1
Sunday 4 Dec 2022 22:16

مغربی ایشیا خطے سے متعلق امریکی پالیسیاں

مغربی ایشیا خطے سے متعلق امریکی پالیسیاں
تحریر: ڈاکٹر محمد مہدی مظاہری
 
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد مونروئے ڈاکٹرائن (گوشہ نشینی پر مبنی حکمت عملی) کو ترک کر کے عالمی ایشوز میں فعال کردار ادا کرنے کی پالیسی اپنائی۔ مغربی ایشیا خطے میں یہ حکمت عملی اپنے آغاز سے ہی دو بنیادوں پر استوار تھی جو مغرب کی جانب انرجی کی ترسیل کی سکیورٹی یقینی بنانے اور اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے پر مشتمل تھیں۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران اس خطے سے متعلق امریکی اقدامات اسی حکمت عملی کی بنیاد پر انجام پاتے آئے ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی وہ اہم ترین واقعہ تھا جس نے امریکی مفادات کو خطرات سے دوچار کیا اور امریکہ کے اثرورسوخ کو سنجیدہ قسم کے چیلنجز سے روبرو کیا۔ لہذا امریکہ نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے ہی مختلف قسم کے دفاعی اقدامات انجام دینا شروع کر دیے۔
 
یہ دفاعی اقدامات خطے میں فوجی اڈوں کی تشکیل، براہ راست فوجی موجودگی اور خطے میں اپنے اتحادی اور دوست ممالک سے سکیورٹی معاہدے تشکیل دینے پر مشتمل تھے۔ اس کے بعد امریکہ افغانستان اور عراق کو براہ راست فوجی جارحیت کا نشانہ بنا کر خطے کے آرڈر کو امریکی اثرورسوخ میں اضافے کی غرض سے مکمل طور پر اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ البتہ امریکہ میں ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے برسراقتدار آنے سے کچھ حد تک طریقہ کار میں فرق پیدا ہوا تھا جس کا اثر مغربی ایشیا خطے سے متعلق امریکی پالیسیوں پر بھی پڑتا رہا تھا۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی بش حکومت کی پالیسیاں امریکہ کی سربراہی میں یونی پولر دنیا تشکیل دینے پر مبنی تھیں۔
 
جبکہ اس کے برعکس ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ براک اوباما حکومت مغربی ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی تھی اور اس نے نرم طاقت اور ذہین طاقت کا زیادہ استعمال کیا۔ براک اوباما حکومت نے مغربی ایشیا کے سکیورٹی امور خطے میں اپنے اتحادی ممالک کے سپرد کرنے کی کوشش کی اور پس منظر میں رہ کر دور سے ان کی حمایت کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ اس حکمت عملی کا اصل مقصد دنیا والوں کو امریکہ کا مثبت چہرہ دکھانے کی کوشش کرنا تھا اور سابق صدر جرج بش جونیئر کے دور میں امریکی امیج میں پیدا شدہ خرابیوں کو دور کرنا تھا۔ بعد میں جب ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بنے تو انہوں نے براک اوباما کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے "پہلے امریکہ" کا نعرہ بھی لگایا لیکن ساتھ ساتھ مغربی ایشیا میں مداخلت بڑھانے کا عندیہ بھی دے دیا۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال تھا کہ عالمی سطح پر امریکہ کی پوزیشن بہتر بنانے اور اس کا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے اس قسم کی حکمت عملی ضروری ہے۔ ایران کے مقابلے میں خلیجی ریاستوں کے ساتھ ایک مضبوط اتحاد کی تشکیل، مشرق وسطی میں امن خطرے میں پڑ جانے کی قیمت پر اسرائیل سے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینا، شام میں تنازعات کے حل کیلئے روس سے تعاون میں اضافہ اور عراق میں داعش کے خلاف جنگ ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کی پالیسیوں کے چند نمونے ہیں۔ لیکن بہت جلد سامنے آنے والا مسئلہ مشرق وسطی میں مداخلت آمیز پالیسیوں اور اقدامات کا "پہلے امریکہ" پر مبنی نعرے سے واضح تضاد تھا۔ یہ تضاد امریکی پالیسیوں میں اصلاح اور تبدیلی کا متقاضی تھا لہذا ٹرمپ حکومت نے اپنی مدت کے آخری مہینوں میں مغربی ایشیا سے فوجی انخلاء پر زیادہ توجہ دی۔
 
لہذا کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں حکومتوں کی تبدیلی مغربی ایشیا خطے سے متعلق امریکی حکمت عملی پر اثرانداز ہونے والا اہم سبب ہے۔ لیکن یقیناً یہ واحد سبب نہیں ہے۔ دراصل، مغربی ایشیا خطے سے متعلق امریکی پالیسیوں میں کارفرما اہم ترین سبب امریکہ کے وہ مستقل اہداف اور مفادات ہیں جو اس خطے سے وابستہ ہیں اور تمام امریکی حکومتیں انہی کی روشنی میں حکمت عملی تشکیل دیتی ہیں۔ یہ اہداف اور مفادات درج ذیل ہیں: اسرائیل کی حمایت، ایران کے علاقائی اثرورسوخ اور جوہری پروگرام کو کنٹرول کرنا، امریکہ سے ہم آہنگی نہ رکھنے والے دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو کو روکنا، مہاجرین کی تعداد میں کمی لانا، انرجی محصولات کی آسان ترسیل کو یقینی بنانا، خطے میں امریکی اتحادیوں کی سلامتی یقینی بنانا اور خطے کے ممالک کے اندرونی امور اور خارجہ پالیسی میں مداخلت کرنا۔
 
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی صدر جس پارٹی سے بھی وابستہ ہو، وہ مغربی ایشیا سے متعلق اپنی پالیسیوں میں اسرائیل کی حمایت اور ایران کو کنٹرول کرنا سرفہرست قرار دیتا ہے۔ ہر امریکی صدر فوجی اڈوں کے ذریعے ایران کا محاصرہ کرنے سے لے کر فوجی حملے کی دھمکیوں، مذاکرات اور معاہدے اور آخرکار زیادہ سے زیادہ دباو تک جیسے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے مختلف میدانوں میں ایران کے اثرورسوخ کو روکنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ اسی طرح مسئلہ فلسطین کی اہمیت کم کرنے، ایران کو عرب ممالک کا اصل دشمن ظاہر کرنے اور عرب ممالک کو اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی ترغیب دلانے کے ذریعے اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کی کوشش میں مصروف رہا ہے۔ پس مغربی ایشیا خطے سے متعلق امریکی پالیسیاں عالمی سطح پر اس کے اہداف، مفادات اور ترجیحات کے تابع ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1028488
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش