QR CodeQR Code

کیا السوڈانی امریکہ کو نکال باہر کریں گے؟

7 Dec 2022 22:44

اسلام ٹائمز: اگرچہ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس کی شہادت کے بعد عراقی پارلیمنٹ نے امریکہ کے ساتھ عراق کے سکیورٹی معاہدے کو کالعدم قرار دے کر ملک سے امریکہ کے فوجی انخلاء کی قرارداد منظور کر لی تھی لیکن بدقسمتی سے تین برس گزر جانے کے بعد اب بھی عراق میں امریکی فوجی موجود ہیں اور کچھ فوجی اڈے اب بھی امریکہ کے زیر کنٹرول ہیں۔ ان میں عین الاسد، بغداد ایئرپورٹ کے قریب وکٹوریا، صوبہ اربیل میں حریر اور اربیل ایئرپورٹ کا ایک حصہ شامل ہیں۔ پارلیمنٹ میں قرارداد منظور ہونے کے بعد قانون کی روشنی میں وزیراعظم یہ کام انجام دے سکتا ہے۔ السوڈانی کے موقف سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سنجیدگی سے یہ کام انجام دینے کے درپے ہیں۔


تحریر: سید ہادی سید افقہی
 
عراق کے نئے وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی اپنی شخصی زندگی میں بھی اور سماجی پہلو سے بھی عوام میں محبوبیت کے حامل ہیں۔ عراقی عوام انہیں مومن، دیانت دار اور باعمل شخص تصور کرتی ہے۔ محمد شیاع السوڈانی کسی امیر گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ بہت سادہ زندگی کے مالک رہے ہیں اور اب بھی سادگی سے زندگی بسر کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ وزارت عظمی کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے کئی اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہے ہیں اور بہت اچھی کارکردگی دکھا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عراقی عوام ان کا احترام بھی کرتے ہیں اور ان پر اعتماد کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ان کی ایک اہم خصوصیت حریت فکر ہے جس کی وجہ سے وہ عراق کو بھی ایک خودمختار، طاقتور اور مستحکم ملک بنانے پر مصر ہیں۔ دوسری طرف امریکی حکام ہر گز ایسا نہیں چاہتے۔
 
عراق میں امریکی سفیر اب تک چھ بار السوڈانی سے ملاقات کر چکے ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ امریکی سفیر کی جانب سے عراقی وزیراعظم سے کئے گئے مطالبات اور عراقی وزیراعظم کی جانب سے واضح طور پر منع کر دینے کے بارے میں بھی خبریں شائع ہو چکی ہیں۔ مجموعی طور پر محمد شیاع السوڈانی کے طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکہ سے خوف نہیں رکھتے اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ السوڈانی نے وزیراعظم بننے کے بعد ایسے افراد کو فوجی اور سکیورٹی عہدوں سے ہٹا دیا ہے جو امریکہ کے حامی سمجھے جاتے تھے اور ان کی جگہ دیانتدار اور آزادانہ سوچ کے مالک افراد کو تعینات کیا ہے۔ اس کا مقصد عراق کی خودمختاری واپس لوٹا کر اسے خطے اور عالمی سطح پر حقیقی مقام عطا کرنا ہے۔
 
اگرچہ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس کی شہادت کے بعد عراقی پارلیمنٹ نے امریکہ کے ساتھ عراق کے سکیورٹی معاہدے کو کالعدم قرار دے کر ملک سے امریکہ کے فوجی انخلاء کی قرارداد منظور کر لی تھی لیکن بدقسمتی سے تین برس گزر جانے کے بعد اب بھی عراق میں امریکی فوجی موجود ہیں اور کچھ فوجی اڈے اب بھی امریکہ کے زیر کنٹرول ہیں۔ ان میں عین الاسد، بغداد ایئرپورٹ کے قریب وکٹوریا، صوبہ اربیل میں حریر اور اربیل ایئرپورٹ کا ایک حصہ شامل ہیں۔ پارلیمنٹ میں قرارداد منظور ہونے کے بعد قانون کی روشنی میں وزیراعظم یہ کام انجام دے سکتا ہے۔ السوڈانی کے موقف سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سنجیدگی سے یہ کام انجام دینے کے درپے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ توقع رکھنا صحیح نہیں کہ ایک دن میں امریکی فوجی عراق سے نکل جائیں گے۔
 
اگرچہ گذشتہ عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کی حکومت میں بھی امریکہ کے ساتھ فوجی انخلاء سے متعلق مذاکرات انجام پائے تھے لیکن وہ محض ظاہری حد تک تھے اور امریکیوں سے انخلاء کیلئے کسی قسم کی یقین دہانی حاصل نہیں کی گئی تھی۔ اسلامی جمہوریہ ایران نہ صرف عراق بلکہ پورے خطے سے امریکہ کے مکمل فوجی انخلاء پر زور دیتا آیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نئی عراقی حکومت اس مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے آگے بڑھائے گی۔ حال ہی میں محمد شیاع السوڈانی نے ایک اعلی سطحی اقتصادی، تجارتی اور سکیورٹی وفد کے ہمراہ ایران کا دورہ کیا ہے۔ ان کے ہمراہ خطے خاص طور پر کردستان کے مسائل کا جائزہ لینے کیلئے سکیورٹی عہدیداران بھی موجود تھے۔ ایران میں حالیہ ہنگاموں میں دہشت گرد گروہ کوملہ اور ڈیموکریٹ بھی ملوث تھے۔
 
ان دہشت گرد گروہوں نے ایران کی سرحد کے قریب عراقی کردستان میں ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ ان دہشت گرد گروہوں نے ایران میں اسلحہ اسمگل کر کے کئی دہشت گردانہ کاروائیاں بھی انجام دی ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ ایران کے علاقے کردستان کو بھی عراقی کردستان کی طرح خودمختار بنانا چاہتے ہیں اور اس کے بعد اسے مکمل طور پر ایران سے جدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ البتہ ایران ایک طاقتور ملک ہے اور وہ کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ محمد شیاع السوڈانی نے رہبر معظم انقلاب اور ایرانی صدر سے اپنی ملاقاتوں کے دوران عراق کے شمالی علاقہ جات سے دہشت گرد عناصر کی صفائی پر خاص تاکید کی ہے اور کہا ہے کہ عراقی حکومت کسی شخص یا گروہ کو ان علاقوں سے ایران کے خلاف سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت نہیں دے گی۔
 
اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ یہ کام وقت طلب ہے اور تہران کو یہ یقین حاصل کرنا پڑے گا کہ نئی عراقی حکومت ان دہشت گروہوں کے اخراج یا غیر مسلح کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ یہ مسئلہ پوری قوت سے اٹھایا گیا تھا اور السوڈانی نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ عراق کی مسلح افواج مشترکہ سرحد پر فورسز تعینات کرے گی تاکہ دہشت گردوں کی فعالیت روکی جا سکے۔ اس کے بعد ان دہشت گرد گروہوں کو ہتھیار پھینکنے پر مجبور کیا جائے گا۔ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی کردستان کے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ ایران کیلئے بہت اہم ہے کیونکہ گذشتہ دو ماہ کے دوران ان دہشت گرد گروہوں نے حتی ایران کے بعض قصبوں پر قبضہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ایران نے بھی مشترکہ سرحد پر فورسز تعینات کر دی ہیں۔


خبر کا کوڈ: 1029058

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1029058/کیا-السوڈانی-امریکہ-کو-نکال-باہر-کریں-گے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org