0
Saturday 26 Nov 2022 14:44

امام خمینی ؒکا عرفانی منہج

امام خمینی ؒکا عرفانی منہج
تحریر: حسن اقبال

امام خمینی کی عام شہرت بطورِ مصلح ہے۔ مخلوقِ خدا کو دین اور خدا کی طرف دعوت دینا آپ کی قیادت اور رہبری کا تحفہ ہے۔ آپ کا کار نمایاں اُن عرفانی و اِلہیٰ اقدار کا احیاء ہے، جو رفتہ رفتہ بھلائی جاچکی تھیں۔ صدیوں کے بعد ان اقدار کو دوبارہ معاشرے کی فضا میں حقیقی طور پر واپس لانا آپ ہی کا کارنامہ ہے۔ آپ نے انسانوں کو جہانِ خارج میں اپنے اعضاء و جوارح کے ساتھ دین کی جلوہ نمائی کی دعوت دی۔ بطورِ عارف، اسلامی شعائر کی ایسی پابندی کے آپ داعی تھے، جو کہ ہر طرح کی ریاکاری اور دکھاوے کے خلاف ہو۔ عرفان کا کار نمایاں ظاہر و باطن کی دونوں حقیقتوں کو یکجا کرنا ہے۔ امام خمینی خالص اور حقیقی عرفان کے زندہ کرنے میں ایک علمبردار، رہبرِ کامل اور مُرشد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے منحرف شدہ عرفانی تعلمیات کو از سرِ نو درست کیا اور سب کو یاد دلایا کہ خالص عرفان ہرگز گوشہ نشینی، سب کچھ جائز جاننے اور حالاتِ حاضرہ سے بے اعتنائی کا نام نہیں بلکہ حقیقی عرفان جہاد اور میدانِ عمل کا نام ہے۔

امام خمینی اپنے معبود کے عاشق تھے۔ آپ کا معبود ہی آپ کا معشوق تھا۔ اس کے جلوے نے آپ کے وجود میں ہر طرح کی غیر کی بندگی و نوکری، تکبر اور خود غرضی کا قلع قمع کر ڈالا تھا۔ وہ حقیقی فقیہ جس کی ولایت آپ کے نزدیک اسلامی امت پر ضروری ہے، ایسا انسان تھا کہ معشوق کے جلوے اور محبوب کی غیرت نے جس کے وجود میں لفظ "میں" کے وسوسے کی ہر گنجائش کا خاتمہ کر دیا ہو، جو دین اور انسان کی حقیقت سے واقف ہو، جس کا کلام خالق کے کلام کا آئینہ دار اور جس کی ولایت میں خداوند تعالیٰ کی ولایت کا جلوہ ہو۔ آپ کے عرفانی منہج میں عشق، انتہائی بندگی میں اور بندگی انتہائے آزادی میں تشکیل پاتی ہے۔ امام خمینی کے نزدیک عرفان نام ہے معبود تک پہنچنے، اس میں فانی ہونے، "لا" اور "الا" کی حقیقت کو باور کرنے، سوائے اس کے کسی کو نہ دیکھنے، محبوب کی آواز کے سوا کچھ نہ سننے، "علم الیقین" کو عبور کرنے، "عین الیقین" سے آگے بڑھ کر "حق الیقین" کے بلند مقام تک پہنچنے اور ظاہر سے باطن کی طرف جانے کا۔

آپ کا راستہ حقیقت تک پہنچنے اور سچائی کو پانے کا راستہ ہے۔ آپ کے رسا الفاظ میں عرفان پردوں کے ہٹنے سے عبارت ہے، کتابوں کا ڈھیر لگانے سے نہیں۔ الغرض عرفان عبور کا نام ہے، خالص حقیقت تک پہنچنے اور حرکت کا نام عرفان ہے، ایسی حرکت جو خداوند عالم کی طرف اوپر کی جانب جوش و جذبے اور ہمت و حوصلے کے ساتھ ہو یہی جہاد اکبر ہے، دائمی اور لگاتار جہاد، یہی یعنی نفس امارہ سے آزادی کی کوشش۔ امام خمینی کے نزدیک عارف ایسا انتھک مجاہد ہے، جس نے تقویٰ کا جنگی لباس پہن رکھا ہو اور جو دونوں میدانوں میں جہاد کرنے میں سرگرم ِعمل ہو۔ ایسا عارف ہو، جو بس معشوق کے بارے میں سوچتا ہے اور فقط اسی سے مانگتا ہے۔ عارف وہی ہے، جو انسانوں پر نجاست، برائی، سینہ زوری اور مفاد پرستی کی حکومت برداشت نہیں کرسکتا۔ عارف کے ہاں جہاد اپنا حقیقی روپ دھارتا ہے اور خدا کے ساتھ بندے کا ذاتی تعلق کتنا مضبوط ہے، اس کا اظہار ہوتا ہے۔

عارف ایک ایسا انتھک اور دلاور مجاہد ہے کہ جس کا نصب العین طلبِ کمال، معنوی مقامات تک رسائی اور حقیقتِ مطلق اور خدا کی ابدیت میں فانی ہو جانے کے سوا کچھ نہیں۔ عارف انسانوں کیلئے خاص و مقام و منزلت کا قائل ہوتا ہے۔ وہ اولادِ آدم کو زمین پر خدا تعالیٰ کا جانشین جانتا ہے اور اس پر خواہشات نفسانی اور زمانے کے طاغوتوں کی حکومت اور تسلط کو جائز نہیں جانتا۔ عارف یہ منادی دیتا ہے کہ جو لوگوں کی آزادی، دین اور دنیا سے ٹکرائے گا، ہم اس کی طاقت اور اس کی مادی دنیا سے ٹکرائیں گے۔ حقیقی عارف، گوشہ نشینی، کاہلی، تن پروری، بے دینی، سُستی، حقائق سے بے اعتنائی اور ظالم کے سامنے جھک جانے کو نہیں مانتا۔ وہ ایسا معاشرہ قائم کرنے کیلئے کوشاں رہتا ہے، جو عرفان کے منظور ِنظر بلند مرتبہ انسان کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔

امام خمینی ؒ نے اپنے علم و عمل کے ساتھ ایک خالص حقیقی عرفان دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے کفر و الحاد کے سربراہ گورباچوف کو ایک خط لکھا، جس میں بابائے عرفان نظری محیی الدین عربی کی کتاب "فصوص الحکم" کا تعارف کرایا۔ امام خمینیؒ مسلمان ہونے کو عارف ہونے سے الگ نہیں جانتے تھے۔ آپ حقیقی عرفان کے داعی اور مدافع تھے۔ آپ کے نزدیک عرفان ہر طرح کی ذلت و رسوائی، عیش کوشی، گوشہ نشینی اور خلوت گزینی کا مخالف ہے۔ عرفان ہر طرح کی بے راہ روی اور دینی ظواہر سے دوری کو ناپسند کرتا ہے۔ امام خمینی کسی ایسی حرکت، کسی ایسے عمل اور ایسے جوش و جذبے کو پسند نہیں کرتے تھے، جو معنویت اور تقویٰ کی خوشبو سے خالی ہو۔ آپ کے نزدیک انقلاب انسان کے اندر جنم لیتا ہے، جب انسان اپنے اندر کے شیطانی لشکروں پر غالب آجاتا ہے تو پھر چراغ سے چراغ جلتا ہے اور ایک اجتماعی معاشرتی تبدیلی وقوع پذیر ہونے لگتی ہے۔ جو بھی سماج میں تبدیلی کا خواہاں ہے تو اس کو جہاد اکبر جیسے راستے سے گزرنا چاہیئے، پھر جاکر جہادِ اصغر انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

آخر میں ہم حسنِ اختتام کے طور پر امام خمینی کے کلام کے چند جملے پیش کرتے ہیں۔ "اے عزیز! کمر ہمت باندھ اور دست سوال دراز کر اور جیسے بھی بن پڑے اپنے حالات کی اصلاح کر، آخرت کا راستہ باریک اور انسانیت کا راستہ جدید ہے اور مکڑی کی طرح ہم بے چارے خشک گوشت کے ٹکڑوں کے درپے ہیں، ہم سرگرداں ہیں، کیونکہ ہم نے ریشم کے کیڑے کی طرح اپنے اوپر خواہشات نفسانی اور آرزووں کا جال بُن لیا ہے اور عالم غیب اور محفل اُنس سے صرف نظر کرچکے ہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
1۔ رہ عشق، ص ١٧
2۔ فصوص الحکم، ص ١٥٠ ابن عربی۔
3۔ تعلیقات بر شرح فصوص الحکم، ص ٢٠١ امام خمینی۔
4۔ امام خمینی اور احیائے فکر دینی، ص ٢٨٥
خبر کا کوڈ : 1027008
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش