0
Wednesday 5 Oct 2022 12:28

استاد المعلمین جعفر الصادقؑ

استاد المعلمین جعفر الصادقؑ
تحریر: علی اصغر

میں نے پہلی بار جب طاہر القادری صاحب کی زبانی سنا کہ اہل سنت کے امام جناب ابو حنیفہ امام جعفر صادقؑ کے شاگرد تھے تو کافی دیر حیران رہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک فقہ کا بانی مخالف فقہ کے رہنماء کا شاگرد ہو؟ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ شیعوں کے چھٹے امام جعفر صادق کے شاگرد بانی فقہ حنفیہ امام ابو حنیفہ ہی نہیں بلکہ جن بڑے بڑے سائینسدانوں کے متعلق ہم کیمسٹری میں پڑھتے رہے، وہ عظیم سائینسدان بھی امام جعفر صادقؑ کے شاگرد تھے۔ امام علیؑ سے لیکر امام زین العابدینؑ تک کا دور آل محمدؑ پر خاصہ مشکل گزرا ہے، آئمہ معصومینؑ کے ان ادوار میں اصل دینِ محمدیؐ کی ترویج آزادانہ طور پر نہ ہوسکی، لیکن ان حضرات کے بعد امام محمد باقرؑ جن کو باقر العلوم بھی کہتے ہیں، کے دور میں اور ان کے بعد ان کے بیٹے امام جعفر صادقؑ کے زمانے میں مذہب اہل بیتؑ کی خوب ترویج و تبلیغ ہوئی۔

ان بزرگ ہستیوں کی رہنمائی، ہدایت اور جدوجہد نے پورے عالم اسلام کو دین اسلام کے نور سے مزید منور کر دیا، عالم اسلام کی سب سے بڑی دینی درس گاہ کی بنیاد رکھی گئی، جس میں ہزاروں مسلم دانشوروں نے تربیت حاصل کی۔ ہر طرف اس عظیم دینی درس گاہ اور امام کے علمی خزانے کے ہی چرچے تھے، جس کی وجہ سے مکہ، مدینہ کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی عاشقان علم و دین امام کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ یہاں تک کہ بعض غیر مسلم دانشور بھی امام کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی علمی پیاس بجھانے لگے۔ امام جعفر صادقؑ نے اس وقت کی مناسب سیاسی اور معاشرتی ضرورت کے پیش نظر اپنے والد ماجد کی علمی، ثقافتی اور تربیتی تحریک کو آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا اور ایک بہت بڑا حوزہ علمیہ اور ایک عظیم یونیورسٹی مدینہ منورہ میں قائم کی اور مختلف شعبوں میں شاگردوں کی تربیت کی۔

آپ کے شاگردوں میں ہشام بن حکم، مفضل بن عمر کوفی، محمد بن مسلم ثقفی، ابان بن تغلب اور جابر بن حیان وغیرہ سرفہرست ہیں۔ محدثین کا کہنا ہے کہ امام علیہ السلام کے شاگردوں کی تعداد 4 ہزار سے زائد ہے۔ ابن عقدہ نے کتاب رجال میں امام صادق علیہ السلام کے 4 ہزار شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام کے بہت سارے شاگردوں نے بڑے کارنامے انجام دیئے اور امام سے ہزاروں کی تعداد میں روایات نقل کیں، خاص طور پر ابان بن تغلب نے امام سے 30 ہزار روایات نقل کیں ہیں۔ حسن بن علی وشا کہتے ہیں: میں نے مسجد کوفہ میں 9 سو مشائخ حدیث سے ملاقاتیں کیں اور ان سب کو یہ کہتے ہوئے پایا کہ ''جعفر بن محمد کا فرمان ہے'' یعنی وہ صرف امام جعفر صادق کے حوالے سے ہی احادیث بیان کیا کرتے تھے۔

شیخ جعفر شہیدی زندگانی امام صادق نامی کتاب کے صفحہ 65 پر امام صادق کی شاگردی کرنے والے علماء کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: زرارة بن اعین اور ان کے دو بھائی بکر و حمران، جمیل بن صالح، جمیل بن دراج، محمد بن مسلم طائفى، برید بن معاویه، هشام بن حکم، هشام بن سالم، ابو بصیر، عبیدالله، محمد، عمران حلبى، عبدالله بن سنان اور ابوالصباح کنانى جیسے معروف علماء نے امام کی شاگردی کی۔ جابر بن حیان شیعہ کثیرالجامع شخصیت، جغرافیہ نگار، ماہر طبیعیات اور ماہر فلکیات تھے۔ تاریخ کا سب سے پہلا کیمیا دان اور عظیم مسلم سائنسدان جابر بن حیان جس نے سائنسی نظریات کو دینی عقائد کی طرح اپنایا۔ دنیا آج تک اسے بابائے کیمیا کے نام سے جانتی ہے، جبکہ اہل مغرب ’’Geber‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ جابر بن حیان کو کیمیا کا بانی مانا جاتا ہے۔ وہ کیمیا کے تمام عملی تجربات سے واقف تھے۔ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ جابر بن حیان امام صادق علیہ السلام کے شاگرد تھے۔
 
پندرہ شوال کو حاکمِ مدینہ نے زہر آلودہ انگور بھجوائے، جن کو کھانے کے بعد آپؑ کی شہادت ہوئی، آپ کے فرزند امام موسیٰ کاظمؑ نے آپ کی تجہیز و تکفین کی اور جنت البقیع میں امام حسنؑ اور امام سجادؑ کے ساتھ دفن کیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اتنی بڑی علمی شخصیت اور ایک فقہ کے بانی کے چاہنے والے علم دوست نہیں ہیں، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جیسے جعفر صادقؑ نے ایک وقت میں کئی سو شاگردوں کو دین و دنیا کے علوم سکھائے، ویسے ہی ان کے شیعہ بھی دنیا کو علومِ آل محمدؑ پہنچا رہے ہوتے، مگر ہمارا منبر، ان لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے، جن کو سیدھی عربی پڑھنا بھی نہیں آتی۔ ہمیں امام جعفر صادقؑ کے علوم کو اپنی آنی والی نسل تک منتقل کرنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 1017728
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش