1
0
Tuesday 4 Oct 2022 15:03

ایران مظاہرے، الٹی ہوگئی سب تدبریں

ایران مظاہرے، الٹی ہوگئی سب تدبریں
تحریر: سید تنویر حیدر
 
بے پردہ کل جو آٸیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

حال ہی میں ایرانی خواتین کے ایک گروہ نے سرعام بے حجابی کا علم بلند کرکے تمام عالم مغرب اور مسلم دنیا کے ایک خاص طبقے کی توجہ اپنی جانب کھینچنے کی جس طرح کی کوشش کی، اس حوالے سے  مغربی ذراٸع ابلاغ اور ایران مخالف میڈیا، خاص طور پر اسراٸیلی میڈیا ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اندازے کی غلطی کر بیٹھا اور یہ سمجھنے لگا کہ شاید ایران کی عوام ایک مسلم ملک میں اسلامی قوانین سے برگشتہ ہوچکی ہے اور انقلاب کا سفرِ معکوس شروع ہوگیا ہے۔ گویا وہ ایران کیساتھ ساتھ ایران کے اسلامی قوانین کی ناکامی کی بھی آس لگاٸے بیٹھے تھے۔ لیکن ”پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاٸے گا“  کے مصداق خدا کے بناٸے ہوئے قوانین کیخلاف علم بغاوت بلند کرنیوالے شاید یہ بھول گئے تھے کہ خدا اپنے بندوں کے ذریعے سے جس طرح اس سے قبل بھی اس طرح کی فتنہ گری کو واپس ان پر ہی لوٹا چکا ہے، اب بھی وہ فتنے کی اس آگ کو نمرود کی بھڑکاٸی ہوٸی آگ کی طرح ان ہی کا مقدر بنائے گا جو اس کو دہکانے اور بھڑکانے والے ہیں۔

چنانچہ یہی ہوا اور ایران کی عفت مآب اور باحیا خواتین سیاہ چادروں میں ملبوس ایران کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں اس طرح پھیل گئیں، جسے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے ایران کے ہر شہر کی شاہراہیں کسی ایک ہی سیاہ چادر میں لپٹی ہوٸی ہیں۔ ایک طرف جہاں چشم بینا رکھنے والے صاحبان نظر اس سیاہ سمندر کی پرجوش اور مضطرب لہروں کا اپنی دیکھتی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے تھے، وہاں دوسری جانب اس سمندر کو  دیکھ کر کور چشم مغربی میڈیا اور ان کو فالو کرنیوالے پاکستانی میڈیا کی آنکھوں پر اندھیرا چھایا ہوا تھا یا پھر یہ سب کچھ دیکھ کر بھی انہوں نے ایسے ظاہر کیا جیسے انہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ ایران میں جس طرح سے اچانک اس فتنے کو اٹھایا گیا اور پھر اسے ابھارا گیا اور اس کے فوری بعد ہی ایران کی غیرت مند قوم نے جو اس کا ردعمل دکھایا اس سے نہ صرف یہ سازش اپنی موت آپ مرگئی بلکہ بے حجابی کو فروغ دینے والے خود بے حجاب اور بے نقاب ہو کر رہ گئے۔ نہ صرف بے نقاب ہوٸے بلکہ انقلاب اسلامی کے نتیجے میں قاٸم ہونیوالی حکومت کو اور مضبوط کرگئے۔

اس بار جس طرح ایرانی پردہ دار خواتین بے حجابی کے مقابلے میدان عمل میں وارد ہوٸیں اس نے نظم و ضبط اور افرادی قوت کے لحاظ سے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور دنیا بھر کی باحجاب خواتین کو ایک نیا ولولہ اور حوصلہ دیا۔ ایران کے حالات کا درست تجزیہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو  1979ء میں کامیاب ہونے والے انقلاب سے اب تک کے واقعات کو اپنی آنکھوں پر مسلط مغرب کی عینک کی بجاٸے اپنی آزاد نظروں سے دیکھتے آئے ہیں۔ یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہیئے کہ ایران میں اسلامی حکومت کا قیام پرامن طریقے سے نہیں ہوا تھا بلکہ یہ حکومت دو گروہوں کے مابین باقاعدہ مسلح تصادم کے ذریعے معرض وجود میں آٸی۔ جس میں ایک گروہ جو اکثریت میں تھا وہ غالب رہا اور  امام خمینیؒ کی قیادت میں ایک اسلامی حکومت کے پرچم تلے آگیا جب کہ دوسرا گروہ جسے مغربی طاقتوں اور خاص طور پر امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی، ناکام رہا۔

اب یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب مخالف مغرب پرست اور شاہ پرست طبقے کو زمیں نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ یقیناً ایسا نہیں۔ اس طبقے کی باقیات ایک زندہ حقیقت کی طرح آج بھی موجود ہیں۔ اگرچہ کچھ افراد نے اپنی اصلاح کرلی اور کچھ لوگ مغربی ممالک کی طرف فرار کرگئے لیکن ان سے ہمدردی رکھنے والے آج بھی ایران میں خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ مغرب میں قیام پذیر انقلاب مخالف فراری طبقہ اگر ایران میں اسلامی نظام کیخلاف کوٸی بات کرتا ہے تو سادہ لوح افراد یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ مادر پدر آزاد لوگ ایران کے اکثریتی طبقے کی نماٸندگی کرتے ہیں۔ امریکہ، اسراٸیل اور مغربی طاقتوں کا حمایت یافتہ یہ فتنہ پرداز گروہ گاہے گاہے مختلف بہانوں سے ایران کی سڑکوں پر اپنے دل کا غبار نکالتا رہتا ہے اور آخرکار خالی غبارے کی طرح سکڑ کر رہ جاتا ہے۔ ایران میں بعض مخصوص علاقے ایسے بھی ہیں جو آج بھی مغرب پرستوں کا گڑھ مانے جاتے ہیں۔ ان علاقوں کا اگر دورہ کی جائے تو یہاں الٹا یہ احساس ہوتا ہے کہ حکومت نے یہاں کے رہنے والوں کو بہت ڈھیل دی ہوٸی ہے۔

مغربی ذراٸع ابلاغ کے نماٸندگان عام طور پر انہی علاقوں میں آتے ہیں اور مخصوص لوگوں کو اسکرین پر لاکر انہیں اسلامی جمہوری ایران کا نماٸندہ ظاہر کرتے ہیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے معاشی، اقتصادی، فوجی، سفارتی اور کئی طرح کے دباؤ کا سامنا کر رہی ہے، ایران مخالف قوتیں روز اول سے اپنی تمام تر قوت ایران کی حکومت کے خاتمے کیلئے صرف کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ایران کی اسلامی حکومت اپنے طے شدہ اہداف کو مکمل طور پر حاصل نہیں کرسکی۔ حکومت ایران کی کئی پالیسیوں پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن وہ عمل جس سے نظام اسلامی کی بنیادوں کو نقصان پہنچے اسے نہ صرف ایران کی باشعور ملت قبول نہیں کرے گی بلکہ دنیا بھر کی تمام اسلامی قوتیں اس طرح کی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے میدان عمل میں موجود رہیں گی۔ وہ مفسد اور ضد انقلاب قوتیں جو ہمیشہ اپنے سفلی مقاصد کی تکمیل کیلئے کسی بہانے کی تلاش میں رہتی ہیں، آج پھر ان کے ہاتھوں میں حجاب پر پابندی کا ایک بہانہ آگیا ہے۔ وہ اس کی آڑ میں انقلاب مخالف طاقتوں کو ایک صف اور ایک صفحے پر لانا چاہتی ہیں۔

ایران کے صوبے بلوچستان میں بدامنی جو لہر دوڑاٸی گئی ہے اس کے پیچھے بھی انہی اہل فتنہ کا ہاتھ ہے۔ الہی قوانین سے آزادی کے نعرے کو بلوچوں کی آزادی کیساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ حالانکہ بلوچ عوام اسلام اور اسلامی شعار سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ زاہدان کی جامع مسجد کے امام جماعت نے زاہدان میں پیش آنیوالے واقعات کو دشمن کی سازش کا نتیجہ قرار دیا ہے اور وہ دہشتگرد جنہوں نے سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا ہے ان کی مذمت کی ہے۔ عالمی استکباری طاقتوں اور ان کے زرخرید غلاموں کو اچھی طرح سے جان لینا چاہیئے کہ ایران کے سُرخ افق سے جس انقلاب کا سورج طلوع ہوا تھا وہ اپنے راستے میں آنیوالی سیاہ گھٹاؤں کو چیرتا ہوا اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہے گا۔ اس کی منزل کسی دوسرے افق کی گہراٸی میں ڈوبنا نہیں بلکہ اس کی آخری اور داٸمی منزل صرف بام فلک پر چمکنا اور تمام بنی نوع انسان کو روشنی دینا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1017562
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

حسینی
بلوچستان کی آزادی ایران سے زیادہ پاکستان اور افغانستان کی مشکل ہے، اسی طرح کردستان کی آزادی بھی ایران سے زیادہ عراق اور ترکیہ کے لئے درد سر ہے۔ ایران کو چاہیئے کہ اس حوالے سے پاکستان اور ترکی سے سفارتی روابط رکھے اور بتائے کہ ایران سے کئی گنا زیادہ حصہ تمہارا ہاتھ سے جانے والا ہے۔ اگر کردستان اور بلوچستان کے نام سے آزاد ملک معرض وجود میں آئے تو پاکستانی اور افغانی بلوچستان اس کا حصہ بن کر رہے گا۔ اسی طرح ترکی اور عراق کے ساتھ کردستان کا معاملہ ہوگا۔
ہماری پیشکش