0
Tuesday 29 Nov 2022 19:25

ایران اور دو قطبی منظر نامہ

ایران اور دو قطبی منظر نامہ
تحریر: سيد رضی عمادی

ایران میں عدم تحفظ اور افراتفری کے ایک نئے دور کے آغاز کے ساتھ ہی، اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن اور مخالفین مختلف جہتوں میں بڑی تیزی سے کام کر رہے ہیں، جن میں سے ایک ایران اسلامی کو دو قطبوں یعنی عوام اور حکومت میں (حکومت کے حامی اور مخالف گروہ) تقسیم کرنا بھی شامل ہے۔ دو قطبی منظر نامے میں، دشمنوں کی توجہ مختلف علاقوں پر تھی اور میکرو منظر نامہ میں حکومت اور عوام میں اختلاف کی تخلیق اہم قدم تھا۔ اس کا مطلب یہ دکھانا ہے کہ حکومت عوام کی آواز نہیں سنتی اور عوام کے مطالبات سے الگ راستہ اختیار کرتی ہے۔ اس منظر نامے کے تفصیلی منصوبے میں ملک کو علاقوں میں تقسیم کرکے وہاں کی مقامی صورت حال کے تحت اختلافات کو ہوا دینا ہے۔ مثال کے طور پر کہیں نسلی، کہیں لسانی اور کہیں مذہبی گروہوں کو اس کام کے لئے استعمال کرکے اختلاف اور علیحدگی پسندی کی تحریک کو پروان چڑھانا ہے۔ اس حوالے سے دشمنوں کے مقاصد کیا ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں۔؟

اس سلسلے میں کئی اہم مقاصد کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ پہلا مقصد، ایرانی معاشرے کے اندر سماجی تقسیم پیدا کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شناخت کے اس دوہرے پن کا پہلا مقصد ایران میں سماجی خلیج پیدا کرنا ہے۔ سماجی تقسیم کا مطلب ہے، کسی ایک معاشرے کو منتشر اور متضاد معاشرے میں تبدیل کرنا، جس کا مطلب سماجی انضمام کو نشانہ بنانا ہے۔ کیونکہ جو معاشرہ اس صورتحال سے دوچار ہوگا، اس میں عدم تحفظ پیدا کرنا ممکن ہوگا۔ ایک منقسم معاشرہ ترقی اور پیشرفت کی راہ پر گامزن نہیں ہوتا اور اس میں بنیادی طور پر سماجی اور سیاسی خرابیوں کا نہ رکنے والا شلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

 اس تخریبی حربے کا ایک اور مقصد سماجی سرمائے کو کمزور کرنا ہے۔ عوام کو دو قطبوں یعنی حکومت کے حامی اور مخالف گروہ میں تقسیم کرنے کا دوسرا اہم مقصد ملک کے سماجی سرمائے کو کمزور کرنا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں اور مخالفین نے حالیہ برسوں میں ملک کے سماجی سرمائے کو کمزور کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔ سابق امریکی حکومت کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اسی مقصد کے ساتھ چلائی گئی۔ اب سماجی سرمائے کی کمزوری اور تباہی دشمن کی نرم جنگ اور میڈیا کی جنگ کا مرکزی ہدف ہے۔ اس اہم مقصد کو ماضی میں معاشی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اور آج شناخت پر توجہ کے ساتھ حاصل کیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی میدان میں حکومت کو غیر فعال بنانا۔ حکومت اور عوام میں اختلاف اور ایک دوسرے کے مقابل لانے کا ایک اور مقصد حکومت کو عالمی میدان میں غیر فعال بنانا ہے۔ اگرچہ گذشتہ چند مہینوں میں ایران اور مغرب کے درمیان مذاکرات روک دیئے گئے تھے، تاہم فریقین کے درمیان اب بھی پیغامات کا تبادلہ جاری ہے۔ بعض رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے والے ممالک اور امریکی حکومت نے مطالبہ کیا تھا کہ ایران اپنے کچھ مطالبات کو مذاکرات سے ہٹا دے۔ ایسی درخواست کی وجہ ایران میں بدامنی ہے۔ مغربی ممالک کو یہ غلط فہمی تھی کہ داخلی انتشار اور خلفشار کے جاری رہنے کی وجہ سے حکومت دباؤ میں آکر امریکہ اور یورپی ٹرائیکا کی بات ماننے پر مجبور ہوجائیگی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے طرز عمل سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ وہ اس طرح کی دھونس دھاندلیوں میں نہیں آنے والی ہے۔

اختلاف اور علیحدگی پسندی کی تحریک کو پروان چڑھا کر اسلامی نظام کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگانا ہے۔ دشمن کی کوششوں کا حتمی ہدف ایران کے اندر کی رائے عامہ اور عالمی رائے عامہ دونوں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو قانونی حیثیت کے حوالے سے بحران کا سامنا ہے اور ایرانی عوام کی اکثریت اس نظام کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ درحقیقت اسلامی جمہوریہ کے خلاف حالیہ جنگ کا حتمی مقصد قانونی حیثیت کا بحران پیدا کرنا ہے۔ شرپسنندوں اور مٹھی بھر بلوائیوں کے مقابلے میں ایرانی قوم نے مختلف مواقع پر سڑکوں پر آکر اس بار بھی ثابت کیا ہے کہ اسلامی انقلاب عوام کی مرضی سے برپا ہوا اور عوام کی بھاری اکثریت اب بھی اس نظام کے ساتھ کھڑی ہے۔ دشمن اسلامی جمہوریہ ایران کے تشخص کو مجروح کرکے اور خاص طور پر حکومت کو عوام سے الگ کرکے اس کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ماضی کی طرح اس بار بھی شکست اسکا مقدر ہوگی۔

دشمن نے تحریفات، جھوٹ اور جعلی بیانیوں کے ذریعے اذہان پر قابو پانے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، تاکہ اس عمل کے نتیجہ میں خاص طور پر نوجوان نسل کی اسلامی و ایرانی شناخت اور تشخص کو ختم کر دے۔ ایران دشمن عناصر کی کوشش ہے کہ نوجوان نسل کے اذہان میں یہ بات ڈال دیں کہ اس نظام میں ترقی ممکن نہیں ہے اور نوجوان پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر اس نظام کی کامیابیوں سے انکار اور اس کی مختلف شعبوں میں پیشرفت کو نظر انداز کر دیں۔ دشمن ان اوچھے ہتھکنڈوں سے عوام میں غصہ اور نفرت پیدا کرنا چاہتا ہے، تاکہ اسلامی نظام، اس کی قانونی حیثیت اور تشخص کو عالمی سطح پر چیلنج کرکے موجودہ حکومت کو اپنے اصولی موقف سے پسپائی پر مجبور کر دے، لیکن دشمن کو اپنے اس ہدف میں بھی پہلے کی طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ وہ نہ صرف اسلام کو صحیح نہیں سمجھ سکا، بلکہ اس کے ایرانی عوام کے بارے میں اندازے بھی درست نہیں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1027560
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش