0
Thursday 6 Oct 2022 14:55

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(14)

عزادار سے زوار تک، سفرِ عشق(14)
تحریر: محمد اشفاق شاکر

اذانِ فجر سے بہت پہلے ایکدم سے آنکھ کھلی تو خیال آیا کہ آج کربلا میں الوداعی فجر ہے، یہ خیال آتے ہی دل سے فوراً دُعا نکلی کہ اللہ کرے یہ الوداعی رات کربلا سے الوداعی رات ہی ہو، آخری رات نہ ہو۔ اسی وقت تیاری کرکے حرم میں پہنچا، حرم میں گزرتا ہر لمحہ ایسے گزر رہا تھا کہ گزرنے کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا۔ نوافل و مناجات میں مشغول تھے کہ اذانِ فجر ہوگئی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حرم سرکارِ وفا میں الوداعی حاضری کے لیے حاضر ہوئے، پھر ان دو علیحدہ علیحدہ مقامات پر شرفِ حاضری حاصل ہوا کہ جہاں مولا قمرِ بنی ہاشم کے دونوں بازو بھی قلم ہوئے تھے اور  مشک بھی چھد گئی اور جب مشک کا پانی گربلا کی آگ اُگلتی زمیں پر گرا تو یہ پانی نہیں گرا بلکہ سکینہ بنت الحسین کی آس سے جُڑی کربلا کے تین دن کے پیاسوں کی پیاس تھی، جو ریگزارِ گربلا میں جذب ہوگئی اور پھر ان پیاسوں کی آس سے جڑی شہنشاہِ وفا کی سانس تھی جو رک سی گئی اور پھر بلا کا شہسوار کٹے بازوؤں، زخمی آنکھوں اور مجروح سر کے ساتھ زمین پر گِرا تو زمانے کے بزدلوں نے وہ ظلم کیے کہ غازی مولا کا جسم اطہر جوڑ جوڑ سے ٹوٹ گیا۔

آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کے ساتھ یہاں سے رخصت ہو کر شاہراہ سدرہ سے ہوتے ہوئے مقامِ صاحب الزمان پر حاضری دی اور ساتھ اس نہر پر بھی کہ جس کا پانی شاید اب تک شرمندہ تھا کہ قافلہ حسینی تک نہ پہنچ سکا، پھر باغ امام صادق علیہ السلام پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان زیارات سے فارغ ہوئے تو سورج کافی بلند ہوچکا تھا اور بھوک بھی اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ دوستان گرامی قدر سے رابطہ کیا اور محترم سید سبطین شاہ صاحب، جنابِ میجر محمد اعظم گھیبہ اور چکوال سے تعلق رکھنے والے معروف عزادار برادرم چوہدری اظہر اور دو مزید دوستوں کے ہمراہ حرمِ جناب عباس علیہ السلام کے سامنے شاہراہِ بغداد سے ہوٹل البیرون کی گاڑی پر بیٹھ کر ہوٹل پہنچے، جہاں ہمارے معزز میزبان جناب الیاس لودھی صاحب دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھے۔ ناشتے کے بعد ہوٹل کا تفصیلی وزٹ کیا اور پھر محترم میزبان کا شکریہ ادا کرکے واپس حرمین کی طرف روانہ ہوگئے۔

کربلا میں باقی تمام زیاراتی مقامات کہ جن میں مقامِ شہزادہ علی اکبر علیہ السلام، مقام شہزادہ علی اصغر علیہ السلام، مقام جناب فضہ (ع) مقام حارث شیر، مقام زافر جن، وغیرہ کی الوداعی زیارت سے فارغ ہو کر جناب سید الشہداء علیہ السلام اور سرکار وفا حضرت عباس علمدار علیہ السلام کے حرم میں الوداعی حاضری دی، اس دعا کے ساتھ کہ یااللہ پاک تیرے ان مقبول بندوں کے پاس ہماری یہ حاضری آخری حاضری نہ ہو۔ اب کربلا سے روانگی کا وقت آپہنچا تھا اور اس روانگی کے وقت کی کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ میرے لیے تو کم از کم ناممکن ہے۔ جب سالار قافلہ نے روانگی کا حکم فرمایا تو پتہ نہیں ذہن کے پردوں پر کس روانگی کے مناظر گھوم گئے، 28 رجب 60 ھجری کو امام حسین علیہ السلام کی مدینہ سے روانگی کہ جب عباس ابن علی علیھم السلام جیسے بھائی اور ہم شکل پیغمبر شہزادہ علی اکبر علیہ السلام جیسے بیٹے ساتھ تھے، سیدہ زینب جیسی بہنوں کو عزت و احترام اور پورے وقار کے ساتھ اونٹوں پر سوار کروایا جا رہا تھا۔

پھر مولا کی مکے سے روانگی کا وہ منظر کہ جب مولا نے عالمِ اسلام کے حاجیوں کے سامنے 8 ذی الحج کو اپنے حج کو عمرے میں تبدیل کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اے لوگو، میں اپنے اللہ سے ملاقات کے لئے جارہا ہوں، جسے اللہ سے ملاقات کا اشتیاق ہو، وہ میرے ساتھ آئے، پھر یادوں کے دریچے میں وہ روانگی بھی پوری طرح محفوظ تھی، جب اسیران کربلا کو کربلا سے کوفے کی طرف روانگی کا حکم سُنایا گیا اور خانوادہ نبوت کے زخمی پھول اپنی مرجھائی ہوئی کلیوں کے ساتھ اس حال میں کربلا سے کوفے کی طرف روانہ ہوئے کہ سید سجاد علیہ السلام کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پاؤں میں بیڑیاں اور گلے میں طوق تھا، جبکہ مخدراتِ عصمت و طہارت کے نازک ہاتھ رسیوں میں جکڑ کر پسِ گردن باندھ دیئے گئے تھے، جبکہ ان کے وارثان اور پیاروں کی بے گور و کفن سربریدہ لاشیں کربلا کے تپتے صحرا میں پڑی تھیں، نہ انہیں کوئی کفن دینے والا تھا اور نہ کوئی دفن کرنے والا اور آج ہم بھی اُسی کربلا سے روانہ ہو رہے تھے۔

لیکن کتنا فرق تھا، اس آج کی کربلا اور 61 ھجری کی کربلا میں کہ 61 ھجری میں جو زمین کرب و بلا تھی، آج وہ سرزمینِ کرب و بلا نہیں بلکہ کربلائے معلیٰ تھی۔ اس 61 ھجری والی کربلا میں یا شھادت ہوتی ہے یا اسارت ہوتی ہے، لیکن آج کی کربلا جو کربلائے معلیٰ تھی، یہاں سے ہم واپس بھی جا رہے تھے اور آزاد بھی تھے، پھر چلتے چلتے میرے لبوں پر کسی شاعر کے قلم سے نکلا یہ لفظ مچلنے لگے کہ
                          حُسین (ع) مجھ کو معاف کرنا
                          میں زندہ آیا ہوں کربلا سے
                          حسین (ع) مجھ کو معاف کرنا

ہم مزارِ حُسین سے الوداع کرکے چل تو پڑے، لیکن ابھی کربلا کی حد تو ختم نہیں ہوئی تھی، ہاں کربلا کی روحانی اور معنوی حدود تو لامحدود ہیں کہ جس کے لیے ایک معروف فرمان نقل کیا جاتا ہے "کُلُ ارضٍ کربلا و کُلُ یومٍ عاشورہ" لیکن ابھی تو ہم کربلا کی جغرافیائی حدود سے بھی باہر نہیں نکلے تھے۔

ابھی ہماری منزل جناب حُر ابنِ یزید ریاحی کا مزار تھا، وہ حُر کہ جو ایک لمحے میں لشکرِ یزیدی کی سالاری کو لات مار کر فرزندِ زہراء علیہ السلام کے قدموں میں پہنچا اور علیہ السلام کے مقام پر فائز ہوگیا تھا۔ ہاں اُس حر بن یزید ریاحی کا مزار ہماری منزل تھا کہ جس حُر کو تمام تر کوتاہیوں کے باوجود یہ اعزاز بہرحال حاصل تھا کہ اس کو مقامِ عظمتِ زہراء سلام اللہ علیھا کا ادراک تھا کہ جب امام حسین علیہ السلام کا راستہ روکا تو فرزندِ زہراء نے غصے سے کہا "تیری ماں تیرے غم میں روئے" تو جواب میں حُر نے سر جھکا کر کہا حسین (ع) میں تجھے جواب اس لیے نہیں دے سکتا کہ تیری ماں فاطمہ (ع) بنتِ محمد (ص) ہیں اور پھر اسی معرفت نے حُر کو جہنم کے دہانے سے آٹھایا اور حسین علیہ السلام کے قدموں میں پہنچا دیا۔

لیکن بتول سلام اللہ علیھا کے بیٹے نے سینے سے لگا کر کہا کہ جاؤ حُر تمھاری ماں نے تمھارا نام حُر رکھا ہے، تم اس دنیا میں بھی حُر (آزاد) ہو اور آخرت میں بھی حُر (آزاد) ہو۔ جناب حُر (ع) کے مزار پر حاضری کے بعد ہم سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے فرزند جناب عون ابنِ عبداللہ علیہ السلام کے دربار پر حاضر ہوئے۔ شہزادے کے مزار کی تعمیر نو کا کام جاری تھا، اس لیے باہر سے ہی زیارت کرکے ہم عراق کے شہر مسیب کی طرف روانہ ہوگئے کہ جہاں جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کے دو فرزندان جناب محمد اور جناب ابراہيم علیھم السلام مدفون ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1017936
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش