0
Sunday 4 Dec 2022 19:59

سعودی عرب میں شیعہ راہنماوں کی گرفتاریوں کی نئی لہر

سعودی عرب میں شیعہ راہنماوں کی گرفتاریوں کی نئی لہر
تحریر: علی واحدی

ایک ایسے عالم میں کہ جب سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے ملک کو جدید اصلاحات اور مغربیت کی طرف لے جا رہے ہیں، وہ تشیع کے خلاف اپنی مذموم حرکتیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بن سلمان کے اصلاح پسندی کے دعوؤں کے باوجود، آل سعود اب بھی ایک جابر اور مطلق العنان حکومت ہے، جو سعودی شہریوں بالخصوص اس ملک کی شیعہ اقلیت پر بے شمار ظلم ڈھاتی اور ان کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ آل سعود حکومت، جو اس ملک کے شیعوں کے خلاف کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کرتی، اس نے ایک بار پھر بڑے پیمانے پر شیعہ رہنماؤں کی گرفتاری اور نظربندی کا سلسہ شروع کر دیا ہے۔ اسی بنا پر خبری ذرائع نے اعلان کیا کہ ریاض حکام نے ایک سال میں دوسری مرتبہ مدینہ منورہ کے معروف شیعہ علماء میں سے ایک شیخ کاظم العمری کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس شیعہ عالم کے دو بیٹوں کو سعودی سکیورٹی فورسز نے پہلے سے ہی گرفتار کر رکھا ہے  اور وہ 2022ء کے آغاز سے جیل میں ہیں۔

شیخ کاظم العمری کو ایسے عالم میں دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ چند ماہ پہلے یعنی اپریل 2022ء میں جیل سے رہا ہوئے تھے۔ شیخ کاظم العمری مرحوم آیت اللہ محمد العمری کے فرزند اور مدینہ منورہ میں آیت اللہ سیستانی کے نمائندے ہیں۔ ان کی حالیہ گرفتاری کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہے اور سعودی اداروں نے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔ العمری کو اس وقت گرفتار کیا گیا، جب ریاض میں حکام نے یوکرین کی جنگ سے توجہ ہٹانے اور مغرب کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے سائے میں سعودی تیل کی برآمدات ميں اضافہ کا اقدام انجام دیا ہے اور اس پر عوام کہ ممکنہ ردعمل کو دبانے کے لئے سیاسی اور سماجی کارکنوں کو زیادہ شدت کے ساتھ دبانے کے ایجنڈے پر عمل شروع کر دیا ہے۔ ان گرفتاریوں کے نتیجے میں بہت سے ایسے علماء و عمائدیں کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں، جو عوام میں مقبول ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق شیخ کاظم العمری کی چونکہ کوئی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہیں اور وہ صرف اور صرف مذہبی اور سماجی کاموں اور سرگرمیوں پر مرکوز ہیں، لہذا ان کی گرفتاری کا محرک مدینہ کے شیعوں میں ان کی مذہبی حیثیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
 
سعودی حکام شیعہ رہنماؤں کی مقبولیت اور معقولیت کو ہرگز برداشت نہیں کرتے، حتی وہ شیعہ بھی جن کے ریکارڈ میں سیاسی سرگرمیاں نہیں ہیں، وہ بھی آل سعود کے قہر سے محفوظ نہیں ہیں۔ شیخ کاظم العمری کی گرفتاری شیعہ رہنماؤں کے خلاف سعودیوں کے غیر انسانی اقدامات کی صرف ایک مثال ہے۔ گذشتہ برسوں میں کئی علماء کو مختلف بہانوں سے گرفتار کرکے طویل عرصے تک جیلوں میں ڈالا گیا، حتیٰ کہ ان میں سے بعض کو بغیر کسی جرم کے موت کی سزا سنائی گئی۔ دو ہفتے قبل دو عظیم شیعہ علماء کو گرفتار کیا گیا، جن کی کوئی سیاسی سرگرمی نہیں تھی۔ سعودی فوجداری عدالت نے حال ہی میں شیعہ عالم سید ہاشم الشخص کو بغیر کسی قانونی جواز کے 30 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت کے دوران جن الزامات کا اعلان کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے پاس انہیں گرفتار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ تاہم اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے سعودی حکومت کے اعلیٰ حکام نے ان کے خلاف مقدمہ درج کر رکھا ہے۔

شیخ محمد العباد ایک اور شیعہ عالم ہیں، جنہیں سکیورٹی فورسز نے نومبر کے آخر میں دوبارہ گرفتار کیا تھا، جن کے بارے میں ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اس کارروائی کو سعودی حکام نے جبری گمشدگیوں کی فہرست میں شامل کیا ہے اور اسی وجہ سے العباد اور دیگر زیر حراست افراد کی قسمت کے بارے میں بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ اس سے قبل، ایک ممتاز شیعہ عالم شیخ نمر باقر النمر، جو بین الاقوامی مخالفت کے باوجود تین سال تک سعودی جیلوں میں نظر بند رہے، ان کو بالآخر جنوری 2016ء میں سعودی حکومت نے پھانسی دے دی تھی۔ سعودی عرب میں سرگرم انسانی حقوق کمیٹی نے بارہا ایسے جرائم پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔ اس کمیٹی کے مطابق شیعہ رہنماؤں کی گرفتاری اور ان کے حقوق کی پامالی واضح تسلط پسندی ہے۔ آئین میں انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، لیکن یہ اقدامات آزادیوں کو محدود کرتے ہیں اور یہ مسئلہ سعودی عرب میں اصلاحات کے نفاذ کے حوالے سے محمد بن سلمان کے دعوے کے جھوٹ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق مصر کے ساتھ ساتھ سعودی عرب  کا بھی دنیا میں پھانسیوں کے حوالے سے ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں اس معاملے پر متعدد بار تشویش کا اظہار کرچکی ہیں، لیکن سعودی رہنماء عالمی انتباہات کی پرواہ کیے بغیر اپوزیشن کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ قطیف اور الاحساء میں شیعہ آباد ہیں اور سعودی ان علاقوں کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں، تاکہ حکومت کے خلاف شیعوں کی کسی بھی تحریک کو روکا جا سکے۔ 2011ء میں عرب بہار کے آغاز کے بعد سعودی عرب کو خطے کے دیگر آمرانہ ممالک کی طرح اس عوامی ردعمل سے سخت خطرہ محسوس ہوا اور آل سعود نے شروع ہی سے شیعہ علاقوں پر سختی سے قابو پانے کی کوشش کی۔ ان علاقوں میں بھی پرامن احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے اور مظاہرین نے شدید احتجاج کیا اور اصلاحات اور عدل و انصاف کا مطالبہ کیا، لیکن ان مظاہروں کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید جبر کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ ہی عرصے کے بعد یہ احتجاج تھم گیا۔

بن سلمان کے دور میں شیعوں کی ابتر صورتحال
اگرچہ سعودی عرب میں شیعوں کے خلاف ہمیشہ ظلم ہوتا رہا ہے، لیکن جب سے محمد بن سلمان برسراقتدار آئے ہیں، شیعوں کو سختی سے دبایا گیا ہے۔ ممتاز شیعہ علماء اور زعماء کو نشانہ بنا کر مذہبی انقلابات اور شیعہ نوجوانوں کی تحریک کو روکنے کی کوشش کی گئی، تاکہ وہ آل سعود حکومت کے خلاف کچھ بھی نہ کرسکیں۔ سعودی حکام کو سنی مذہب کے شہریوں کی طرف سے کسی حد تک راحت ملی ہے اور ریاض کے خلاف ان گروہوں کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن اہل تشیع کا معاملہ مختلف ہے اور یہ مذہبی اقلیت جو سالہا سال سے سعودیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار رہی ہے، کسی بھی وقت ایک مضبوط عوامی تحریک میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ اسی وجہ سے سعودی عرب میں تخت سنبھالنے کا خواب دیکھنے والے بن سلمان اپنے تمام ممکنہ مخالفین بالخصوص شیعہ رہنماؤں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

معاشرے میں اپنے بااثر کردار کی وجہ سے، شیعہ علماء اکثر حکومت کے خلاف سیاسی اور عوامی تحریکوں کے رہنماء ہوتے ہیں۔ شیعہ علماء، سعودی ریاستی سرپرستی میں کئی دہائیوں سے جاری امتیازی سلوک کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں اور سیاسی مساوات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، سعودی حکومت، جو کسی بھی اختلافی آواز کو برداشت نہیں کرتی، اپنے مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے شیعہ علماء کو ہراساں اور گرفتار کرتی ہے۔ آل سعود کے اقدامات شیعوں کے مذہب اور رائے کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہیں، جن کا ذکر انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں کیا گیا ہے، لیکن دوسری طرف سعودی عرب نے کھلے عام اعلان کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی کسی پابندی کی پاسداری نہیں کرتا اور اگر اسے کہیں سے معمولی سے خطرے کے بو آئی تو وہ اپنے مخالفین کا قلع قمع کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔

تمام شیعہ سعودی ظلم کی زد میں ہیں
علماء کے علاوہ دیگر شیعہ بھی سعودی حکومت کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں ہیں اور وہ بھی اپنے قائدین جیسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ اس کی واضح مثال گذشتہ ہفتوں میں دیکھنے کو ملی، جب 18 سال سے کم عمر کے متعدد شیعہ نوجوانوں کو نامعلوم وجوہات اور جھوٹے الزامات کی بنا پر موت کی سزا سنائی گئی، ان افراد میں 10 سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آل سعود بچوں سے بھی خوف زدہ ہے۔ سعودی شیعوں نے طویل عرصے سے ملک میں جاری امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند کی ہے، دوسری طرف سعودی حکومت اپنے مزموم ایجنڈے کے مطابق وہابیت کے تکفیری نظریئے کو پرواں چڑھا رہی ہے۔ تکفیری گروہ کو اپنے نظریئے کے پرچار کی اجازت ہے، یہ گروہ شیعہ مذہب کو بدعت سمجھتے ہیں اور شیعوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔ سعودی عرب میں شیعوں کی سماجی حیثیت اپنی آبائی جڑوں کے باوجود غیر ملکی مسلمان شہریوں سے بھی کم ہے اور وہ تیسرے درجے کے شہری تصور کیے جاتے ہیں۔

تشیع سے تعلق رکھنے والے شہری بہت سے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اگرچہ سعودی عرب کے تیل کے بہت سے ذخائر مشرقی سعودی عرب اور شیعہ علاقوں بالخصوص صوبہ قطیف میں موجود ہیں، لیکن شیعوں کو تیل کی برآمدات کے عوض حکومت سے ایک ریال بھی نہیں ملتا اور وہ بدترین معاشی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری طرف شیعہ افراد کو سرکاری عہدوں اور اہم دفاتر تک پہنچنے سے بھی محروم رکھا جاتا ہے اور وہ مجبوراً ایسی جگہوں پر ملازمت کرتے ہیں، جو سب سے کم تر ہوتی ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات منقطع ہونے کے بعد سے شیعوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک میں مزید اضافہ ہوا ہے اور سعودیوں نے ہمیشہ یہ بہانہ بنانے کی کوشش کی ہے کہ عرب ممالک کو غیر محفوظ بنانے کے لیے خطے کے شیعوں کو ایران نے پالا پوسا ہے، لہذا شیعوں کے خلاف ظلم و ستم، جرائم اور سختیاں جائز ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1028501
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش