0
Monday 28 Nov 2022 18:33

وہ حالات، جب جمہوریت مر جاتی ہے

وہ حالات، جب جمہوریت مر جاتی ہے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

وطن عزیز کو عجیب صورتحال درپیش ہے، ووٹ کی طاقت سے بنا یہ آشیانہ بار بار آمریت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس پر مکالمہ نہیں ہوتا کہ کیا وجہ ہے کہ جمہوریت یہاں پنپ نہیں سکی، یا پنپنے نہیں دی گئی۔؟ ان وجوہات پر غور نہیں کیا گیا، جن کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب آمر آتے ہیں تو جمہور کے حق پر ڈاکہ ڈلتا ہے، مگر کوئی عوامی ردعمل نہیں آتا بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور بڑے پیمانے پر سیاستدان آمروں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ آج بھی کچھ ایسی صورتحال درپیش ہے کہ جمہوریت کو وجود کا چیلنج درپیش ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت ایک طرز حکومت ہے، جس میں بادشاہوں کے بے تحاشہ اختیارات کو نکیل ڈال دی گئی اور انہیں کئی لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ریاست کو اختیارات کا مالک قرار دیا گیا، مگر اس کو بھی دستور کا پابند ٹھہرایا گیا۔ تقسیم کار یوں رکھی گئی کہ قوانین کو بنانے سے لے کر نفاذ تک کے پروسسز میں الگ الگ لوگ اور ادارے ذمہ داریوں کو ادا کریں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اب تک کا سب سے مقبول نظام حکومت ہے، جسے انسانی دانش نے تشکیل دیا ہے۔

جمہوریت کے بارے میں مذہب کیا کہتا ہے؟ مشرق اور مغرب کی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟ اشتراکی ممالک اور غیر اشتراکی ممالک میں جمہوریت کے کیا کیا معانی ہیں؟ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ آج ہم فقط یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کب جمہوریت کا  بطور نظام انتقال ہو جاتا ہے اور وہ مر جاتی ہے۔ ہمارے معاشروں میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جمہوریت اس وقت ختم ہوتی ہے، جب کوئی ڈکٹیٹر عوامی حق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے طاقت کے بل بوتے پر حکمران بن بیٹھتا ہے اور تمام جمہوری اداروں کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ یہ جمہوریت کے نہ ہونے کا اعلان ہوتا ہے۔ جمہوریت کب مرتی ہے؟ یہ بہت دلچسپ سوال ہے اور اس کا جواب اس عام بیانیے سے کافی مختلف ہے۔ سٹیون لیوٹسکائی اپنی مشہور کتاب جمہوریت کیسے مرتی ہے؟ میں لکھتے ہیں ہوسکتا ہے کہ جمہوریت جرنیلوں کی بجائے منتخب نمائندوں کے ہاتھوں مر جائے، جنہیں ہم وزیراعظم، صدر کہتے ہیں، وہی اس نظام کی بساط لپیٹ دیں، جو انہیں طاقت میں لایا تھا۔ کچھ جمہوری لیڈر جمہوریت کو بہت تیزی سے ختم کرتے ہیں، جیسے ہٹلر نے کیا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جمہوریت آہستہ آہستہ ایسے اقدامات سے ختم ہو جاتی ہے، جو بہت حقیر ہوتے ہیں۔

سٹیون کا یہ کہنا انتہائی اہم ہے کہ جمہوریت کو وہ گروہ ہی ختم کرتے ہیں، جنہیں اس کے ذریعے طاقت ملتی ہے۔ وہ ایسے اقدامات کرتے ہیں، جن سے جمہوریت بطور ادارہ تباہ ہو جاتی ہے اور آخر کار وہ مر جاتی ہے۔ سٹیون ایک دوسری جگہ لکھتا ہے کہ آمر حکمران اکثر معاشی بحرانوں، قدرتی آفات اور خاص طور پر سلامتی کے خطرات،  جنگوں، مسلح شورشوں، یا دہشت گردانہ حملوں کو اپنے جمہوریت مخالف اقدامات کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک بحرانوں کا شکار رہتے ہیں، یہاں بارش نہ ہو تو قحط مارتا ہے اور بارشیں ہو جائیں تو سیلاب تباہی مچا دیتے ہیں۔ محدود وسائل اور حد سے بڑھے اخراجات کچھ کرنے نہیں دیتے، جس سے بدامنی آتی ہے اور جب مالی عدم استحکام ہوگا تو ڈاکے پڑیں گے، دہشتگرد کنٹرول نہیں ہوسکیں گے اور دھماکوں کا دور دورہ ہوگا۔ یہی وہ وقت ہوگا، جب کوئی طالع آزما جمہوریت کی گردن دبا کر اسے مار دے گا۔

مشہور مغربی مفکر ڈومن کیتھ لکھتا ہے کہ جمہوریت بند دروازوں کے پیچھے مار دی جاتی ہے۔ جب حکومتیں دروازے بند کرنے لگتی ہیں، وہ ان اطلاعات کو بھی کنٹرول کرتی ہیں، جن کا جاننا عام لوگوں کا حق تھا اور مرضی کی اطلاعات کا ہی فراہم کرنا دراصل غلط اطلاعات دینا ہے۔ یہاں کیتھ نے بڑی اہم بات کی ہے، جمہوریت عوام کا نظام ہے، جب بات عوام سے خواص تک محدود ہو جاتی ہے اور فیصلے بند دروازوں کے پیچھے ہونے لگتے ہیں تو جمہوریت مر جاتی ہے۔ نوم چومسکی نے بڑی خوبصورت بات کہی۔ اچھا پروپیگنڈا یہ ہے کہ آپ ایک ایسا نعرہ لگاتے ہو، کوئی بھی جس کے خلاف نہیں جاتا، ہر کوئی اس کی طرف آتا ہے اور کوئی بھی اس کا مطلب نہیں جانتا۔ پروپیگنڈا کتنی ظالم چیز ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سارا اسرائیل فلسطین کی زمینیں ہتھیا کر بنا، لاکھوں فلسطینی جلاوطنی کی زندگی کیمپوں میں گزار رہے ہیں اور آئے دن اسرائیلی بمباری سے ہر سال سینکڑوں بیگناہ شہید ہو جاتے ہیں، مگر دنیا میں مظلوم اسرائیل کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ آج سیاسی جماعتوں کے بیانیوں پر نظر دوڑائیں تو کہیں مذہبی تڑکے کا سہارا ہے اور کہیں محبتِ وطن فروخت ہو رہی ہے۔ فکری افلاس پر مبنی بیانیے ہیں، جو نیم خواندہ اور منطق و فلسفہ سے عاری نسل کو متاثر کر رہے ہیں۔

محترم فرحان ایڈوکیٹ صاحب کا نتیجہ تحقیق یہ ہے کہ مفکریں اس پر متفق ہیں کہ جب سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف حدود کو کراس کر جائیں۔ صرف نیچا دکھانے اور ووٹ کے حصول کے لیے الزام در الزام کا ایسا سلسلہ شروع کر دیں، جو بڑھتے بڑھتے سب کو بہا کر لے جائے گا اور وہ ادارہ جو سیاستدانوں کو طاقت دیتا تھا، تباہ ہو جائے گا۔ پاٹ بچنل نے لکھا کہ جمہوریت کافی نہیں ہے، جب کلچر اور ملک مر جائے۔ جمہوریت یا کوئی بھی نظام ملکوں کی تعمیر کے لیے تشکیل دیا جاتا ہے، اگر اس کی اونر شپ رکھنے والے سیاستدان اسے کلچر اور ملک کی تباہی کا ذریعہ بنا لیں تو یہ وہ وقت ہوتا ہے، جب جمہوریت مر جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان میں جمہوریت مرنے والی، مگر یہ ضرور کہوں گا کہ جمہوریت لولی لنگڑی ہو کر ہسپتال پہنچ چکی ہے۔ تباہی پھیلانے والے طوفان آچکے، کروڑوں لوگوں کو سردی کا چیلنج درپیش ہے اور جمہوری ادارے موثر واقع نہیں ہوئے۔ سیاستدان ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کر رہے بلکہ ایک دوسرے کی تذلیل کر رہے ہیں، جو بطور نظام جمہوریت کو ناقابل اعتبار بنا رہا ہے۔ ایسا ظالم پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ریاست کا ہر ستون ناقابل اعتبار قرار دیا جا چکا ہے۔ سیاستدان ملک و قوم کو جوڑنے کا کام کرتے تھے، اب خود ایک ساتھ نہیں بیٹھ رہے۔
خبر کا کوڈ : 1027364
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش