0
Tuesday 22 Nov 2022 22:12

اسرائیل آذربائیجان بڑھتے سفارتی تعلقات

اسرائیل آذربائیجان بڑھتے سفارتی تعلقات
تحریر: علی واحدی
 
جمہوریہ آذربائیجان، جس کی ایران کے ساتھ تقریباً 420 میل (676 کلومیٹر) کی سرحد ہے، اس کے ایران کے ساتھ برسوں سے کشیدہ تعلقات ہیں۔ اب صیہونی حکومت باکو اور تہران کے درمیان چھپی کشیدگی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی امید رکھتی ہے۔ سرکاری طور پر، اسرائیل کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کرتی ہے کہ ایران کے ساتھ مستقبل کے تنازع میں  اسرائیل آذربائیجان حکومت کی کس طرح مدد کرسکتا ہے۔ ایک ذریعے نے بریکنگ ڈیفنس نامی سائیٹ کو بتایا ہے کہ "یہ بہت حساس مسئلہ ہے اور خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔" بریکنگ ڈیفنس سے تعلق رکھنے والے ایک سابق اسرائیلی دفاعی اہلکار نے، جس نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا، کہا ہے کہ اسرائیل اور جمہوریہ آذربائیجان کے درمیان قریبی دفاعی تعلقات کی اہمیت اعلیٰ ترین سطح پر ہے، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

یہ واضح ہے کہ آذربائیجان کے ساتھ قریبی دفاعی تعلقات سے اسرائیل کو کچھ ممکنہ فوائد حاصل ہوئے ہیں، جن میں ایران کے ساتھ طویل سرحد اور آذربائیجان کی سرزمین پر خفیہ آلات لگانے کے لیے استعمال کرنے یا اسپیشل فورسز کو بہتر طور پر داخل ہونے کی اجازت دینے کی صلاحیت بھی شامل ہے۔ آذربائیجان ضرورت پڑنے پر صہیونی طیاروں کو ایران میں داخل ہونے کے لیے اپنی فضائی حدود کھول سکتا ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق یروشلم کی قابض حکومت اور جمہوریہ آذربائیجان کے درمیان دفاعی میدان میں تعلقات بڑھ رہے ہیں اور یہ تعلقات کئی سالوں پر محیط ہیں۔ آذربائیجان کئی سالوں سے اسرائیلی ساختہ ہتھیاروں کے نظام کا قابل اعتماد صارف رہا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 2011ء اور 2020ء کے درمیان جمہوریہ آذربائیجان کے اہم ہتھیاروں کی درآمد میں صیہونی حکومت کا حصہ 27 فیصد تھا۔ یہ انڈیکس 2016ء اور 2020ء کے درمیان بڑھ کر 69 فیصد ہوگیا، جو کہ اسی عرصے میں حکومت کی ہتھیاروں کی برآمدات کا 17 فیصد ہے۔

اس رپورٹ میں آذربائیجان کے ایک تحقیقی سینٹر کے ڈائریکٹر روسف حسینوف کی تحقیق کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جو موشے دیان سنٹر کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے۔ انھوں نے لکھا: "اگرچہ آذربائیجان اکثریتی شیعہ مسلمانوں کا ملک ہے، لیکن اس میں یہودیوں کی ایک پرانی جماعت موجود ہے۔ جمہوریہ آذربائیجان میں اسرائیل کی موجودگی کا سب سے اہم بنیادی ہدف اس ملک اور اس کے مطابق اس خطے کے ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ کیونکہ اسرائیل کے سکیورٹی نظریئے کے فریم ورک میں اسلامی جمہوریہ ایران کو اس حکومت کا سب سے خطرناک دشمن سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اس کی صلاحیتیں اور اثر و رسوخ محدود ہونا چاہیئے۔ جمہوریہ آذربائیجان کی ایران اور آرمینیا نیز جنوبی قفقاز کے علاقے کے ساتھ طویل سرحدوں کا وجود اسلامی جمہوریہ ایران کی سکیورٹی کے  لئے خطرے ہے۔

جمہوریہ آذربائیجان میں اسرائیل کی موجودگی کا ایک اور مقصد اس خطے کے یہودیوں کی اسرائیل میں ہجرت کو آسان بنانا ہے اور اگر ضروری ہو تو مقامی باشندوں کو سکیورٹی اور اقتصادی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اس کا مقصد فلسطین کی آبادی میں اضافے اور مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے یہودیوں کی آبادی کی سطح کو بڑھانا ہے۔ دوسری جانب خطے میں اسلام پسندی اور اسلامی بیداری سے نمٹنے کی کوشش اس حکومت کو کسی بھی چیز سے زیادہ پریشان کرتی ہے، کیونکہ فلسطینیوں اور قدس کے مسئلے کے لیے مسلم رائے عامہ کی حمایت اسرائیل کو خطے میں مسلسل کمزور کر رہی ہے۔ دوسری طرف یہی مسئلہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے دور رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ حسینوف نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ جب نومبر 2020ء میں آذربائیجان نے آرمینیا پر فتح حاصل کی اور اس فتح کا جشن لوگوں نے منایا تو لوگوں کے اجتماع میں اسرائیلی جھنڈے نظر آئے۔ حسینوف لکھتے ہیں: اگرچہ باکو اکثر کہتا ہے کہ آذربائیجان اور اسرائیل کے درمیان شراکت داری کسی تیسرے فریق کے خلاف نہیں ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کو اس پر گہری تشویش ہے۔

حسینوف مزید لکھتے ہیں کہ تہران کی حکومت کے لیے نفسیاتی طور پر مشکل ہے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کرے کہ ایک ایسی قوم جس کی اکثریت شیعہ ہے، اس نے یہودی ریاست کے ساتھ اعلیٰ سطح کے تعلقات قائم کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1990ء کی دہائی کے وسط سے آذربائیجان کے حوالے سے ایران کے اعلیٰ عہدے داروں کی تشویش نمایاں ہے۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کے لئے اسرائیل کے مقام اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے باکو کے رہنماؤں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی طرف رجوع کیا ہے۔ نیز آرمینیا اور آذربائیجان کے خلاف یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم کے ہتھیاروں کی پابندی کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسرائیل کو آذربائیجان کی ہتھیاروں کی ضروریات پوری کرنے کا ایک موزوں ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں اور ایران اور اسرائیل کے تعلقات میں عداوت اور دشمنی اور تل ابیب کی جانب سے ایران کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے جمہوریہ آذربائیجان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات دونوں فریقوں کے لیے بہت اہم ہیں۔ درحقیقت، نکارا گوا کے مسئلے میں آرمینیا کا مقابلہ کرنے اور فوجی، انٹیلی جنس اور اقتصادی مدد حاصل کرنے کے لیے، آذربائیجان اسرائیل کے ساتھ ایک قسم کے اتحاد اور تزویراتی تعاون کی طرف بڑھا ہے۔

دوسری جانب صیہونی حکومت نے اپنے حریفوں اور دشمنوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے خطے میں تنہائی سے چھٹکارا حاصل کرنے اور دوستوں کی تلاش کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جمہوریہ آذربائیجان کے ساتھ قریبی تعاون کا اظہار کیا ہے۔ جمہوریہ آذربائیجان میں اسرائیل کی بتدریج موجودگی جو کہ "بین گوریون نظریہ" کی بنیادی سوچ پر مبنی تھی، 1992ء کے بعد، مختلف اقتصادی، مالی، سیاسی، سکیورٹی اور ثقافتی شکلوں میں ظاہر ہوئی۔ جمہوریہ آذربائیجان کا مشرق وسطیٰ میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر اسرائیل کے ساتھ وسیع تر تعامل کا رجحان اور اس ملک کے غیر متوازن داخلی، اقتصادی اور سیاسی ڈھانچے کی کمزوری بھی اسرائیل کے ساتھ دوستی کی ایک اہم وجہ ہے۔

درحقیقت جمہوریہ آذربائیجان میں اسرائیل کی موجودگی کے بعد اس ملک میں اسرائیلی اقتصادی اور سکیورٹی ماہرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا، اسلامی جمہوریہ کی پالیسیوں سے مختلف سیاسی سکیورٹی اشرافیہ کو تقویت ملے گی۔ آذربائیجان میں اسرائیل کی اقتصادی سرمایہ کاری کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کے تجارتی اور مالیاتی تبادلوں کی مقدار کو آذربائیجان کے ساتھ کم کیا جائے گا اور اسرائیل کی مطلوبہ سیکولر اقدار اور خطے میں مغربی افکار کو فروغ دیا جائے گا۔ اسرائیل آذربائیجان بڑھتے سفارتی تعلقات، اسلامی جمہوریہ ایران کے مطلوبہ اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچانے، اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی و سکیورٹی اثر و رسوخ کو محدود کرنے اور اسلامی جمہوریہ کے مفادات اور قومی سلامتی کو نقصان پہچانے کی ایک نئی سازش ہیں اور اس میں امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کا گھناؤنا کردار روز بروز سامنے آرہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1026231
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش