1
Monday 5 Dec 2022 23:12

فلسطین میں روز بروز شدید ہوتی مسلح اسلامی مزاحمت

فلسطین میں روز بروز شدید ہوتی مسلح اسلامی مزاحمت
تحریر: حسین فاطمی
 
گذشتہ ہفتے مغربی کنارے کے شہر نابلس کے قریب واقع قصبے حوارہ میں غاصب صیہونی فوجی نے انتہائی قریب سے فائرنگ کر کے نہتے فلسطینی جوان عمار مفلح کو شہید کر دیا تھا۔ اس واقعہ کی ویڈیو بھی دنیا بھر میں وائرل ہو چکی ہے۔ فلسطین اتھارٹی نے اس دلخراش واقعہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور اسے فلسطینی قوم کے خلاف جاری صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کا تسلسل قرار دیا۔ اسی طرح فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہ عرین الاسود (شیروں کی کچھار) نے بھی اس افسوسناک واقعہ کے بارے میں بیانیہ جاری کیا جس میں مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی شہریوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ گھروں سے باہر نکل آئیں اور گلی کوچوں میں غاصب صیہونی فورسز کے خلاف ہر ممکنہ طریقے سے مزاحمت کا اظہار کریں۔
 
شہید عمار مفلح کی شہادت اس قدر مظلومانہ اور بے رحمانہ تھی کہ یورپی ممالک کے سربراہان بھی اس کی مذمت کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ یورپی یونین نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی شہریوں کے خلاف بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینی عام شہریوں کی قتل و غارت کے بارے میں تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے بھی فلسطینیوں کے خلاف روز بروز بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے خاتمے اور اس خطے میں شدت پسندی کرنے والوں کے خلاف عدالتی کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطینی خبررساں ادارے "معا" کے مطابق فلسطین میں یورپی یونین کے نمائندے نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں مقبوضہ بیت المقدس سمیت مغربی کنارے میں شدت پسندی بڑھ جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
 
دوسری طرف متحدہ عرب امارات مظلوم فلسطینی قوم کی پشت میں خنجر گھونپنے میں مصروف ہے۔ "یہودی طاقت" نامی صیہونی پارٹی کے سربراہ ایتمار بن گوہر نے مقبوضہ فلسطین میں متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے میں "متحدہ عرب امارات کے قومی دن" کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کی ہے۔ یاد رہے ایتمار بن گوہر عنقریب صیہونی رژیم میں قومی سلامتی کے وزیر کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔ انہوں نے اس تقریب میں شرکت کے دوران کہا: "ہم کسی قسم کی مراعات دیے بغیر اور ان کے سامنے جھکے بغیر عرب حکمرانوں سے امن معاہدہ انجام دے سکتے ہیں۔" صیہونی سیاسی رہنما نے مزید کہا: "میں متحدہ عرب امارات کو اس کے قومی دن کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس تقریب سے خوش ہوں۔ حقیقی امن اس طرح ہوتا ہے۔"
 
مقبوضہ فلسطین کے علاقے مغربی کنارے میں نئے اسلامی مزاحمتی گروہ "عرین الاسود" کی تشکیل کے بعد حال ہی میں ایک نیا اسلامی مزاحمتی گروہ ابھر کر سامنے آیا ہے جس کا نام "الکہف الاسود" ہے۔ یہ گروہ غاصب صیہونی فورسز اور یہودی آبادکاروں کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں۔ صیہونی حکمرانوں نے اس نئے اسلامی مزاحمتی گروہ کو عرین الاسود کا وارث قرار دیا ہے۔ اسی طرح صیہونی حکام نے مزید اسلامی مزاحمتی گروہ سامنے آنے کی وارننگ بھی دی ہے۔ اس بارے میں اخبار انڈیپینڈنٹ لکھتا ہے: "2002ء میں اسرائیلی فوج نے انتفاضہ کو کچلنے کیلئے مغربی کنارے میں بڑا فوجی آپریشن انجام دیا تھا اور جنین شہر خاص طور پر جنین کیمپ میں وسیع پیمانے پر تباہی مچائی تھی۔ اس وقت اسرائیلی فوج نے جنین کو "شہد کی مکھیوں کا چھتہ" قرار دیا تھا اور وہاں موجود مجاہدین پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی تھی۔"
 
جنین شہر پر اس فوجی آپریشن اور فضائی حملوں کو 20 سال گزر جانے کے بعد اب ایک بار پھر فلسطینی جلاوطن شہریوں کا مہاجر کیمپ میڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ حال ہی میں مختلف اسلامی مزاحمتی گروہ سامنے آئے ہیں جو ایک ہی کنٹرول روم سے منسلک ہیں۔ یہ گروہ آپس میں ہم آہنگی کے ساتھ دفاعی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ ان اسلامی مزاحمتی گروہوں کے نمائندوں نے اپنے چہروں پر نقاب لگا کر ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی انجام دی ہے۔ ان سب نے ماتھے پر پٹیاں باندھ رکھی تھیں جن پر "شہد کی مکھیوں کا چھتہ" لکھا ہوا تھا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران جنین میں شہید ہونے والے فلسطینی مجاہدین کی اکثریت ایسے جوانوں پر مشتمل تھی جن کی عمر 20 سال کے لگ بھگ تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ 2002ء میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے دوران پیدا نہیں ہوئے تھے یا بہت ہی کم عمر تھے۔
 
مغربی کنارے میں جوان فلسطینی مجاہدین پر مشتمل اسلامی مزاحمتی گروہوں کی تشکیل ایسا عمل ہے جو صرف جنین شہر تک محدود نہیں بلکہ ایک اور ایسا ہی گروہ نابلس میں بھی تشکیل پا چکا ہے۔ اسی طرح یوں محسوس ہوتا ہے کہ طولکرم اور خلیل میں بھی ایسے ہی اسلامی مزاحمتی گروہ سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ یہ تمام فلسطینی مزاحمتی گروہ ایک پرچم تلے آپس میں متحد ہو کر مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں اور وہ مسلح جدوجہد کو ہی اپنے دفاع کا بہترین راستہ تصور کرتے ہیں۔ فلسطین کی رائے عامہ بھی مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ حال ہی میں فلسطین کے سیاسی تحقیق اور رائے عامہ کو جانچنے کے مرکز نے ایک سروے انجام دیا تھا جس میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ غاصبانہ قبضہ ختم کر کے خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا بہترین راستہ کیا ہے؟ اس میں شریک 41 فیصد افراد نے مسلح جدوجہد کا انتخاب کیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 1028692
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش