0
Sunday 2 Oct 2022 17:20

جام اور بزنجو کی صلح سے فائدہ یا نقصان؟

جام اور بزنجو کی صلح سے فائدہ یا نقصان؟
تحریر: اعجاز علی

گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان سے ملاقات کی۔ ان دونوں نے نہ صرف سیاسی امور اور پارٹی کے معاملات پر گفتگو کی بلکہ وزیراعلیٰ نے ماضی کی غلطیوں پر جام کمال خان سے معافی بھی مانگی۔ دونوں رہنماء طویل عرصہ سے ایک دوسرے سے ناراض تھے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ان دونوں کی کیمسٹری کچھ بہتر کام کرتی نظر نہیں آئی۔ تاہم بند کمرے میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد وہ دونوں ہی مطمئن نظر آرہے تھے۔ یہ ملاقات مختلف وجوہات کے باعث اہمیت کا حامل بنی اور میڈیا میں اسے کافی جگہ بھی ملی۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے دونوں رہنماء 2018ء کے الیکشنز کے بعد ہی ایک دوسرے سے وقتاً فوقتاً خفاء رہا کرتے تھے۔ جام کمال خان اور عبدالقدوس بزنجو دونوں ہی صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد پارٹی نے جام کمال خان کو صوبے کا وزیراعلیٰ بنایا اور سینئیر رہنماء ہونے کی حیثیت سے عبدالقدوس بزنجو صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی نشست پر بیٹھ گئے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ 2018 کے انتخابات سے قبل عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے۔ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نون لیگ کے ثناء اللہ زہری کی حکومت کو گرایا تھا اور انتخابات سے قبل چند مہینے ہی وزارت اعلیٰ کے منصب پر رہ سکے۔

جام کمال خان کے دور میں وزیراعلیٰ کو نہ صرف حزب اختلاف کی جانب سے کڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا، بلکہ انہی کی جماعت بی اے پی کے وزراء اور اسپیکر بھی متعدد بار ان سے نالاں نظر آئے۔ بلآخر اپوزیشن اور حکمران جماعت کے بعض اراکین نے مل کر جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔ ووٹنگ سے پہلے ہی جام کمال خان کو اپنی شکست نظر آئی، تو انہوں نے استعفیٰ دینے کو ترجیح دی۔ اس کے بعد عبدالقدوس بزنجو نے اسپیکر شپ سے استعفیٰ دیا اور صوبے کا وزیراعلیٰ بن کر انتظامات سنبھالنا شروع کئے۔

قدوس بزنجو دور کی انوکھی بات یہ تھی کہ انکے دور حکومت میں اپوزیشن بھی حکومت کی حمایت میں تھی اور حکمران پارٹی بی اے پی کے بعض اراکین خود ہی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ہی جماعت کے وزیراعلیٰ پر تنقید کر رہے تھے۔ وزیراعلیٰ نے اس تاریخی کردار ادا کرنے والی اپوزیشن کو 'فرینڈلی اپوزیشن' کا خطاب دیا۔ فرینڈلی اپوزیشن کا ایک اور تاریخ ساز کارنامہ یہ بھی تھا کہ جب بی اے پی کے جام کمال خان وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے کر آئے تھے، تو اپوزیشن نے ہی صوبائی حکومت بچائی تھی۔

حال ہی میں سیلاب کے بعد یکساں توجہ نہ دینے پر بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض اراکین کی جانب سے ایک بار پھر شور اٹھا ہے۔ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو حکومت بچانے کیلئے پھر فعال ہوگئے ہیں۔ اس بار انہوں نے اپوزیشن کو باقاعدہ طور پر حکومت میں آنے کی دعوت دی۔ وزیراعلیٰ نے جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں صوبائی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دے دی۔ اپنی پوزیشن مضبوط پاکر جے یو آئی نے بعض ایسے مطالبات رکھے۔ جنہیں پورا کرنا عبدالقدوس بزنجو کیلئے نہایت دشوار ثابت ہوا۔ وزیراعلیٰ اور بی این پی کے درمیان ملاقات کی تفصیلات تو سامنے نہیں آئی، تاہم بی این پی کے سربراہ اختر مینگل کے اخباری بیانات عبدالقدوس بزنجو کے حق میں نہیں تھے۔

عبدالقدوس بزنجو نے اس موقع پر اپنی ہی جماعت میں اختلافات ختم کرنے کو ترجیح دی۔ جام کمال خان سے ملاقات کا اہتمام بھی اسی لئے کیا گیا تھا۔ ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ماضی کو ماضی میں ہی چھوڑ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ انہوں نے بعض غلطیوں پر جام کمال سے معافی مانگی۔ جام کمال ان سے بڑے ہیں، انہیں اعتماد میں لینا چاہیئے تھا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگرچہ پارٹی کی قیادت میرے پاس ہے، مگر اختیارات جام کمال خان کے پاس ہی رہیں گے۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی عبدالقدوس بزنجو کیلئے اچھے الفاظ استعمال کئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ قدوس بزنجو پہلے ہی مجھ سے ملنا چاہتے تھے، مگر انہیں فوری لسبیلہ جانا پڑا تھا، اس کے بعد سیلاب کی صورتحال پیدا ہوئی اور انکی ملاقات نہ ہو سکی۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان صلح تو ہوگئی، مگر حزب اختلاف کی جماعتیں جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی اس صلح سے کچھ خوش نظر نہیں آرہی ہیں۔ دونوں جماعتیں دراصل جام کمال خان کے خلاف ہیں۔ اسی لئے جب جام کمال خان کی حکومت تھی، تب اپوزیشن اچھا کردار ادا کر رہی تھی۔ مگر قدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنے تو دونوں جماعتیں فرینڈلی اپوزیشن بن گئیں۔ اب جام کمال حکومت کے ساتھ ہیں، تو جے یو آئی اور بی این پی فرینڈلی اپوزیشن کے نام پر بننے والی دیوار کو توڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اب جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء سر جوڑ کر یہ سوچ رہے ہیں کہ حکومت کے خلاف کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے جبکہ حکومت کے اتحادی یہ سوچ رہے ہیں کہ جام کمال اور عبدالقدوس بزنجو کی ناراضگی دور ہونے سے حکومت کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔
خبر کا کوڈ : 1017251
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش