QR CodeQR Code

عالمی عدالت کا امتحان

7 Dec 2022 19:43

اسلام ٹائمز: اب اس فلسطینی صحافی کے قتل کا مقدمہ عالمی عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔ لہذا اس بین الاقوامی ادارے کو اس سلسلے میں تحقیقات کرتے ہوئے اس جرم میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث افراد اور اس قتل کے مرتکب افراد کی شناخت اور انہیں ضرور سزا دینی چاہیئے۔ ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے صدر دفتر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران الجزیرہ کے وکیل روڈنی ڈکسن نے اس بات پر زور دیا کہ عدالت کو ابو عاقلہ کے قتل میں براہ راست ملوث افراد کی نشاندہی کرنی چاہیئے، کیونکہ عدالت کو ان لوگوں کے خلاف فیصلہ دینے کا اختیار ہے، جنہوں نے اس جرم کا حکم دیا تھا۔


ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
الجزیرہ قطر نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شیریں ابو عاقلہ کی شہادت کے حوالے سے اپنی شکایت بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جمع کرا دی۔ 11 مئی 2022ء کو اسرائیلی فوجیوں نے مغربی کنارے کے شہر جنین میں قطر کے الجزیرہ چینل کی ایک فلسطینی رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کو قتل کر دیا تھا۔ درحقیقت اس جرم کے حوالے سے صیہونی حکومت کے خلاف دو قانونی دعویدار موجود ہیں۔ فلسطینیوں اور قطر کے الجزیرہ نیٹ ورک دونوں کو اس جرم کی پیروی کا حق حاصل ہے، کیونکہ ابو عاقلہ ایک طرف فلسطینی شہری ہیں اور دوسری طرف وہ قطر کے الجزیرہ نیٹ ورک سے منسلک تھیں اور فرائض کی ادائیگی کے دوران صیہونی بربریت کا شکار ہوئیں۔ قبل ازیں فلسطینی صحافیوں کی سنڈیکیٹ نے اپنی شکایت بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جمع کرائی تھی۔

اب الجزیرہ کی قانونی ٹیم، جس نے اس کیس کی مکمل اور تفصیلی تحقیقات کی ہیں اور کئی عینی شاہدین کے بیانات کی بنیاد پر نئے شواہد حاصل کیے ہیں، اس نے بھی اپنی شکایت بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جمع کرا دی ہے۔ اس قطری ٹی وی چینل نے کہا ہے کہ اس کے رپورٹر کی گواہی اور قتل سے متعلقہ حاصل ہونے والی نئی ویڈیوز سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قابض حکومت کے فوجی دستوں نے ابو عاقلہ اور ان کے ساتھیوں پر گولیاں برسائی تھیں۔ اس شکایت کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جمع کرانے کی وجہ یہ ہے کہ شیریں ابو عاقلہ کے قتل کو جنگی جرم کی مثال سمجھا جاتا ہے۔ اس صیہونی جرم کے بعد اقوام متحدہ کے قانونی ماہرین نے ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ "الجزیرہ نیٹ ورک کی فلسطینی رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کا صحافی یونیفارم میں قتل جنگی جرم کے مترادف ہے۔"

اس کے علاوہ، فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ قطر کا الجزیرہ نیٹ ورک ابو عاقلہ کے قتل کو عمدی اور ارادی قتل قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ جرم اسرائیلی فوجیوں نے ضرور کیا ہے، لیکن یہ جرم غیر ارادی طور پر ہوا ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے فروری 2021ء میں ایک بیان میں مقبوضہ علاقوں میں ہونے والے جرائم سے نمٹنے کے لیے اپنے دائرہ اختیار کی نشاندہی کی تھی۔ ان وجوہات کی بنا پر فلسطینیوں اور قطریوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اپنی شکایت درج کرائی ہے۔

الجزیرہ کے اس اقدام کے نتیجے میں اسرائیل اور امریکا کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ الجزیرہ کی شکایت کے بعد اسرائیل کے وزیر خزانہ Avigdor Liberman نے اسرائیل میں الجزیرہ کی نشریات کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ Yair Lapid نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی اسرائیلی فوجیوں کا احتساب نہیں کرسکتا۔ امریکی حکومت نے بھی کیس کو عدالت میں بھیجنے کی مخالفت کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نیڈ پرائس نے شیرین ابو عاقلا کے قتل کی بین الاقوامی فوجداری عدالت میں تحقیقات کے خلاف اپنے ملک کی پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: ہم اس اقدام کے خلاف ہیں۔

بہرحال اب اس فلسطینی صحافی کے قتل کا مقدمہ عالمی عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔ لہذا اس بین الاقوامی ادارے کو اس سلسلے میں تحقیقات کرتے ہوئے اس جرم میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث افراد اور اس قتل کے مرتکب افراد کی شناخت اور انہیں ضرور سزا دینی چاہیئے۔ ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے صدر دفتر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران الجزیرہ کے وکیل روڈنی ڈکسن نے اس بات پر زور دیا کہ عدالت کو ابو عاقلہ کے قتل میں براہ راست ملوث افراد کی نشاندہی کرنی چاہیئے، کیونکہ عدالت کو ان لوگوں کے خلاف فیصلہ دینے کا اختیار ہے، جنہوں نے اس جرم کا حکم دیا تھا۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ صیہونی حکومت ایک بار پھر امریکہ کی حمایت سے اس سزا سے بچ جائے گی، لیکن اگر عدالت کی طرف سے ابو عاقلہ کے قتل کی تحقیقات اور قتل میں ملوث افراد کے لئے صرف سزا کا ہی تعین ہو جاتا ہے تو یہ بھی تل ابیب کی ایک بڑی سیاسی اور قانونی شکست ہوسکتی ہے۔


خبر کا کوڈ: 1029059

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1029059/عالمی-عدالت-کا-امتحان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org