QR CodeQR Code

طالبان کا پاکستانی حکومت کے ساتھ ہنی مون ختم؟!

2 Dec 2022 20:29

اسلام ٹائمز: اس دورے کو دونوں ممالک کی سرحد پر سکیورٹی کی صورتحال سے متعلق اور خاص طور پر تحریک طالبان کے بیان سے اس لیے جوڑا جاسکتا ہے کہ یہ دورہ ایسے وقت انجام دیا گیا ہے، جب ٹی ٹی پی سے معاہدہ ختم ہوگیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس دورے کا مقصد افغان طالبان کو تحریک طالبان پر دباؤ ڈالنے پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ پاکستانی حکومت کے مطالبات کو تسلیم کریں، جن میں اس گروپ کی تحلیل اور پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا شامل ہے، البتہ دونوں ممالک کی سرحد پر تجارت کیلئے خرلاچی کسٹمز کو دوبارہ کھولنا بھی شامل ہے اور یہ پاکستانی حکومت کیطرف سے حکمران طالبان کو ٹی ٹی پی کے مسئلہ میں تعاون کا ایک طرح کا انعام بھی ہوسکتا ہے۔


تحریر: سید رحیم نعمتی

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بدھ کے روز ہونے والے خودکش دھماکے میں کم از کم تین افراد جاں بحق اور تیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ اس حملے کا ہدف پولیس کی گشتی گاڑی تھی، کوئٹہ پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں نصف سے زیادہ پولیس اہلکار تھے۔ یہ خونریز حملہ تحریک طالبان کی جانب سے ہفتے کے روز پاکستانی حکومت کے ساتھ جنگ ​​بندی ختم کرنے کے اعلان کے دو دن بعد کیا گیا، اس اعلان میں پاکستان بھر میں حملے دوبارہ شروع کرنے کہا گیا تھا۔ مطلوبہ جنگ بندی پانچ ماہ قبل افغانستان میں برسراقتدار طالبان کی ثالثی سے حاصل ہوئی تھی اور اب کوئٹہ حملے اور جنگ بندی کے خاتمے سے یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان خونریز تشدد کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔

پیر کے بیان اور اس کے دو دن بعد تحریک طالبان کی کارروائی کو پاکستان کے اقتدار اعلیٰ، پاکستان کی حکومت اور فوج کے لیے ایک طرح کی وارننگ کہا جا رہا ہے۔ کیا یہ وارننگ پاک فوج کے سربراہ کی تبدیلی سے متعلق ہے، کیونکہ جنرل قمر جاوید باجوہ توسیع کے بعد بالآخر چھ سال بعد منگل کو ریٹائر ہوگئے اور اپنا عہدہ جنرل عاصم منیر کو سونپ دیا۔ یہ جنرل باجوہ ہی تھے، جنہوں نے تحریک طالبان کے ساتھ طویل جنگ کے بعد بالآخر افغان طالبان کی ثالثی سے ٹی ٹی پی تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات اور جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی فوج کی سربراہی میں اس تبدیلی کے بارے میں تحریک طالبان کا ردعمل زیادہ مثبت نہیں ہے اور عاصم منیر کی جانب سے باجوہ کی جگہ لینے کے بعد تحریک طالبان سے جنگ بندی کے حوالے سے فوج کی کمان کے نقطہ نظر میں تبدیلی تصور کیا جا رہا ہے۔

اگرچہ عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کو پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف پارٹی کے خلاف کارروائی سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ عاصم منیر عمران خان کے مخالفین میں سے ایک سمحھے جاتے ہیں۔ اس موقع پر یہ کہنا ضروری ہے کہ اس ملک کے پیچیدہ فوجی سکیورٹی ایکویشن میں یہ تحریک طالبان کے خلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ تحریک طالبان نے حالیہ کارروائی راولپنڈی کی تقریب کے ایک دن بعد عاصم منیر کو اپنی تیاری کا پیغام دینے کے لیے انجام دی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ  امور حنا ربانی کے دورہ افغانستان کو بھی ان واقعات سے جوڑا جا رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دورے کا مقصد تعلیم، تجارت، سرمایہ کاری، علاقائی مواصلات اور عوام سے عوام کے رابطوں کے شعبوں میں تبادلہ خیال کرنا تھا، لیکن ربانی کے دورہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس دورے کو دونوں ممالک کی سرحد پر سکیورٹی کی صورتحال سے متعلق اور خاص طور پر تحریک طالبان کے بیان سے اس لیے جوڑا جاسکتا ہے کہ یہ دورہ ایسے وقت انجام دیا گیا ہے، جب ٹی ٹی پی سے معاہدہ ختم ہوگیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس دورے کا مقصد افغان طالبان کو تحریک طالبان پر دباؤ ڈالنے پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ پاکستانی حکومت کے مطالبات کو تسلیم کریں، جن میں اس گروپ کی تحلیل اور پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا شامل ہے، البتہ دونوں ممالک کی سرحد پر تجارت کے لئے خرلاچی کسٹمز کو دوبارہ کھولنا بھی شامل ہے اور یہ پاکستانی حکومت کی طرف سے حکمران طالبان کو ٹی ٹی پی کے مسئلہ میں تعاون کا ایک طرح کا انعام بھی ہوسکتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 1028149

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1028149/طالبان-کا-پاکستانی-حکومت-کے-ساتھ-ہنی-مون-ختم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org