2
0
Sunday 20 Nov 2022 15:15

شیعہ مسلمان اور بھائی کا نعرہ لگانے والے مفتی رفیع عثمانی چلے گئے

شیعہ مسلمان اور بھائی کا نعرہ لگانے والے مفتی رفیع عثمانی چلے گئے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے جامعہ دارالعلوم کراچی میں جمعۃ المبارک 21 اگست 2020ء میں دوران بیان گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ بھی مسلمان وہ بھی ہمارے بھائی ہیں۔ پاکستان میں موجود شیعہ کو ہم کافر نہیں کہتے، مسلمان ہیں اور ہمارے بھائی ہیں، پاکستان بنانے میں ہمارے ساتھ شریک تھے۔ انہوں نے ووٹ پاکستان کے حق میں دیا تھا۔ جتنے جہاد پاکستان میں بھارت کے خلاف ہوئے، سنیوں اور شیعوں نے مل کر مقابلہ کیا۔ بہت ساری چیزوں میں وہ ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، لیکن یاد رکھو "اپنا مسلک چھوڑو نہیں، دوسرے کا مسلک چھیڑو نہیں" ہمارا طریقہ یہ ہے۔ دشمنان اسلام اس کوشش میں رہتے ہیں کہ شیعہ سنی فسادات ہو جائیں۔ جب بھی اسلام کے بول بالے کی نوبت آئی ہے اور اسلام کے کام میں ترقیاں ہوئی ہیں، دشمنوں نے شیعہ سنی جھگڑے کھڑے کیے۔ شیعہ سنی فسادات شروع کرا دیئے گئے، اس سے بچیں، اس سے اعتراض کریں۔ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا حرام ہے، مسلمانوں میں لڑائی کرنا سخت گناہ ہے، اس سے بچنے کا اہتمام کریں۔

ان کا موقف بڑا واضح اور شفاف تھا۔ ان کی اس گفتگو کا منظر عام پر آنا تھا کہ فرقہ پرستوں کی صفوں میں کہرام میں مچ گیا۔ مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک غلیظ مہم چلائی گئی۔ یہ مہم اس قدر خطرناک تھی کہ مفتی صاحب کو اپنے موقف کی وضاحت دینا پڑی۔ اس موقف کا اہل علم نے شاندار استقبال کیا۔ تمام مسالک کے معتدل لوگوں نے مفتی صاحب کی جرات اور واضح لائن اختیار کرنے کو امت کے لیے نیک شگون قرار دیا۔ اس موقف کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس آڈیو کلپ کو لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے سنا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ فرقہ واریت کے طلبگاروں اور معاشرے میں منافرت کا کاروبار کرنے والوں کو سخت مایوسی ہوئی اور ان کی دہائیوں کی محنت ان کے اس دو منٹ کے کلپ نے غارت کر دی۔

مجھے مفتی صاحب سے ملنے کا زیادہ موقع نہیں ملا، پیغام پاکستان پر کام ہو رہا تھا، اصل کام ہوچکا تھا، بس فائنل میٹنگ جس میں تمام مسالک کی جید قیادت شریک تھی، اس کی آخری شکل کو منظوری دینا تھی، اس میں انہیں دیکھا اور سنا،  بہت معتدل اور ہم آہنگی سے بھرپور گفتگو کی۔ پیغام پاکستان کے آفیشل اعلان کے لیے صدر محترم جناب ممنون حسین صاحب تشریف لائے اور قائداعظم آڈیٹوریم فیصل مسجد میں ملک کی جید مذہبی قیادت جمع تھی۔ وہاں صدر محترم کے سامنے پیغام پاکستان کا تعارف اور اس کی اہمیت کو بیان کرنے کی ذمہ داری مفتی محمد رفیع صاحب نے خوب ادا کی۔ ایک موقع پر ماحول کافی جذباتی ہوگیا، جب انہوں نے کہا کہ آج بھی اسی جذبے کی ضرورت ہے، جو حصول پاکستان میں تھا۔ اس وقت ہمارا بچپن تھا اور ہم دیوبند میں "لے کے رہیں گے پاکستان اور بن کر رہے گا پاکستان" کے نعرے لگاتے تھے۔ پیغام پاکستان امت کو جوڑنے اور فرقہ واریت کو ختم کرنے کی اعلیٰ دستاویز ہے، جس کو بنانے اور اہل علم سے منظور کرانے میں مفتی صاحب کا بنیادی کردار تھا۔

امت کے درمیان فاصلوں کی بنیادی وجہ مسالک کے درمیان موجود غلط فہمیاں ہیں۔ مفتی صاحب کے ایک شاگرد ہمارے دوست ہیں، بتا رہے تھے کہ جمع و تدوین قرآن کی بحث میں انہوں نے درس میں کہا کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل نہیں ہیں، ان کا اور ہمارا قرآن ایک ہے، اس معاملے میں بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد اصل درس ختم ہوگیا اور ساری بحث اسی موضوع پر آگئی۔ مفتی صاحب سے درس کے ختم ہونے کے بعد بھی طالب علم اسی موضوع پر بات کرتے رہے، مگر مفتی صاحب اپنی موقف پر ادلہ دے کر انہیں مطئمن کرتے رہے۔ اس سے جہاں مفتی صاحب کے واضح موقف کا علم ہوتا ہے، وہیں اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ فرقہ واریت کے جراثیم علمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کو بھی متاثر کرچکے ہیں۔

پاکستان ان کا موضوع سخن رہتا تھا اور موضوع قلم بھی، دو قومی نظریہ، جس پر پاکستان بنا کے نام سے کتاب لکھی، جس میں دو قومی نظریہ کو بڑی وضاحت سے بیان کیا۔ اس میں انہوں نے مسلم شناخت اور مسلم غیر مسلم تعلقات پر بات کی اور اسلام کا نقطہ نظر واضح کیا۔ "اختلاف رحمت ہے، فرقہ بندی حرام" کے نام سے بھی ایک کتابچہ تحریر فرمایا، جس میں اہل علم کے اختلاف کو رحمت اور فرقہ بندی جس سے امت میں ٹوٹ پھوٹ ہو، اسے حرام قرار دیا۔ اس میں بعض تاریخی واقعات جن کی بنیاد پر عام طور پر اختلاف کیا جاتا ہے، ان پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔

عام طور پر پاکستان کے مدارس میں اساتذہ، طلبہ اور ملازمین مظلوم طبقہ ہیں۔ بڑے مالدار ادارے بھی وسائل کا رخ ان کی طرف نہیں کرتے۔ ان کے شاگردوں کے بقول انہوں نے وسائل کا رخ اس محروم طبقے کی طرف موڑا۔ اسی لیے آج دار العلوم کراچی کا شمار جہاں پاکستان کے تعلیمی لحاظ سے اچھے اداروں میں ہوتا ہے، وہاں اس کے طلبہ، ملازمین اور اساتذہ بھی مالی طور پر بڑے مستحکم شمار کیے جاتے ہیں کہ ان کو کوئی مالی پریشانی نہیں ہوتی۔ یقیناً ان کی آواز پاکستان کے اس بڑے دار العلوم میں بین المسالک ہم آہنگی کی ایک مضبوط آواز تھی، جنہوں نے دہائیوں "اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور دوسرے کا مسلک چھیڑو نہیں" کا اصول اپنائے رکھا۔ پاکستان سے بے لوث محبت کرنے اور امت کو جوڑنے والی شخصیت چلی گئی۔
خبر کا کوڈ : 1025774
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

غلام شبیر
Pakistan
بہت خوب
آفتاب
اللہ مغفرت کرے۔ اس دور میں اپنے مسلک کا سربراہ ہو کر اس مسلک کو گلے لگانا کہ جس سے اختلاف کی بنیاد پر آپکے حامی آپکے گرد اکٹھے ہوئے ہیں، بڑی بات ہے۔ شیعہ اور سنی بھائی بھائی ہی ہیں۔ ہمارا قرآن ایک ہی ہے، ہمارا اللہ اور رسول دونوں ایک ہیں۔ ہم نے ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر باطل کا وار روکنا ہے۔
ہماری پیشکش