1
3
Thursday 6 Oct 2022 05:54

ایران میں پردے کے نام پر پسِ پردہ لڑائی

ایران میں پردے کے نام پر پسِ پردہ لڑائی
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

مہسا امینی فوت نہ ہوتی تو بھی فسادات یقینی تھے۔ بات خواتین کے پردے یا حجاب کی نہیں۔ بات اتنی اہم ہے کہ مہسا امینی کی فوتگی پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی آہ و فغاں کی گئی۔ وہ جنہوں نے کبھی بھی فلسطینیوں، کشمیریوں اور یمنیوں کی ماوں بہنوں کے حقوق کو خاطر میں نہیں لایا، انہوں نے بھی نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ٹسوے بہائے۔ یعنی فسادات کے منصوبہ ساز پہلے سے ہی رونے دھونے کیلئے تیار تھے۔ منگل 20 ستمبر کو نیویارک شہر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک نے ایرانی قیادت سے کہا کہ وہ بنیادی حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کرنے والی ایرانی خواتین کی آواز پر توجہ دیں۔ اسی طرح فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی اس موقع پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ گفتگو کے دوران ایران میں خواتین کے حقوق کے احترام پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران چلی کے صدر گیبریل بوریچ نے بھی مہسا امینی کا نوحہ پڑھا۔

نیویارک میں اسی سربراہی اجلاس کے موقع پر کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانی جولی نے مہسا امینی کے قتل کے حوالے سے ایرانی حکومت کے اقدامات کا جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسی اجلاس میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے قائم مقام ہائی کمشنر نیدا الناشف نے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا نعرہ بلند کیا۔ بیرونی طور پر مہسا امینی کا نام لے کر ایران پر دباو بڑھایا جا رہا ہے اور اندرونی طور پر مہسا امینی کے نام پر ہونے والے مظاہروں میں چند ضمیر فروشوں سے امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کی دوستی کے نعرے لگوائے جا رہے ہیں۔ اگر آپ ایران میں مہسا امینی کے نام پر ہونے والے مظاہروں پر توجہ دیں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ اِن مُٹھی بھر مظاہرین کو مہسا امینی سے کوئی ہمدردی نہیں۔ وہ ان مظاہروں میں امریکہ و  اسرائیل کے لئے نعرہ زن ہیں۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ سب اصل میں اسرائیل کو بچانے کی خاطر ہو رہا ہے۔

ایسے میں ایک بات تو طے شدہ ہے کہ اسرائیل کی زندگی کے دِن گِنے جا چکے ہیں۔ اب اسرائیل کو بچانے کیلئے ایران کے باہر سے منصوبہ ساز اُس وقت تک کچھ نہیں کرسکتے، جب تک ایران کے اندر سے عوام اُن کی آواز پر لبّیک نہیں کہتے۔ امریکہ و اسرائیل اور برطانیہ کے چند خریدے ہوئے لوگ تو سارے مُلک کی پالیسی نہیں بدل سکتے، چنانچہ مُلک میں فسادات کھڑے کرکے اور فسادات میں اسرائیل و امریکہ نوازی کے نعرے لگوا کر ایرانی قیادت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایرانی عوام امریکہ و اسرائیل اور برطانیہ کو پسند کرتے ہیں۔ لہذا ایرانی قیادت کو امریکہ و اسرائیل اور برطانیہ کی دشمنی ترک کر دینی چاہیئے۔ استعمار کے اِن اوچھے ہتھکنڈوں سے لوگوں کو ایک مرتبہ پھر یہ یقین ہوگیا ہے کہ کوئی بھی طاقت اب اسرائیل کو نہیں بچا سکتی۔ استعماری دنیا سارا زور اس پر لگا رہی ہے کہ ایران کے اندر سے اسرائیل کے حق میں آواز اُٹھے، چنانچہ ایران میں کسی بھی حادثے کے بعد جب چند وطن فروش اور مُٹھی بھر غدّاروں کو ٹریننگ اور پیسہ دے کر سڑکوں پر لایا جاتا ہے تو وہ چند ہی دنوں میں اپنے نیٹ ورکس سمیت پکڑے جاتے ہیں۔

اس مرتبہ بھی ایران کے اندر وہی ہو رہا ہے۔ باہر سے یہ شور ڈالا جا رہا ہے کہ ایران میں مہسا امینی کے حوالے سے پُرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں، جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اِن مظاہروں میں چند افراد کی طرف سے مہسا امینی کے ساتھ کسی قسم کے اظہارِ ہمدردی کے بجائے امریکہ و اسرائیل اور برطانیہ سے دوستی کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ گنتی کے افراد پر مشتمل ایسے مظاہروں کے ردِّعمل میں امریکہ و برطانیہ اور اسرائیل کے خلاف ایرانی عوام گذشتہ چند دنوں میں کئی مُلک گیر مظاہرے کرچکے ہیں۔ بی بی سی اور دیگر استعماری میڈیا کو چند شرپسند عناصر کے نعرے تو دکھائی اور سُنائی دیتے ہیں، لیکن اسلامی انقلاب کے حق میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دکھائی نہیں دیتا۔

اسی لئے ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسی ہفتے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ میں صاف کہتا ہوں کہ یہ واقعات امریکہ، صیہونی حکومت اور ان کے پیروکاروں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ ان کا اصل مسئلہ ایک مضبوط اور خود مختار ایران اور ملک کی ترقی کا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس واقعے میں ایک نوجوان بیٹی کی موت سے ہمارا دل جل گیا ہے، تاہم بغیر تحقیقات اور شواہد کے، یہ جو کچھ لوگوں کی طرف سے سڑکوں کو غیر محفوظ بنایا گیا، قرآن پاک کو نذر آتش کیا گیا، پردہ دار خواتین کے حجاب پر ہاتھ اٹھایا گیا، اسی طرح مسجد، امام بارگاہ اور لوگوں کی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی، یہ سب ایسے ہی سادگی سے بیٹھے بٹھائے نہیں ہوگیا۔ اُن کے مطابق ان فسادات کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اگر مہسا امینی کی موت واقع نہ بھی ہوتی تو کسی اور بہانے سے ہی ایران میں یہ فسادات کروائے جاتے۔

اس موقع پر ایران کے سپریم لیڈر نے ایک انتہائی اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی۔ اُن کا کہنا تھا کہ دنیا میں بہت سے فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ یورپ میں اور بالخصوص فرانس اور پیرس میں بھی، لیکن کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ امریکہ کے صدر یا امریکی  پارلیمنٹ کے نمائندوں نے فسادیوں کی حمایت کی ہو یا اُن کے حق میں کوئی بیان دیا ہو؟ کیا کبھی ان بلوائیوں سے انہوں نے کہا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں؟ کیا سعودی عرب سمیت منطقے کی دیگر امریکی سرمایہ داری کی غلام ریاستوں اور ان کے کرائے کے ذرائع ابلاغ نے اُن فسادیوں کی بھی کبھی حمایت کی ہے؟ اور کیا امریکیوں نے کبھی کہیں اور بھی فتنہ و فساد کرنے والوں کو انٹرنیٹ، ہارڈویئر یا سافٹ ویئر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔؟ انہوں نے برملا یہ کہا کہ ایران میں فسادیوں کی اس طرح کھل کر حمایت کئی بار کی گئی ہے۔

رہبرِ معظم کے اس خطاب میں سوچنے اور سمجھنے والوں کیلئے بہت کچھ ہے۔ ہم اس موقع پر اُن احباب کی خدمت میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں، جو استعماری ذرائع ابلاغ کے نام نہاد تجزیہ کاروں کے تجزیات سے خوفزدہ ہوئے پڑے ہیں۔ انہیں ایسے لگ رہا ہے کہ بس اب اسلامی انقلاب رُخصت ہُوا چاہتا ہے۔ انہیں ہم یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ایران سے رضا شاہ پہلوی کے فرار سے صرف ایک سال پہلے کی تاریخ پر ہی نگاہ ڈال لیجئے۔ امریکی صدر کارٹر نے اعلان کیا تھا کہ "رضا شاہ پہلوی کا ایران خطے میں سیاسی استحکام اور امن و شانتی کے حوالے سے ایک محفوظ ترین جزیرہ ہے۔" جی ہاں صرف ایک سال میں ہی یہ طاغوتی جزیرہ اسلامی انقلاب کے طوفان میں ڈوب گیا تھا۔ جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوگیا تو امریکی حکام نے کھلم کھلا یہ اعلان بھی کیا تھا کہ یہ انقلاب اور اس کی حکومت چھ ماہ سے زیادہ نہیں چل سکے گی، لیکن یہ حکومت اب تینتالیس سال مکمل کرچکی ہے۔

ڈکٹیٹر صدام کو یہ خواب دکھا کر ایران پر حملہ کرایا گیا تھا کہ صدامی فوج ایک ہفتے میں بغداد سے تہران پہنچ کر تہران میں جشن فتح منائے گی۔ صدام نے اس کا اظہار بھی کیا تھا، لیکن آٹھ سال تک فرزندانِ انقلاب نے صدامیوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ آج سارے عراق میں حضرت امام خمینی ؒ کے نام کا سِکّہ چلتا ہے اور فارسی زبان اب عراق میں رابطے کی دوسری زبان بن چکی ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کو ختم کرنے کیلئے منافقینِ خلق کو ہزاروں کا لشکر فراہم کرکے یہ اعلان کیا گیا کہ منافقین خلق چوبیس گھنٹّوں میں کرمان شاہ کے راستے جنوبی ایران کو فتح کرتے ہوئے تہران پر قابض ہو جائیں گے۔ دور کی بات چھوڑیں 2018ء کے وسط میں ایک امریکی گماشتے نے بڑے اعتماد کے ساتھ دعویٰ کیا تھا کہ 2018ء کا کرسمس وہ تہران میں منائیں گے۔ امریکہ اور اس کے تھنک ٹینکس کے ماضی میں بھی اندازے غلط ثابت ہوئے اور مستقبل میں بھی، لیکن اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی ؒ نے کیمونیزم، اسلامی بیداری، عرب ریاستوں اور صدام کے بارے میں جو کچھ  کہا تھا، وہ حرف بحرف درست ثابت ہوا۔

آپ تجزیہ و تحلیل اور اعداد و شمار کے ساتھ  یقین رکھئے کہ آج بھی اسلامی انقلاب کے خاتمے کے بارے میں استعماری طاقتوں کے سارے مفروضے غلط ثابت ہونگے، جبکہ استعمار اور اسرائیل کے بارے میں آیت اللہ سید علی خامنہ ای جو کہہ رہے ہیں، وہ سچ ثابت ہو کر رہے گا۔ ایران کی جیت اس لئے یقینی ہے، چونکہ ایران مادیّات کی نہیں بلکہ نظریات کی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہی ایران کی طاقت اور استقلال کا راز بھی ہے۔ اگر ایران انقلابی و الٰہی نظریات سے دستبردار ہو جائے اور دیگر ممالک کی طرح اپنے مُلک کے ذخائر کا منہ استعمار کیلئے کھول دے تو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کی مانند ایران کو بھی پسندیدہ مُلک قرار دے دیا جائے گا۔ تاہم ایسی پسندیدگی کے بعد ایران میں بھی عزّت و غیرت اور حمّیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔

یہ وہ حقیقت ہے جسے ایران کی انقلابی قیادت اور عوام بھی سمجھتے ہیں اور دنیا کو بھی اس سچائی کا اداراک ہے۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن اندر سے سب یہ جانتے ہیں کہ اصل واویلا مہسا امینی، پردے یا حجاب کا نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہر روز اسرائیل کی زندگی کا ایک دِن تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ لہذا مہسا امینی اور حجاب یا پردے کے نام پر پسِ پردہ اسرائیل کی زندگی کی لڑائی لڑی جا رہی ہے۔ جب تک اسرائیل کا خاتمہ نہیں  ہوتا، تب تک ایران میں ایسے مظاہروں کو نہیں روکا جا سکتا۔ اس موقع پر ایران میں شرپسندوں کی آواز بننے والے اور انہیں شہ دینے والے استعماری ذرائع ابلاغ بھی یہ جان لیں کہ ان مظاہروں سے ایران کے اندر اسرائیل کی مقبولیت میں تو کوئی اضافہ ممکن نہیں، البتہ آگے چل کر اُس کے گِرد شکنجہ مزید سخت ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 1017849
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
بہت شور شرابا ہے۔ سنا ہے کہ میڈیکل رپورٹ کو ورثاء نے غیر تسلی بخش قرار دے دیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا اور اس کے مزید نتائج کیا نکلیں گے؟ ایسے بہت سارے سوالات لوگوں کے ذہنوں میں ہیں۔ اس موضوع پر زمینی حقائق کی روشنی میں مزید قلم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ہماری پیشکش