شایان شان بھی ہو، کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک گزارش یہی کر دی کہ مولا اس کی یہ حاضری آخری حاضری نہ ہو بلکہ پھر بھی اپنے در تک بُلاتے رہنا اور پھر بس فقط اپنے مولا امام حسین علیہ السلام کی ضریح پاک کا بوسہ لے کر بہت دیر تک ضریح کے نیچے اپنے دو شہزادوں جناب علی اکبر اور شہزادہ علی اصغر کے ساتھ مدفون شدید زخمی امام کو سوچتا رہا اور میری نظروں میں 61 ھجری کے وہ لمحات گھومتے رہے کہ جب ساقیء کوثر کا نواسہ اپنے چھ ماہ کے تین روز سے بھوکے پیاسے بچے کے لیے پانی مانگ رہے تھے اور پانی بھی کتنا۔۔۔۔؟ چھ ماہ کے بچے کو کتنا پانی درکار ہوتا ہے، اپنے ہی آزاد نظم نما کچھ فقرے ذہن میں گھوم گئے، نظم نما اس لیے کہ میں کوئی شاعر تو ہوں نہیں۔
 
                                "پیاس"
                         کسی معصوم بچے کو
                         پیاس جب ستاتی ہے
                         وہ روتا اور چلاتا ہے
                         تو ماں اپنی پوروں کو
                        پانی میں بھگوتی ہے
                        ان پوروں سے چند قطرے
                        بچے کے منہ میں جاتے ہیں
                         پیاس ختم ہو جاتی ہے
                         بچہ خوش ہو جاتا ہے
                         یہ دیکھ کے اکثر سوچتا ہوں
                         اور سوچ سوچ کے روتا ہوں
                         کہ ٹھاٹھیں مارتے دریا سے
                        حسین (ع) کے ننھے اصغر کو
                        کتنا پانی چاہیے تھا

جب آپ باب قبلہ سے داخل ہو کر امام حسین علیہ السلام کی ضریح پر پہنچتے ہیں تو آپ کے دائیں طرف ایک شھدائے کربلا کی اجتماعی ضریح ہے، جو شھدائے کربلا کی اجتماعی قبر پر بنائی گئی ہے اور سوائے چند محدود شھداء کے جن میں جناب غازی عباس علمدار (ع)، جنابِ حبیب ابنِ مظاہر (ع)، جناب عون بن عبداللہ (ع)، جناب بکر بن علی (ع)، جنابِ حُر (ع) شامل کہ جن کی الگ قبور ہیں، باقی تمام شھداء اسی اجتماعی ضریح کے نیچے دفن ہیں، اس ضریح کے بالکل سامنے یعنی امام حسین علیہ السلام کی سر مبارک کی طرف والے ستون کے ساتھ ہی جناب حبیب ابن مظاہر (ع) کی ضریح ہے، جناب حبیب ابن مظاہر (ع) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کے انتہائی خواص اصحاب میں سے تھے، آپ کا شمار بھی جناب میثم تمار اور جناب رُشید ھُجری کی طرح ان لوگوں میں ہوتا ہے کہ جن کو امیرالمومنین علی علیہ السلام نے علم و حکمت کہ وہ اسرار و رموز عطا کیے تھے کہ عقلِ انسانی حیران رہ جاتی ہے۔
 
تاریخ کے اوراق میں ایک واقعہ محفوظ ہے کہ ایک بار جناب حبیب ابن مظاہر اور حضرت میثم تمار رضی اللہ عنھما کوفے کے بازار سے گزرتے ہوئے آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ جناب حبیب نے کہا کہ اے میثم اسوقت تمھاری حالت کیا ہوگی کہ جب محبتِ امیرالمومنین علی علیہ السلام میں تیرے ہاتھ پاؤں قطع کرکے اور زبان کاٹ کر تجھے فلاں کھجور کے درخت پر سولی پر چڑھایا جائے گا تو جناب میثم نے کہا حبیب تو کیا کرے گا، اس وقت کہ جب فرزندِ رسول کی نصرت میں تیری داڑھی تیرے سر کے خون سے رنگین ہو جائے گی، اس قسم کی باتیں کرتے گزر گئے کہ کچھ وقت کے بعد جناب رشید ھجری آئے لوگوں سے پوچھا کہ یہاں حبیب اور میثم تو نہیں آئے تو لوگوں نے بتایا کہ اس قسم کی عجیب عجیب باتیں کرتے آگے نکل گئے ہیں تو جناب رُشید ھجری نے فوراً کہا پھر کیا میثم یہ بتانا بھول گئے کہ حبیب کا سر کوفہ لانے والے کو 100 درہم انعام دیا جائے گا۔
 
جناب حبیب کی ضریح کے ساتھ ہی باب زینبیہ کے بالکل سامنے امام کی مقتل گاہ ہے، ان دونوں مقامات کے بوسے کا شرف لینے کے بعد ہم ان کے بالکل سامنے یعنی امام حسین علیہ السلام کی ضریح کے سر مبارک کے ہی طرف ایک اور ضریح ہے، جو کہ امام زادے سید ابراهيم مجاب علیہ السلام کی قبر پر بنائی گئی ہے۔ جناب سید ابراهيم مجاب حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے پوتے تھے اور آپ کے والد کا نام سید محمد عابد تھا۔ آپ غالباً کاظمی سادات میں سے پہلے تھے، جنہوں نے اپنے والدین سمیت کربلا میں سکونت اختیار کی۔ سید ابراہیم مجاب دن کو محنت مزدوری کرتے تھے اور تھکاوٹ کے باوجود حرم أمام حسین علیہ السلام میں ایسے حاضری دیتے کہ ایک شبِ جمعہ اپنے ضعیف والد کو اپنی پشت پر اُٹھا کر حرمِ امام میں زیارتِ کے لیے لاتے تو دوسری شبِ جمعہ اپنی ضعیف والدہ کو زیارت کے لئے لاتے، ایک بار شبِ جمعہ اپنے والد کو اُٹھا کر حرم میں زیارتِ کے لیے لائے اور جب واپس گھر پہنچے تو ماں نے کہا بیٹا مجھے نہیں لگتا کہ میں شبِ جمعہ تک زندہ رہوں، اس لیے مجھے آج ہی حرم میں لے جا، تاکہ فرزندِ زہرا (ع) کی زیارت کر لوں۔

سید ابراهيم نے بغیر تھکاوٹ کی پرواہ کیے اپنی والدہ کو اُٹھایا اور حرم لے گئے، لیکن اب جب سلام کے لیے بلند آواز میں پکارا السلام علیك یا ابا عبداللہ تو فوراً جواب کہ وعلیکم اسلام یا بنیہ اے میرے بیٹے تجھ پر بھی سلام ہو، اے میرے بیٹے اور اس کے بعد تو یہ معمول بن گیا کہ جب بھی شبِ جمعہ سید ابراهيم زیارت کے لیے جاتے اور سلام کرتے تو جواب ملتا حتی کہ سید ابراہیم کو مجاب کہہ کر پکارا جانے لگا، یعنی وہ جس کو جواب ملتا ہے اور یہ بات لوگوں میں اتنی مشہور ہوگئی کہ ہر شب جمعہ لوگ جوق در جوق حرم میں آتے کہ ابراہیم مجاب کو سلام کا جواب ملے گا تو ہم اپنے مولا کی آواز سنیں گے، ان سید ابراهيم مجاب کی ضریح اقدس کا بوسہ لیا اور حرم سے باہر آگئے۔

حرم سے باہر آئے تو بابِ زینبیہ کے پاس اس مقام پر رُک گئے کہ جہاں ٹلہ زینبیہ کے مقام کی تعمیر نو جاری تھی، اس لیے صرف اس نقشے کو دیکھ کر سلام ہی کیا جاسکتا تھا کہ جو وہاں پر آویزاں کر دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس سال 2018ء میں حرم مطہر سیدالشهداء کے گرد و نواح میں توسیع کا کام انتہائی تیزی سے جاری تھا، ٹلہ زینبیہ اور خیمہ گاہ حسینی کے درمیان اور شاہراہ شھداء سے بابِ قبلہ سے ذرا پہلے تک زیر زمین تعمیرات کے لیے انتہائی گہری اور وسیع کھدائی کا کام جاری تھا۔ ٹلہ زینبیہ کے سامنے مصروف سلام تھے کہ رات سے جاری پھوار بارش میں بدلنا شروع ہوگئی تو ہم نے ہوٹل کا رُخ کیا، چونکہ رات کے کسی نامعلوم پہر سے جاگ رہا تھا، اس لیے نماز ظہرین کے اول وقت سے پہلے کا الارم سیٹ کرکے سو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1016887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش