3
Friday 25 Nov 2022 00:27

ایران میں رجیم چینج مشن

ایران میں رجیم چینج مشن
تحریر: صادق الوعد

لوگ پریشان ہیں کہ اچانک ایران میں یہ کیا ہو رہا ہے۔؟ حالانکہ ایران میں یہ سب نیا نہیں۔ دنیا میں تحمل اور ظلم کی جنگ کوئی نئی نہیں۔ مسلمانوں کے درمیان بھی یہ ٹکراو ہمیشہ رہا۔ مظلوم ہمیشہ کٹتے رہے مگر جھکے نہیں، رُکے نہیں، ڈٹے رہے۔ کئی مرتبہ بستیوں کی بستیاں اجاڑ دی گئیں اور شہروں کے در و دیوار سے چیخ و پکار سُنی گئی۔ آہیں، سسکیاں سماعتوں سے ٹکراتی رہیں، آنکھیں لہو رنگ مناظر دیکھتی رہیں۔ المختصر یہ کہ تاریخ اسلام کا ایک اہم حصہ صبر اور مشکلات کو خنده پیشانی کے ساتھ بڑے مقصد کی خاطر تحمل کرنا رہا ہے۔ ایران میں بھی یہ سب دیکھنے کو ملتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جنوری1981ء کو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد یونیورسٹی کے کچھ طلباء نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد سے ایران اور امریکہ کے حالات کشیده ہوئے۔ تاہم  جاننے والے جانتے ہیں کہ ایران اور امریکا کی جنگ اس سے کئی عرصہ قبل شروع ہوچکی تھی۔ آغاز کرنے والا بھی خود امر یکا تھا۔

سنہ 1953ء کو ڈاکٹر مصدق کی منتخب گورنمنٹ گرا دی گئی۔ 13 اکتوبر 1964ء کو ایرانی پارلمانی امور میں دخل اندازی کرتے ہوئے قانون (Capitulation) پاس کروایا، جس کے تحت کسی بھی امریکی کو ایران کے عدالتی نظام سے استثاء حاصل ہوا۔جس کے خلاف امام خمینی نے بھرپور آواز بلند کی اور پورے ایران میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے اور بہت سارے افراد شهید ہوگئے۔ یوں امریکہ اور ایران میں اسلامی انقلاب کا پہلا ٹکراو ہوا۔ امریکہ نے ایسا سوچا تک نہ تھا کہ اسلام بھی سیاسی ہوسکتا ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد تجزیہ نگار، تجربہ کار جرنلسٹ کے تجزیئے اسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ نیو یارک یونیورسٹی کے پروفیسر، سینیئر تجزیہ کار گراہم فلر نے کہا: ایران میں انقلاب اسلامی سے پہلے، امریکہ نے کبھی سیاسی اسلام کے بارے میں سنا تھا، نہ ہی سوچا تھا، اسلامی انقلاب امریکی پالیسی کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا؛ امریکہ، مغرب اور بیشتر ممالک سیاسی اسلام سے خوفزدہ  تھے۔

خوف کا یہ عالم جاری رہا۔ سنہ 2010ء کی بہار عربی کے بعد استکبار کو ایران میں بھی امید کی کرن نظر آنے لگی۔ انہوں نے ایران میں رجیم چینج کے لئے انتھک کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ سنہ 2015ء کی جنگ یمن اور سعودی عرب، پھر خاص طور پر یوکرائن اور روس کے دوراں استکبار کو اسلامی طاقت کا مکمل اندازه ہوچکا تھا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم لاپیڈ کے پیش کرده فارمولے پر تیزی سے عمل درآمد شروع ہوا۔ یہ فارمولہ 2021ء میں (Octopus doctrine) اور ھزار وار تھیوری سے مشہور ہوا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا تھا، اس سے پہلے اسرائیل  ایران کے بازوں سے جنگ کرتا رہا۔ اب ہم اکٹوپس کا سر کچل کر رکھیں گے اور ماضی کی طرح صرف بازوؤں سے نہیں لڑیں گے۔ ایک اور تھیوری بھی اپنائی گئی، جسے (The thousand hit strategy) کا نام دیا گیا۔ جس کے مطابق ہر طرف سے ایران کو گھیر لینا تھا۔ اس نظریے پر عمل درآمد  کے لئے آئیڈیالوجی ، مالی امداد اور میڈیا سے سہارا  لینا ضروری تھا۔

اس کے لئے سعودی عرب نے مالی تعاون اور اسلحے کی ترسیل کا عہده سنبھالا۔ایران کے اندر ٹارگٹ کلنگ اور غارتگری کی ذمہ داری اسرائیل نے اٹھائی۔ میڈیا اور سیاسی طاقت کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی ذمہ داری امریکا نے لے لی۔ اب یہ سب ایک بہانے کے انتظار میں تھے۔ چنانچہ مہسا امینی کا واقعہ پیش آیا۔ نیو یارک ٹائم نے سب سے پہلے یہ خبر بریک کی اور اسی بہانے پوری قوت کے ساتھ ایران میں مداخلت شروع کر دی۔ ان تین ملکوں کے علاوه بھی انقلابِ اسلامی کی مخالف تنظیموں نے ایران میں رجیم چینج کیلئے اپنا اپنا حصّہ ڈالا۔ اب یہ سوال ہر باشعور انسان کے دماغ میں اٹھنا چاہیئے کہ ایران میں موجودہ نظامِ حکومت سے امریکہ کو  کیا پریشانی ہے۔؟ امریکہ کیوں اس سسٹم کو بدلنا چاہتا ہے۔؟ کیا تیل صرف ایران میں ہے۔؟ کیا صرف ایران اکیلا اسلامی ملک ہے۔؟ کیا صرف ایران کے پاس کوئی بہت بڑی فوجی طاقت ہے۔؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے اور اگر ایسا ہو بھی تو پھر امریکہ کو کھل کر ہیرو شیما، ناگا ساکی اور عراق و افغانستان کی طرح حملہ آور ہو جانا چاہیئے۔ پچھلی تین صدیوں سے انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت کا بہانہ بنا کر امریکہ مسلسل کمزور ممالک کے وسائل کو لوٹتا آرہا ہے۔ قریبی ملک افغانستان کو ہی لیجئے، جہاں امریکا نے ڈیموکریسی نہ ہونے کو بہانہ بنا کر وہاں پر فوجی حملہ کیا۔ 20 سال ارتکاب جرائم اور لوٹ مار کے بعد وہی حکومت دوبارہ لائی گئی، جس کے خلاف انہوں نے کارروائی کی تھی۔ امریکہ نے صدام سے فائدہ اٹھایا اور پھر عراق پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ امریکہ نے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو دو تین دن کے اندر تبدیل کروا دیا، لیکن امریکہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد ایسا کچھ نہیں کرسکا۔

اسی لئے امریکہ کھل کر ایران پر حملہ آور نہیں ہوتا، چونکہ امریکہ جانتا ہے کہ ایران ہرگز افغانستان، عراق یا لیبیا نہیں ہے۔ امریکہ کو ایران کے معدنی وسائل، آبی ذخیروں، فوجی طاقت اور ایٹمی اسلحے کے بجائے ایران کے دلکش اسلامی چہرے سے خوف ہے۔ امریکہ کو ایران کی مسلسل کامیابیوں، بہترین حکمت عملی اور دنیا میں اسلام کا خوبصورت چہرہ پیش کرنے سے پریشانی ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی چوالیس سالہ تاریخ سے لگتا ہے کہ اگلے برسوں میں امریکہ کی یہ پریشانی مزید بڑھے گی۔ ایران میں رجیم چینج مشن کے کامیاب ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے بلکہ اس کے برعکس امریکہ کی ان کوششوں کی ناکامی کی وجہ سے دنیا بھر میں اندرونی و بیرونی سطح پر ایران کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1026689
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش