0
Tuesday 29 Nov 2022 22:41

ابلیسی طاقتوں کی شرارتیں اور اہل حق کی ذمہ داری۔۔۔

ابلیسی طاقتوں کی شرارتیں اور اہل حق کی ذمہ داری۔۔۔
تحریر: م ع شریفی

یوں تو شیطانی طاقتوں، ان کے نمک خوار اور آلہ کاروں کی حق و اہل حق سے  دشمنی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تاریخ میں دونوں طاقتوں کی جنگ ہمیشہ سے رہی ہے۔ اب یہ معرکہ سرد جنگ کی صورت اختیار کرچکا اور اس وقت عروج پر ہے۔ باطل طاقتیں حق و اہل حق کو مٹانے اور کمزور کرنے کے لئے ہمیشہ تاک میں ہوتی ہیں اور کوئی دقیقہ فروگزار ہونے نہیں دیتیں۔ استکبار اور باطل قوتوں کی خدمت اور حق نمک خواری ادا کرنے میں ہمارا میڈیا ہمیشہ پیش پیش دکھائی دیتا ہے۔ کچھ دن پہلے  جنگ گروپ نے ایک غلط بیانیے کو بڑے جلی حروف میں چھپوا دیا تھا۔ جو سراسر شیعہ دشمنی اور بدنیتی پر مبنی تھا۔ پچھلی تحریر میں خاکسار نے اس گروپ کی بدنیتی اور حقائق سامنے رکھے تھے اور حال ہی میں پاکستان کے ایک دوسرے اور مشہور اخبار (ایکسپریس) نے بھی انقلاب مخالف رائٹر کی، حالیہ فسادات کے بارے میں بڑی من گھڑت تحریر چھاپ دی ہے۔

یہ سب استکبار اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کے آلہ کار اور نمک خوار لوگ ہیں، ان اخباروں میں، ہمارے اپنے ملک کی خبریں ہی پڑھ لیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ میڈیا والے اس مقدس پیشے کے تقدس کا کتنا خیال و احترام رکھتے ہیں، کتنا سچ بولتے، لکھتے اور حقائق بیان کرتے ہیں۔ اپنی ناپسند پارٹی یا لیڈر یا فرقہ یا ملک جن کی  خوبیوں اور اچھے کاموں کی رپورٹینگ کرنا تو دور کی بات، ان کی خوبیوں کو بھی  کمزوری اور غلطی کے طور پر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے باریک بینی سے ان  کی معمولی کمزوریوں پر نظر رکھی ہوئی ہوتی ہے۔ جس طرح لاش خور جانور کسی مردار کی تلاش میں ہوتا ہے، جنگ گروپ نے بڑی کوششیں کرکے اور ایک خبر کو نہایت سنسنی خیز انداز میں چھاپ دیا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی بھانجی کو حکومت کے خلاف بولنے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔

شیطانی قوتوں کے آلہ کار اور نوکر ہمیشہ اسلام و مسلمین اور اسلامی ریاستوں  میں تخریب و افراتفری چاہتے ہیں۔ یہ کوئی بڑی خبر نہیں تھی، جس طرح پیش کیا گیا، یہ خاتون پہلے بھی جیل کی ہوا کھا چکی ہیں۔ ان کے خاندان کا بیک گراؤنڈ  پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ شیخ علی تہرانی کی پوتی ہیں، جو آیت اللہ خمینی سے کسی بات پر ناراض ہو کر نجف چلے گئے۔ بعد میں صدام سے تنگ آکر پھر تہران واپس آئے تھے اور ایران میں ہی ان کا انتقال ہوا تھا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، تاریخ کے اوراق پلٹائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کتنے ہی الہیٰ نمایندوں کو اپنے ہی عزیزوں نے ستایا۔ ان کے الہیٰ دین اور الہی آئین کا مذاق اڑایا گیا اور ان کے مقابل میں آگئے۔۔۔ اور ایک طرف یہ دنیا کا اصول اور دستور بھی ہے کہ سارے ممالک خصوصاً وطن عزیز پاکستان میں بھی اس پر بڑی شدت کے ساتھ عمل ہو رہا ہے۔ ہر ملک کے کچھ حساس ادارے ہوتے ہیں، کچھ شخصیات ہوتی ہیں، انہیں ریڈ لائن سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔۔

ان کے خلاف بولنے اور لکھنے پر آپ اور ہمارے ملک میں کیا قانون ہے(اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسے ہی قوانین ہیں۔) اور کیا ہو رہا ہے، یہ سب کے سامنے ہے۔ ایران میں بھی ان کے اپنے کچھ قوانین ہیں، کچھ بین الاقوامی قوانین ہیں، انہی کے تحت یہ کارروائیاں، یہ گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ اگرچہ آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کی ذات کی یا ان کی تصویر کی کوئی توہین کرے تو انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ ویسے دوسرے زاویئے سے دیکھا جائے کہ قانون سب کے لئے ہے تو یہ انقلاب اسلامی کا طرہ امتیاز اور اچھی روایت سمجھی جانی چاہیئے کہ سب سے بڑی قیادت کی فیملی کو بھی کوئی رعایت، کوئی استثنیٰ حاصل نہیں۔ کوئی NRO نہیں مل رہا، قانون کے کٹہرے میں سپریم لیڈر کی بھانجی نے بھی آنا ہے۔ کوئی اس منصب سے غلط استفادہ نہیں کرسکتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قانون سب کے لئے برابر ہے۔

کیا ہمارے ملک کے برسر اقتدار صدر اور وزیراعظم کے خاندان کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔؟؟ ہمارے ہاں تو جس دن خاندان کے کسی فرد کو کوئی بڑی کرسی نصیب ہوئی  تو دوسرے دن مجرم فرشتہ بن کر  آزاد گھوم رہا ہوتا ہے یا کسی دوسرے ملک کا راہی ہوچکا ہوتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کی بھانجی کی گرفتاری قانون کی بالادستی کی واضح اور بہترین مثال اور علامت ہے۔ حکومتوں سے ناراض افراد ہر جگہ ہوتے ہیں، کیا سب امریکی جوبائیڈن سے راضی ہیں۔؟؟ کیا برطانیہ کے وزیراعظم سے سب خوش ہیں۔؟؟ کیا سعودیہ عرب کے سب لوگ بادشاہ کو ہمیشہ سیاہ و سفید کا مالک دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا دیگر عرب دنیا کے بادشاہوں سے اپنے لوگ راضی ہیں۔؟؟ اصل دیکھنے اور سمجھنے کی چیز یہ ہے کہ کتنے فیصد شرپسند ہیں، کتنے فیصد اسلامی نظام سے ناراض ہیں اور کتنی فیصد حامی ہے۔؟؟ یہ سڑکوں پر آنے والے لوگوں کی تعداد بتاتی ہے۔

انقلاب اور اسلامی نظام کی حمایت میں کروڑوں لوگ تین بار سڑکوں پر آئے، ہمارے اندھے میڈیا والوں کو نظر نہیں آئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پورے ایران میں سب شہروں کو ملا کر بلوائیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔ جہاں تک سکیورٹی  اہلکاروں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے کی من گھڑت تعداد جو بتائی گئی ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق تہران اتنا بڑا شہر ہونے کے باوجود اب تک کوئی شرپسند مارا نہیں گیا، حالنکہ بہت سے پولیس اہلکار شہید ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سپریم لیڈر آیت خامنہ ای نے خصوصی ہدایت کی ہوئی ہے کہ مظاہرین پر کوئی گولی نہ چلائے۔ ان میں سے اکثر کو دھوکے میں لایا گیا ہے، گرفتار افراد میں سے بہت سوں نے اقرار بھی کیا ہے کہ ان کو امریکہ اور یورپی ممالک کی نیشنلٹی دینے کا جھانسہ دیا گیا۔ باقاعدہ مختلف قسم کے خطرناک اسلحہ، چھریاں، باردود اور دیگر مہلک چیزیں تقسیم ہوئیں۔ بلوائیوں کو باقاعدہ ٹرینڈ کیا گیا۔

اس کو ایک ترکیبی جنگ کا نام دیا گیا ہے، مختلف حربے استعمال کرنا، خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ عام شہریوں کو انتہائی بےدردی سے قتل کرنا۔ عوامی اور حکومتی املاک کو نقصان پہنچانا ہے۔ بین الاقوامی قانون ہے کہ ایمبولینسز،  ہاسپٹلز، سکولوں اور عوامی مقامات کو جنگوں میں بھی نشانہ بنانا جرم ہے۔ ایران میں اس بار کرائے کے بلوائیوں نے تمام حدیں پار کر دیں، کسی کو نہیں چھوڑا، ظلم و بربریت کی انتہاء کر دی۔ یہ سب عالمی انسانی حقوق کے علمبرداروں کے زیرنظر اور ہدایات پر ہو رہا ہے۔ یہ سب ان کی طے شدہ پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے۔ 80 ملین سے زیادہ آبادی والے ملک میں ایک لاکھ کے لگ بھگ مادر پدر آزاد مغربی کلچر  کے خواہاں کچھ سبک مغز جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے کہنے پر اسلامی نظام میں تبدیلی لائی جائے؟ یہ کہاں کی منطق ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔؟؟ یہ ہمارا بےشرم میڈیا پاکستان کے تقریباً 70 فیصد حکومت سے ناراض لوگوں کی تعداد نہیں بتاتا، ان کی درست رپورٹنگ نہیں کرتا۔

لفافی صحافیوں کا یہ ٹولہ، حرام خوری کی وجہ سے جن کی آنکھوں اور دلوں پر مہر لگ چکی ہے، کوئی درست خبر نہیں دیتا۔ اپنی پسند کی شخصیات، ممالک، پارٹیوں اور فرقوں کی من گھڑت خبریں ہی دینا اور ان کے جادوئی کرداروں پر تجزیہ و تحلیل کرنا ہی ان کا کام رہ گیا ہے۔ ہر روز تھیلیاں بھر بھر کر اور جھوٹ لے کر شیطانی چینلوں پر صبح نمودار ہوتے ہیں اور رات گئے خالی کرکے اگلی صبح کے لئے مزید جھوٹی رپورٹ اور حق و حقیقت سے کوسوں دور خبریں دینے اور تجزیئے کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔۔ان شیطانی قوتوں کے آلہ کاروں، ابلیسی میڈیا سے مقابلہ کرنے اور حقائق پہنچانے کے لئے سوشل میڈیا ایک بہترین وسیلہ ہے۔ ہر اہل قلم کی شرعی ذمہ داری ہے کہ حق اور حقیقت کے پرچار، باطل قوتوں اور ان کے آلہ کاروں کو ننگا کرنے کے لئے کمربستہ ہوکر حق و حقیقت اور سچ کی ترویج کی ضرورت کو پورا کرے، تاکہ ہماری نئی نسل کے لئے ان ابلیسی چینلوں کا حقیقی چہرہ واضح ہو جائے اور وہ ان کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1027604
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش