0
Tuesday 4 Oct 2022 21:38

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(13)

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(13)
تحریر: محمد اشفاق شاکر
 
الارم کی تیز آواز سے بیدار ہوا، ہوٹل سے ہی نماز کی تیاری کرکے حرم میں جانے کے لیے باہر نکلا تو پتہ چلا کہ بارش کا سلسلہ بوندا باندی کی شکل میں بدستور جاری ہے، جو کبھی کبھار تیز بھی ہو جاتا ہے۔ حرم أمام حسین علیہ السلام میں پہنچ کر امام حسین علیہ السلام کی ضریح پر حاضری دی۔ نماز زیارت کی ادائیگی کے بعد ضریح کا بوسہ لیا کہ اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا اور جب بھی نماز کا وقت ہوتا ہے تو حرم کے منتظمین فوری طور ضریح کے پاس سے لوگوں کو دور کرکے ضریح کے دروازے بند کرکے فریضہ نمازِ کی باجماعت ادائیگی کو یقینی بناتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد واپس ہوٹل میں آئے، جہاں دن کے کھانے کا اہتمام تھا، کھانا ہوٹل میں ہی کھایا اور پھر مغربین تک کا وقت اس وجہ سے ہوٹل میں گزر گیا کہ باہر بارش کا سلسلہ جاری تھا۔
 
نمازِ مغربین کی تیاری کرکے نکلے تو جو مقام سب سے قریب ترین نظر آیا اور جہاں ابھی تک حاضری بھی نہیں ہوئی تھی، وہ تھا حسینی خیمہ گاہ، سو نماز مغربین کی ادائیگی کے بعد خیمہ گاہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں حسینی قافلے کے خیام نصب تھے، اسی مقام پر بتول زادیوں نے شبِ عاشور گزاری تھی، یہی وہ مقام تھا کہ جہاں وفاؤں کا تقدس باقی رکھنے کے لیے چراغ بجھا دیا گیا تھا، یہی وہ مقام تھا کہ جہاں تیرہ سالہ بچے کو موت کا ذائقہ شہد سے بھی زیادہ شیریں لگ رہا تھا، اسی مقام پر اصحاب حسینی اپنی لازوال وفاؤں کی یقین دہانی ان لفظوں میں کروا رہے تھے کہ مولا اگر یہ لوگ ہمیں قتل کرکے ہمارے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور پھر ان ٹکڑوں کو جلا کر راکھ کر دیں اور یہ ہمارے ساتھ ہزار مرتبہ بھی ایسا کریں تو قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضہءِ قدرت میں ہماری جان ہے کہ ہم آپ کی حمایت سے دستبردار نہ ہوں گے۔
 
یہی وہ مقام تھا کہ جہاں شبِ عاشور کو فرزندِ رسول (ع) نے 3 حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ اپنے اصحاب کے ساتھ گزار کر مولا نے اپنے اصحابِ باوفا کے روشن دلوں کو بجھے چراغ کی اس تاریکی میں پرکھا کہ جس تاریکی نے قیامت تک کے لیے ہر تاریکی کو مٹا کر رکھ دیا اور آج ہم اسی مقام پر موجود تھے کہ جس کو خیمہ گاہِ حُسینی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نمازِ مغربین اس مقام خیمہ گاہ حُسینی کی مسجد میں ادا کی اور پھر اپنے سالار کی راہنمائی میں خیمہ گاہ میں موجود ایک ایک خیمہ کی بنائی گئی یادگار کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ 61 ھجری کے ماہِ محرم کی دسویں تاریخ کی شام کو جلائے گئے خیموں کی بنائی گئی یاد گاروں کو تو لوگ چوم رہے تھے، لیکن جلانے والے نجس یزیدی دسترخوان کے حرام کھانوں کی بچی کھچی ہڈیاں چبانے والے نامعلوم باپوں اور بدکردار ماؤں کے بیٹے اپنی اپنی نامعلوم قبروں کے جہنم میں پندرہ سو سال سے جل رہے ہیں اور ہمیشہ جلتے رہیں گے، لیکن نہ ان کی قبروں کا کوئی علم ہے اور نہ کوئی ان کا نام لینے والا ہے۔

زیارت کا شرف حاصل کرتے ہوئے ساتھ ساتھ وہی سارے منظر یادوں کے پردے پر گھومتے رہے کہ جن کا تذکرہ تاریخ کربلا سے بار بار سُنا بھی اور تاریخ کی کتابوں میں کئی بار پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا۔ میں تصور ہی تصور میں دیکھ رہا تھا کہ تیرہ سالہ قاسم سے لے شہزادہ علی اکبر علیہ السلام جیسے جوانوں کو ان کی مائیں موت کا درس دے رہی تھیں، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ شب عاشور کو خیام حسینی میں عبادتِ خُدا اور دعا و مناجات کا سلسلہ جاری ہے اور وہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز جو اس دعا و مناجات کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی، میرے کانوں میں گونج رہی ہو۔ مجھ ایسے لگ رہا تھا کہ شبیہہ پیغمبر کی اذان ابھی بلند ہو رہی تھی، انہی خیالات میں گم تھا کہ سالارِ قافلہ نے یاد دلایا کہ ہوٹل میں ایک مجلس عزاء کا اہتمام کیا گیا ہے، جس کا وقت ہونے ہی والا ہے۔
 
مجلس عزاء میں قافلے کے سارے ممبران تو شریک ہی تھے، ساتھ ہی ہوٹل میں مقیم کچھ دوسرے پاکستانی احباب بھی شریک تھے، جن میں ایک نمایاں نام ڈی ایس پی حاجی شفیق صاحب کا تھا، وہ بھی شریک تھے، ان کے علاوہ بھٹیوٹ سیداں سے برادر سید آصف بخاری اور پرویز بھائی، اٹک پیپلز کالونی سے برادر مجتبیٰ بخاری شامل تھے۔ مجلس عزاء سے آقائے شاکری اور مولانا سید یاسر نقوی صاحب نے خطاب فرمایا۔ مجلس کے بعد لنگرِ حُسینی کا انتہائی پُرتکلف اہتمام تھا۔ مجلس عزاء سے فارغ ہوکر پتہ چلا کہ انتہائی واجب الاحترام جناب میجر محمد اعظم گھیبہ اور سید سبطین شاہ صاحب بھی کربلا پہنچ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ میجر صاحب نے اربعین شام میں سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے حرم میں منایا تھا، جبکہ سبطین شاہ صاحب جنہوں نے عالمی امن واک نجف تا کربلا میں حصہ لیا روزِ اربعین کربلا میں گزارا اور پھر نجف و کوفہ اور گردونواح کی زیارات سے فارغ ہو کر واپس کربلا پہنچ چکے تھے، ان بزرگان سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا، کل صبح ملنے کا وقت طے ہوگیا۔

ابھی لیٹنے کا ارادہ ہی کیا کہ انتہائی محترم جناب الیاس لودھی صاحب ملاقات کے لیے تشریف لے آئے۔ جناب الیاس لودھی صاحب کربلا کے ایک فائیو سٹار ہوٹل البیرون میں ایک اعلیٰ عہدے پر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ جنابِ الیاس لودھی صاحب ہمارے علاقے کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت سردار منظر امیر خان صاحب کے بہت قریبی دوست ہیں اور انہوں نے ہی لودھی صاحب کو ہماری کربلا میں موجودگی کی اطلاع دی۔ لودھی صاحب کا اصرار تھا کل دن کا کھانا دوستوں کے ساتھ ان کے ہاں البیرون ہوٹل میں کھائیں اور چونکہ سردار منظر امیر خان صاحب کے کچھ قریبی  دوست جن میں محترم جناب میجر محمد اعظم گھیبہ، جناب سید سبطین شاہ صاحب، برادر ملک مالک اشتر اور بندہ ناچیز وغیرہ تو سردار صاحب نے جناب لودھی صاحب کو بہت خصوصی تاکید کی تھی کہ ان لوگوں کا پورا پورا خیال رکھنا ہے۔

اسی لیے اب لودھی صاحب بضد تھے کہ ہم لوگ کل دن کا کھانا ان کے ساتھ کھائیں، لیکن ہماری مجبوری یہ تھی کہ ہم نے کربلا سے براستہ مسیب ایران کے لیے نکلنا تھا۔ اس لیے طے یہ ہوا کہ کل صبح ناشتہ الیاس لودھی صاحب کے ساتھ کریں گے اور باقی احباب کو اطلاع کی ذمہ داری بھی میرے ہی ذمہ لگائی گئی۔ اسی پر محترم الیاس لودھی صاحب نے رخصت چاہی اور میں بھی سونے کی غرض سے بستر پر دراز ہوگیا، جبکہ میرے محترم روم میٹ سردار رضا اختر خان پہلے نیند کی آغوش میں پہنچ چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1017637
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش